صحرائے تھر – دعوت و خدمت کا استعارہ
ستمبر 1997ء میں ایک روز مولانا جان محمد عباسی صاحب نے مجھ سے کہا کہ ’’کسی صاحب نے تھرپارکر میں کنویں کھدوانے کے لیے ستّر ہزار روپے دیے ہیں۔ کئی مہینے ہوگئے ہیں لیکن میں مصروفیات کی وجہ سے اب تک یہ کام نہیں کروا پایا ہوں۔ اگر ممکن ہو تو آپ کروا دیں۔‘‘
عباسی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ایک زمانے میں تھرپارکر میں جماعت اسلامی کو منظم کرنے کے لیے بہت محنت کی گئی تھی۔ بدین کے رہنے والے درویش صفت رکنِ جماعت یوسف آفندی صاحب نے تھر کے مختلف علاقوں مٹھی، ڈپلو اور چھاچھرو میں دعوتی کام کے ساتھ ساتھ کچھ سیاسی کام بھی کیا تھا اور انتظامیہ سے بات چیت کرکے دینی مدارس کے قیام کے لیے پلاٹ بھی حاصل کیے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں جماعت نے انہیں قومی اسمبلی کے لیے امیدوار بھی نامزد کیا تھا۔ آفندی صاحب نے محدود وسائل اور بہت مختصر سی ٹیم کے ساتھ یہ الیکشن لڑا تھا اور سترہ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔
بدقسمتی سے آفندی صاحب کے بعد صحرائے تھر میں جماعت اسلامی کی تنظیم اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکی۔ تھر مسائل کا شکار علاقہ ہے اور بنیادی سہولتوں سے بالکل محروم ہے۔ ظاہر ہے کہ وہاں کام کرنا ہر فرد کے بس کی بات نہیں ہے۔
میں نے کہا کہ کبھی تھرپارکر جانے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن آپ نے یہ ذمہ داری دی ہے تو ان شاء اللہ وہاں جاکر خود سروے کروں گا اور جہاں زیادہ ضرورت ہوگی، اُن گوٹھوں میں یہ کنویں بنوا دوں گا۔ عباسی صاحب نے کچھ افراد کے نام بتائے اور کہا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ تھر جاسکتے ہیں۔ ان میں میرپور خاص کے عبدالرحیم خان صاحب اور جھڈو کے رکن جماعت عمر خان شامل تھے۔
کچھ دنوں کے بعد میں اپنے ڈرائیور میاں داد اور بیٹے عاصم اقبال کے ساتھ کراچی سے تھرپارکر روانہ ہوا۔ ہم نے راستے سے عبدالرحیم صاحب، عمر خان اور شبیر احمد خان کو بھی ساتھ لے لیا اور تھر کے مرکزی شہر مٹھی جا پہنچے۔
تھر کا پہلا دورہ تین روزہ تھا ( 23، 24 اور 25 اگست) اور اس کا سارا انتظام عمر خان نے کیا تھا۔ کار پر مٹھی سے آگے کا سفر ممکن نہیں تھا کیونکہ اُس زمانے میں مٹھی سے کچھ فاصلے پر پکی سڑک ختم ہوجاتی تھی اور کچے راستوں پر کیکڑا (جنگِ عظیم کے دور کا فوجی ٹرک)، اونٹ یا جیپ سے ہی جایا جا سکتا تھا۔ عمر خان نے کرائے پر ایک جیپ حاصل کی اور صحرا میں ہمارے پہلے باقاعدہ سفر کا آغاز ہوا۔ ڈرائیور نے ٹائروں میں ہوا کم کی جس پر مجھے حیرت ہوئی تو اُس نے کہا کہ ’’مولوی صاحب! ریت میں گاڑی ایسے ہی چلتی ہے‘‘۔
کئی گھنٹوں کی مسافت طے کرکے ہندوستان کے بارڈر سے متصل ایک گوٹھ پہنچے۔ مون سون کا موسم تھا، صبح کے وقت آسمان پر بادل نہیں تھے اوربظاہر بارش کا کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن دوپہر کے وقت اچانک آسمان پر سیاہ بادل چاروں طرف سے چھانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔
