ہم تو چمن کو چھوڑ کے سوئے قفس چلے
اکیس اگست1974ء کی شام مولانا مودودیؒ امریکا سے علاج کروا کر واپس لوٹے۔ طے کیا گیا کہ کارکنان کراچی ایئرپورٹ پہنچ کر بھرپور استقبال کریں گے۔ تیاریاں شروع ہوگئیں۔ ایئرپورٹ پر تاحدِ نگاہ جماعت اسلامی کا پرچم تھامے کارکنان جمع تھے۔ مولانا ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر آئے۔ استقبالی ہجوم ان کی جھلک دیکھنے کے لیے آگے بڑھا۔ بھگدڑ کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ مولانا شدید ناراض ہوئے اور برہمی کا اظہار فرمایا۔ کچھ دیر بعد وہ باہر آئے اور اپنی اہلیہ کے بھائی کے گھر چلے گئے۔ دوسری گاڑی میں ان کی اہلیہ بیٹھ گئیں جسے میں چلا رہا تھا۔مولانا کی اہلیہ راستے میں بھی ایئرپورٹ پر ہونے والی ہڑبونگ پر خفا تھیں، کہنے لگیں ”اب تو آپ لوگ مولانا کا پیچھا چھوڑ دیں۔ دیکھیں تو سہی کیا حال کردیا ہے ان کا (اشارہ مولانا کی خرابیِ صحت کی طرف تھا)۔“ مجھے کارکنان کے جذباتی رویّے پر افسوس ہوا اور احساس ہوا کہ استقبال کے لیے چند ذمہ داران کا ایئر پورٹ آنا ہی بہتر ہوتا۔ اسی رات فاروقی مسجد سعود آباد میں جلسہ عام کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ سارے انتظامات مکمل تھے، ہزاروں لوگ مولانا کو سننے کے لیے وقت سے پہلے وہاں موجود تھے۔ جلسے کے منتظمین مولانا کو لینے کے لیے گھر پہنچے تو انہوں نے غصے سے انکار کردیا۔ وہیں کچھ لوگ مولانا سے ملاقات کے لیے پہلے سے موجود تھے، ان میں ممتاز قانون دان اے کے بروہی بھی شامل تھے۔ انہوں نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو اصرار کیا ”مولانا آپ ضرور شرکت کیجیے، لوگ دور دور سے آپ کو سننے کو آئے ہیں“۔ مولانا اے کے بروہی کی بڑی قدر کرتے تھے، چلنے پر آمادہ ہوگئے اور تیاری کے لیے اہلیہ سے کپڑے نکالنے کو کہا جو دوسرے کمرے میں تھیں۔ انہیں فکر لاحق ہوئی کہ ابھی علاج مکمل کروا کر پہنچے ہیں، پروگرامات میں شرکت کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا تو کہیں صحت پھر سے خراب نہ ہوجائے۔ اس لیے کمرے سے پوچھنے لگیں ”کہاں جا رہے ہیں؟“ مولانا کا غصہ پوری طرح ٹھنڈا نہیں ہوا تھا، اس لیے تیز لہجے میں جواب دیا ”قبرستان“۔ خیر کچھ دیر بعد موڈ بہتر ہوگیا تو کپڑے تبدیل کیے اور جلسے میں شرکت کے لیے روانہ ہوگئے۔ مولانا مودودیؒ بہت بڑے آدمی تھے۔ بڑے لوگوں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ خوشی، غمی یا غصے کے جذبات کو زیادہ دیر کے لیے اپنے حواس پر طاری ہونے نہیں دیتے۔ حاضرینِ جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا: ”جو لوگ اللہ کی راہ میں استقامت دکھاتے ہیں وہ برابر آگے بڑھتے رہتے ہیں، کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتی، کوئی تکلیف اور کوئی دکھ ان کے لیے زحمت کا باعث نہیں بنتا، وہ اپنی قربانیوں پر رنج یا افسوس نہیں کرتے بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ اس راہ میں انہیں بھی کسی قابل سمجھا گیا۔ جب ان کے دلوں میں خدا کے سوا کسی کا ڈر نہیں رہتا تو اسٹین گنیں، آنسو گیس اور لاٹھیاں ان کا راستہ نہیں روک سکتیں۔ انہیں اس کی بھی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ خدا کی راہ سے ہٹنے والوں کو کتنی دولت یا کیسا عہدہ ملتا ہے، کون وزیراعظم یا صدر بنتا ہے اور کسے محلات اور خزانے ملتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں ایسی کسی چیز کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک اصل قدر وہی ہوتی ہے جو اللہ کے ہاں ہو۔
حضرات!
