صلہ شہید کیا ہے، تب و تاب جاودانہ
حکیم محمد سعید کی شہادت
جب کبھی یہ سوچتا ہوں کہ وہ کون سے سفاک لوگ تھے جنہوں نے کراچی کے ایک نہایت، مہذب، شفیق، مہربان اور انسان دوست مسیحا حکیم محمد سعید کے سینے پر گولیاں مار کر انہیں شہید کردیا تو ذہن و دل ماؤف ہوجاتے ہیں۔ 17 اکتوبر 1998ء کو جب یہ روح فرسا خبر ملی کہ ہمدرد وقف کے بانی اور سابق گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو ان کے مطب کے باہر قتل کردیا گیا ہے تو آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں۔ ایسا لگا کہ خاندان کے کسی بہت ہی اہم فرد کا انتقال ہوگیا ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ حکیم صاحب کراچی کے ہر خاندان کا حصہ تھے۔ لاکھوں بچوں نے ان کے رسالے نونہال سے استفادہ کیا تھا۔ ان کے ادارے کا مشہور زمانہ شربت روح افزاء حقیقی معنوں میں مشروب مشرق بن چکا تھا۔ حکیم صاحب کی علم دوستی کا سب سے بڑا ثبوت مدینہ الحکمت ہے جہاں ایک بہت بڑی لائبریری، یونی ورسٹی، کالج، اسکول، میڈیکل کالج اور ایسٹرن میڈیسن کالج جیسے اہم ادارے قائم ہیں۔
حکیم صاحب کی رہائش جماعت اسلامی کراچی کے دفتر ادارہ نور حق کے پڑوس میں تھی اور وہ جماعت اسلامی کے بارے میں بہت مثبت رائے رکھتے تھے۔ حکیم سعید شہید نے بھی ہندوستان سے ہجرت کی تھی اور بہت چھوٹی سی دکان میں مطب قائم کرکے لوگوں کی بے لوث خدمت کے سفر کا آغاز کیا تھا جو ان کی زندگی ہی میں ایک شجر سایہ دار بن چکا تھا۔ کراچی کی پرتشدد لسانی سیاست نے اس فرشتہ صفت مسیحا کو بھی نہیں بخشا!
مرزا لقمان بیگ کی شہادت
19 جولائی 1999ء کی رات جماعت اسلامی ضلع بن قاسم کے امیر مرزا لقمان بیگ لانڈھی چراغ ہوٹل پر جماعت کے کارکن محمد نصیر صاحب کی رہائش گاہ پر منعقدہ ایک میٹنگ سے فارغ ہوکر گھر آرہے تھے، گھر سے بمشکل 100 میٹر کے فاصلے پر انہیں کچھ نامعلوم لوگوں نے آواز دے کر روکا۔ بیگ صاحب رک گئے، ان لوگوں نے قریب آکر فائرنگ کردی اور فرار ہوگئے۔ بیگ صاحب کو شدید زخمی حالت میں آغا خان ہسپتال پہنچایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انہیں گیارہ گولیاں لگی تھیں۔ اس اندوہناک سانحے کی اطلاع ملنے پر میں سب سے پہلے آغا خان ہسپتال پہنچا اور پھر میت کے ساتھ ان کے گھر۔ اگلی رات تک ان کے گھر رہا اور ضلعی شوریٰ کی ہنگامی میٹنگ بھی کی۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ لقمان بیگ جیسے شریف النفس اور خادم خلق کو کون قتل کرسکتا ہے؟ اور اس قتل کے محرکات کیا ہوسکتے ہیں؟ شہادت کے وقت لقمان بیگ کی عمر محض 42 سال تھی اور ان کے تینوں بیٹے نعمان، فرحان اور ثوبان بہت چھوٹی عمروں کے تھے۔ جنہیں اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم کردیا گیا تھا۔
مرزا لقمان بیگ شہید کے قاتلوں نے سمجھا ہوگا کہ ان کی شہادت سے لانڈھی کورنگی اور دیگر علاقوں میں جماعت اسلامی کی تنظیم کمزور پڑ جائے گی اور کارکنان خوف میں مبتلا ہوکر گھر بیٹھ جائیں گے لیکن یہ محض ان کی خام خیالی تھی۔ لقمان بیگ کی شہادت نے ضلع بن قاسم کے ارکان و کارکنان کے جذبوں کو مہمیز دی اور جماعت کا تنظیمی و دعوتی کام بھرپور انداز میں آگے بڑھتا رہا۔ لقمان بیگ کے بچے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور اہلیہ بھی جماعت میں زیادہ متحرک ہوگئیں۔ یہاں تک کہ 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں ہماری اس بلند حوصلہ بیٹی رفعت لقمان بیگ نے اپنے علاقے خواجہ اجمیر کالونی یوسی 7، لانڈھی ٹاؤن سے کونسلر کا الیکشن لڑا اور منتخب ہوکر اگلے چار سالوں تک اس علاقے کی خواتین اور بچوں کی خدمت کی۔