ہم نے کچھ مقامی لوگوں سے ملاقاتیں کیں۔ گوٹھ کی آبادی اور پینے کے پانی کی دستیابی کی صورتِ حال معلوم کی اور اُن سے کنواں بنانے کا وعدہ کرکے مٹھی واپسی کا سفر شروع کیا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر بارش زیادہ ہوگئی تو آپ واپس نہیں جاسکیں گے کیونکہ راستے میں جگہ جگہ بہت پانی کھڑا ہوجائے گا۔ بہرحال چند گھنٹوں کے بعد دوبارہ مٹھی پہنچ گئے۔ جیپ پرانے ماڈل کی تھی اور مکمل طور پر بند نہیں تھی، سب ہی لوگوں کے کپڑے اور جوتے بھیگ چکے تھے۔ مٹھی پہنچے تو شام ہوچکی تھی۔ ہم لوگ اس شہر میں اجنبی تھے، اور وہاں کوئی گیسٹ ہاؤس یا رہائشی ہوٹل ہمارے علم کی حد تک نہیں تھا۔ کوئی ایسا فرد بھی نہیں تھا، جو ہمیں اپنے گھر ٹھیرا سکتا۔ ایک چھوٹی سی مسجد نظر آئی۔ ہم نے مغرب کی نماز ادا کی اور امام صاحب کو اپنی پریشانی بتائی۔ انہوں نے ہمارے قیام کے لیے ایک چھوٹے کمرے میں فرش پر بستر لگوا دیے اور رات کے کھانے کی فراخ دلانہ پیشکش کر ڈالی۔ سچ یہ ہے کہ سب ہی کو زوردار بھوک لگی ہوئی تھی۔ کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔ مسجد سے ملحق مدرسے کے بچوں کے لیے جو دال روٹی پکی تھی، اسے صاف ستھرے برتنوں میں لاکر رکھ دیا گیا۔ شدید بھوک میں وہ دال روٹی ہمارے لیے لذیذ بریانی اور قورمے سے کسی طور کم نہیں تھی۔ سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے فرش پر بھی بڑی پُرسکون اور گہری نیند آئی اور فجر کی اذان ہی سے آنکھ کھلی۔
تھر کے پہلے دورے سے واپسی پر میں نے وہاں کے مسائل کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس کی اور لوگوں سے اپیل کی کہ صحرائے تھر میں کنویں کھدوانے کے لیے الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے ساتھ تعاون کریں۔
صحرائے تھر کا دوسرا دورہ 27 اکتوبر کو ہوا جس میں کراچی سے زبیر منصوری بھی میرے ہمراہ تھے۔ 26 اکتوبر کو جھڈو میں جماعت کی ممبر سازی مہم کے حوالے سے پروگرامات میں شرکت کی اور 27 اکتوبر کی صبح مٹھی روانہ ہوئے۔ عبدالرحیم خان صاحب، عمر خان قائم خانی اور تھر کے مقامی فرد دریاخان سمیجو ساتھ تھے۔ اس دورے میں ہم نے ممبر سازی بھی کی، جس کے لیے عمرخان نے کچھ مقامی افراد کے ساتھ مل کر انتظامات کیے تھے اور شہر کے ایک مرکزی مقام پر اسٹال بھی لگوایا تھا۔ عمر خان نے جریدہ ”ایشیا“ میں اور زبیر منصوری نے ”فرائیڈے اسپیشل“ میں تھر کے مسائل پر مضامین لکھے۔ اس کے بعد تھر آمد و رفت کا مستقل سلسلہ شروع ہوگیا۔
کچھ عرصے کے بعد عمر خان نے اطلاع دی کہ تین گوٹھوں میں کنویں تیار ہوچکے ہیں اور ان کے افتتاح کے لیے آپ کو تھر آنا پڑے گا۔ عمر خان کا فون آیا تو زبیر منصوری ادارہ نور حق میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ زبیر منصوری نے کہا کہ ڈاکٹر فیاض عالم کو ضرور ساتھ لے چلیں کیونکہ وہ گرین کریسنٹ ٹرسٹ، مسلم ایڈ برطانیہ اور اکنا ریلیف کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں، لہٰذا مختلف منصوبوں کے لیے فنڈز کے حصول میں مدد دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فیاض اُس وقت متحدہ کے گڑھ عزیزآباد میں الطاف حسین کی رہائش گاہ 90 کے عقب کی گلیوں میں رہتے تھے۔ جب میں علی الصبح میاں داد کے ساتھ اُن کو لینے کے لیے اُن کی گلی میں پہنچا تو بندوق بردار لڑکے گاڑی کے قریب آگئے۔ جب انہوں مجھے دیکھا تو پہچان لیا اور سلام کرکے واپس چلے گئے۔ ہم نے راستے سے زبیر منصوری کو لیا اور جھڈو سے عمر خان کو لیتے ہوئے مٹھی پہنچ گئے۔