اللہ کی راہ میں ڈٹ جانے والوں کے لیے فرشتے مدد لاتے ہیں، لیکن اس طرح نہیں کہ آپ کو تختِ شاہی پر بٹھادیں۔ آپ اپنے راستے پر استقامت کے ساتھ گامزن رہیں تو وہ آپ کو ہر مرحلے پر کامیاب کریں گے۔ اگر آپ اللہ کے سوا کسی کی پروا نہ کریں، اس کی رضا کے سوا کسی کی خوش نودی آپ کے پیش نظر نہ ہو تو یقین رکھیں کہ آپ ضرور غالب آئیں گے- صرف اللہ پر بھروسا، اپنے مقصدِ حیات کے لیے مسلسل ایثار و قربانی، اور استقامت کے ساتھ مسلسل جدوجہد ہی آپ کو کامیابی سے ہم کنار کرسکتی ہے۔ یہی بات میں دنیا بھر میں اسلام کے لیے کام کرنے والوں سے کہتا ہوں اور یہی میری نصیحت تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کے لیے ہے۔“
پیپلز پارٹی کو 1970ء کے انتخابات میں کراچی سے قابلِ ذکر ووٹ نہیں مل سکے تھے، لیکن بھٹو صاحب نے کراچی کے عوام کے دل جیتنے کی کچھ کوششیں ضرور کیں۔ ان کے دور میں کراچی میں پاکستان اسٹیل مل، عباسی شہید ہسپتال، سندھ میڈیکل کالج، کمپری ہینسو ہائی اسکولز اور سپرمارکیٹ لیاقت آباد جیسے ادارے بنائے گئے۔
صنعتوں کو قومیائے جانے کی عجیب و غریب پالیسی نے البتہ شہر کراچی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا، جس کے منفی اثرات کئی دہائیوں تک ختم نہیں ہوسکے۔ سرکاری ملازمتوں میں دیہی و شہری کوٹہ سسٹم کا نفاذ بھی کراچی کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوا، بلکہ پورے صوبے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کسی بھی قوم اور قومیت کے نوجوانوں کے لیے مقابلے کی فضا بہت ضروری ہوتی ہے۔ کوٹہ سسٹم جیسے فیصلے قوموں کو پیچھے لے جاتے ہیں اور نوجوان مقابلے سے راہِ فرار اختیار کرنے لگتے ہیں۔
مارچ 1976ء میں بھٹو صاحب نے جنرل محمد ضیاء الحق کو برّی فوج کا سربراہ مقرر کیا۔ بظاہر سیدھے سادے اور پروفیشنل افسر نظر آنے والے جنرل ضیاء آگے چل کر بھٹو صاحب کے لیے وبالِ جان ثابت ہوئے۔
بھٹو صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی تھے اور طویل عرصے تک اہم سرکاری مناصب پر رہ چکے تھے، عوام کے کئی طبقات میں مقبول بھی تھے، لیکن مزاج میں وڈیرہ شاہی اور آمریت کا عنصر بھی موجود تھا۔ مخالفت برداشت نہیں کرپاتے تھے اور مخالفین کو بزور قوت کچل دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔
پاکستان قومی اتحاد
1977ء میں جب انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا، اپنی فسطائی پالیسیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں بے حد کمی واقع ہوچکی تھی۔ خاص طور پر بڑے شہروں کے لوگ خوش نہیں تھے۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر کی تمام جماعتوں نے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں ایک پرچم تلے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پاکستان قومی اتحاد (پاکستان نیشنل الائنس) تشکیل دیا گیا۔ 1977ء کے انتخابات میں کراچی پاکستان قومی اتحاد کا سب سے مضبوط قلعہ ثابت ہوا۔ یہاں کے عوام نے پیپلز پارٹی کو مسترد کردیا اور قومی اتحاد کے امیدواروں کو بھاری مارجن سے کامیاب کرواکر ایک بار پھر ثابت کیا کہ اہلِ کراچی ملک کو سکیولرازم، سوشل ازم یا کسی بھی دوسرے ازم کی طرف جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، اور ملک کی نظریاتی اساس یعنی اسلام سے اس شہر کے باسیوں کی نظریاتی وابستگی بہت مضبوط بنیادوں پر ہے۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے امیدواروں سردار شیر باز خان مزاری، محمود اعظم فاروقی، مولانا محمد حسن حقانی، پروفیسر غفور احمد، مشیر پیش امام، حاجی حنیف طیب، ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان، شاہ فریدالحق اور سید منور حسن کو کامیابی حاصل ہوئی۔ سید منور حسن نے 73997 ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار معروف شاعر جمیل الدین عالی کو 33086 ووٹ مل سکے۔ پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، کیونکہ پورے ملک سے دھاندلی کی بے شمار شکایات موصول ہوئی تھیں۔
7مارچ1977ء کو ہونے والے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی نے 155، جب کہ پاکستان قومی اتحاد نے36 سیٹیں حاصل کیں۔ پورے ملک میں دھاندلی کا شور مچ گیا جس میں پاکستان قومی اتحاد پیش پیش تھا۔ اپوزیشن کی طرف سے 11 مارچ کو پورے ملک میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا۔ اپریل کے اواخر تک تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ احتجاج اس قدر بھرپور تھا کہ حکومت نے بعض شہروں میں جزوی مارشل لا لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس سے قبل تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں مشترکہ طور پر گرفتاریاں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں مختلف سیاسی پارٹیوں کا نمائندہ اجلاس ہوا جس میں طے کیا گیا کہ روزانہ تمام پارٹیوں کے کچھ کارکن اکٹھے ہوں گے اور کسی مصروف جگہ پر عوام کے سامنے گرفتاری پیش کریں گے۔ جس دن میری گرفتاری کی باری آئی تو گھر میں کسی سے تذکرہ نہیں کیا۔ بس روانہ ہونے سے قبل والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور بے اختیار ان کا ماتھا چوما۔ وہ ٹھٹھک کر رہ گئیں کہ کوئی معاملہ ضرور ہے۔ سائٹ کے چوراہے پر پولیس بڑی تعداد میں ہماری آمد کی منتظر تھی۔ نزدیک پہنچے تو ایک اہلکار میرے پاس آیا اور خلافِ توقع بےحد شائستگی سے کہنے لگا ”سر آئیے، گاڑی میں بیٹھ جائیں“۔ میں بیٹھ گیا۔ پولیس کے پاس جانے کیا احکامات آئے کہ انہوں نے ساتھ آئے دیگر کارکنان کو بھی گرفتار کرلیا اور تھانے لے آئے۔ مقدمہ درج ہوا اور لانڈھی جیل میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ اسی رات گاڑیوں میں بھر کر سکھر جیل پہنچا دیا گیا۔ یہاں کا تو منظر ہی اور تھا۔ بڑی جید شخصیات موجود تھیں۔ مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور احمد، پروفیسر شاہ فریدالحق، بوستان علی ہوتی، میر علی احمد تالپور، سردار شیرباز مزاری، دوست محمد فیضی اور جنرل ریٹائرڈ امیر عبداللہ نیازی۔ جیل میں جہاں سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی محبت سے استفادہ کرنے کا موقع ملا وہیں جنرل نیازی سے بھی گفتگو ہوئی۔ ”یہ آپ نے کیا کیا، اتنے بڑے لشکر کے ساتھ سرنڈر کردیا؟“ میرے اس سوال پر نہایت معصومیت سے کہنے لگے ”مجھے بتایا گیا تھا کہ اگر ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے تو مغربی پاکستان بھی ہاتھ سے نکل جائے گا۔ ایسی صورتِ حال میں، مَیں اور کیا کرتا؟“ یہ کہہ کر سادگی سے میرے چہرے کو دیکھنے لگے۔ ”اسلام کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مسلمانوں نے اتنی بڑی تعداد میں دشمن فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوں، کجا کہ ملک بچانے کے لیے ایک حصہ ہی گنوا دیا جائے، جہاں کے رہنے والے آزاد وطن کو حاصل کرنے کے لیے پہلے ہی خون کی ندیاں عبور کرکے آئے تھے“۔ وہ میری تلخ باتیں سنتے رہے لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ جیل میں نماز کا نظام قائم کیا گیا۔ اذان میں دیا کرتا تھا جب کہ امامت مولانا شاہ احمد نورانی کرتے تھے۔ –
جماعت کے مقامی کارکنان تمام قیدیوں کے لیے کھانا لے کر آتے۔ قبل اس کے کہ جیل میں ہمارا قیام طویل ہوتا، رہائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تمام قیدیوں کو مختلف اوقات میں علیحدہ علیحدہ رہا کرنے کا پروگرام تھا۔ میرا نمبر سب سے آخر میں آیا۔ رہا ہو کر جیل کے دروازے سے باہر نکلنے لگا تو جنرل عبداللہ نیازی تیز قدموں سے چلتے ہوئے میرے پاس آئے اور کہنے لگے” آپ کو باہر جا کر میری رہائی کے لیے ضرور کوششیں کرنی ہیں، بھول مت جائیے گا“۔ لاچاری والا رویہ دیکھ کر یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی جنرل عبداللہ نیازی ہے جو سقوطِ ڈھاکہ سے قبل دشمن کی فوجوں کی اپنی لاش پر سے گزرنے کی باتیں کر رہا تھا۔ میں نے تسلی دی ”آپ فکر نہ کریں، ضرور کوشش کروں گا“۔ حالانکہ کسی قسم کی سفارش کے بغیر تمام قیدیوں کو رہا کیا جانا تھا۔ جیل میں مختلف مصروفیات انجام دینے کے دوران اکثر اپنی وکالت کے حوالے سے خیال دامن گیر رہتا کہ نامعلوم میری غیرموجودگی کی وجہ سے کیا صورتِ حال ہوگی۔ اللہ نے یہاں بھی میری دست گیری کی، کلائنٹس کیسز کی فیس خود دفتر آکر ادا کر جاتے تھے۔
رہائی کے وقت کارکنان کی ایک بڑی تعداد جیل کے سامنے موجود تھی۔ اپنے ساتھ لے کر ٹرین کے ذریعے کراچی روانہ ہوئے۔ راستے میں جہاں جہاں ٹرین رکتی، لوگ استقبال کے لیے پہلے سے موجود ہوتے۔ کراچی میں کارکنان کو پہلے سے اطلاع مل چکی تھی، اس لیے بہت بڑی تعداد اسٹیشن پر موجود تھی۔ کچھ دنوں بعد جماعت اسلامی نے ناظم آباد پیٹرول پمپ پر ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا۔ انسانوں کا ازدحام تھا اور پتا نہیں چل رہاتھا کہ سڑک کہاں ہے اور میدان کہاں پر ہے؟
عین درمیان میں اسٹیج بنایا گیا تھا۔ جلسے میں جہاں بہت بڑے بڑے سیاسی لیڈر شریک تھے وہیں جنرل نیازی بھی موجود تھے۔