اس دوران عمر خان کچھ اور گوٹھوں میں بھی کنوؤں پر کام شروع کروا چکے تھے، اور کچھ لوگوں کو اپنے ربط میں بھی رکھ چکے تھے۔ ربط میں رکھنا جمعیت اور جماعت کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کو جماعت کی دعوت دی جائے اور اس سے مستقل رابطہ رکھ کر نہ صرف یہ کہ قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی کتب کا مطالعہ کروایا جائے بلکہ دعوتی و تنظیمی سرگرمیوں میں بھی شریک کروایا جائے، تاکہ مذکورہ فرد جماعت کے نظامِ تربیت سے گزر سکے اور اقامتِ دین کے نظریے کو اچھی طرح سمجھ سکے۔
نماز عصر کے بعد ہم ریت کے ایک ٹیلے پر بیٹھ گئے۔ سب نے تھرپارکر میں دعوتی و فلاحی کاموں کے حوالے سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ وہ گرین کریسنٹ ٹرسٹ کے ٹرسٹیز میاں تنویر مگوں، سعید اسماعیل، شمیم پاشا، عبدالغفار عمر، زاہد سعید اور ابرار مگوں وغیرہ کو تھر کے دورے کے لیے قائل کرنے کی پوری کوشش کریں گے، جبکہ مسلم ایڈ اور اکنا والوں کو بھی پینے کے پانی کے منصوبوں میں معاونت کے لیے لکھیں گے۔ اُس زمانے میں نوفل شاہ رخ ان کے ساتھ گرین کریسنٹ ٹرسٹ میں ہوا کرتے تھے اور رپورٹ رائٹنگ اور خط وکتابت میں بے حد مہارت رکھتے تھے۔ کراچی جماعت کے شعبہ نشر و اشاعت میں انگریزی خبروں کے لیے شاہد شمسی صاحب انہیں بلایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر فیاض نے کہا کہ اس صحرائی علاقے میں آپ یا ہم کب تک آتے جاتے رہیں گے؟ لازمی ہے کہ یہاں کوئی مستقل ٹھکانا بنایا جائے اور جس طرح عیسائی مشنریز نے دنیا کے مختلف علاقوں میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے ذریعے اپنے مذہب کو پھیلایا ہے اسی طرح ہم بھی ان دونوں شعبوں میں کام کے ذریعے یہاں نہ صرف فلاحی کام کریں بلکہ جماعت کے دعوتی کام کو بھی منظم کریں۔
اُن کی اس بات سے مجھ سمیت سب ہی نے اتفاق کیا، لیکن اصل مسئلہ مالی وسائل کا تھا۔ جسارت میں کنوؤں کے لیے جو اشتہار دیا گیا تھا، اس سے صرف چند کنوؤں کے لیے رقم آئی تھی۔ الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ قربانی کی کھالوں کی آمدنی تھی جو کراچی کے مختلف فلاحی منصوبوں پر خرچ ہوا کرتی تھی۔
تھرپارکر کے بارے میں کراچی کے عام آدمی کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں، اور یہی وجہ تھی کہ بہت کم لوگ اس طرف متوجہ ہوپائے تھے۔ یہ طے پایا کہ کراچی پہنچ کر زاہد سعید اور ابرار مگوں سے مٹھی میں اسکول کے قیام کے لیے میٹنگ کی جائے گی۔
اس دوران ڈاکٹر فیاض اور نوفل شاہ رخ نے مسلم ایڈ برطانیہ اور اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ کے ذمہ داران کو صحرائے تھر کے حالات بذریعہ ای میل لکھ کر بھیجے۔ کچھ لوگوں سے میں نے بھی بات کی، اس طرح کچھ ہی عرصے میں الخدمت کے بینک اکاونٹ میں اس مد میں اچھی خاصی رقم جمع ہوگئی۔ گرین کریسنٹ ٹرسٹ نے بھی راشن کی تقسیم اور کنویںبنوانے کے لیے معقول رقم کا عطیہ دیا۔
میں نے جماعت اسلامی کراچی کے نائب قیم اور اپنے دیرینہ رفیق عبدالرشید بیگ صاحب کو کنوؤں کے منصوبے کا نگراں بنادیا، کیونکہ انہیں سماجی کاموں کا بہت تجربہ تھا اور وہ ہر کام کے مالی معاملات کا حساب بھی بہت عمدہ طریقے سے رکھتے تھے۔ بیگ صاحب نے تھرپارکر آنا جانا شروع کردیا اور کلوئی، ڈپلو، مٹھی، اسلام کوٹ اور نگرپارکر میں بڑی تعداد میں کنویں بننے لگے۔
بیگ صاحب کنوؤں کی کھدائی میں گوٹھ والوں کو بھی شامل کیا کرتے تھے۔ سیمنٹ اور اینٹیں وغیرہ خود فراہم کرتے، جبکہ کھدائی مقامی افراد کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی۔ اس طرح بہت کم لاگت میں ایک کنواں تیار ہوجایا کرتا تھا۔ عمرکوٹ کے قریب تھر کا علاقہ چھاچھرو تھا، وہ بھی خاصا بڑا علاقہ تھا اور وہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اُس وقت تک ہمیں وہاں جماعت اسلامی کے کارکن اور ہمدرد نہیں مل سکے اور وہ علاقہ مٹھی سے بہت فاصلے پر بھی تھا، لہٰذا اس علاقے میں ہم پانی کے چند ایک منصوبے ہی بنا سکے۔
مٹھی میں اسکول اور دفتر جماعت کا قیام
تھر کے تیسرے دورے کے بعد میں نے زاہد سعید اور ابرار مگوں سے ملاقات کی اور انہیں تھرپارکر کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیاض ادارے کے منتظم ہیں اور نئے اسکول کھولنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔ جمعیت کے سابق ناظم صوبہ عظیم بلوچ بھی اُس دور میں گرین کریسنٹ ٹرسٹ سے وابستہ تھے اور اندرون سندھ کے علاقوں میںاسکول قائم کرنے کے ذمہ دار تھے۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ مٹھی میں ہلال پبلک اسکول کھولا جائے گا جس کے لیے عمارت کرائے پر حاصل کی جائے گی۔
زبیر منصوری نے جامعۃالعلوم الا سلامیہ، منصورہ ہالا سے فارغ التحصیل چار افراد کو مسجد قباء، گلبرگ بلایا (جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے دفتر)۔ جب انہیں بتایا گیا کہ مٹھی جاکر رہنا ہے اور اسکول بھی چلانا ہے، تو دو افراد نے موسم کی سختی کی وجہ سے معذرت کرلی، جبکہ میر محمد بلیدی اور محمد صادق رضامند ہوگئے۔ مارچ 1999ء میں مٹھی میں ہلال پبلک اسکول قائم کیا گیا جس کے ایک کمرے میں جماعت اسلامی تھرپارکر کا پہلا دفتر بھی بنایا گیا۔ وہ مٹھی میں قائم ہونے والا دوسرا نجی اسکول تھا۔ 2000ء میں اسلام کوٹ میں دوسرا ہلال اسکول کھولا گیا۔ وہ اس چھوٹے لیکن اہم شہر کا پہلا نجی اسکول تھا۔
میر محمد بلیدی اور محمد صادق نے نہ صرف مٹھی شہر میں بلکہ آس پاس کے گوٹھوں میں بھی جماعت اسلامی کی دعوت پھیلانی شروع کردی۔ اور عمر خان و دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر بڑی محنت اور لگن سے کام کرنے لگے۔ دونوں اسکولوں میں بچوں کی تعداد بھی کافی بڑھ گئی کیونکہ اُس دور میں ان دونوں شہروں میں معیاری اور سستی تعلیم کا تصور بھی محال تھا۔
اس دوران ڈاکٹر فیاض نے تھرپارکر میں الخدمت کے پانی کے منصوبوں کو زم زم پراجیکٹ کا نام دے دیا اور عبیداللہ کیہر اور نوفل شاہ رخ کے ساتھ مل کر ایک دستاویزی فلم بھی بنا ڈالی، جس کی وجہ سے کئی نئے معاونین نے صحرا میں پانی کے منصوبوں میں اپنا حصہ ڈالا۔
11 اور 12 ستمبر 1999ء کو مٹھی میں پیما، گرین کریسنٹ ٹرسٹ اور سوسائٹی فار دی پریوینشن اینڈ ریسٹوریشن آف وژن کے تعاون سے آئی کیمپ منعقد کیا گیا۔ اس کیمپ سے کئی ہزار افراد نے استفادہ کیا۔ کیمپ میں 254 مریضوں کے موتیا کے آپریشن کیے گئے جن میں سے 160 آپریشن فیکو سرجری کے ذریعے کیے گئے جو کہ اُس دور میں آنکھوں کے آپریشن کا جدید ترین طریقہ تھا۔ اگلے سال 10، 11 اور 12 نومبر کو انہی تنظیموں کی معاونت سے ایک بار پھر آئی کیمپ کا انعقاد کیا گیا اور کئی سو مریضوں کی آنکھوں کا بالکل مفت آپریشن کیا گیا۔ دونوں کیمپوں میں ڈاکٹر اسد عالم، ڈاکٹر ذکی الدین صابری، ڈاکٹر شایان شادمانی، ڈاکٹر راؤ محمد نعیم اور ڈاکٹر مسلم مرسلین نے شرکت کی۔
اپریل 2000ء کے آخر میں بلوچستان کے کچھ اضلاع کے ساتھ ساتھ دادو اور تھرپارکر میں زبردست قحط پڑ گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق سینکڑوں مویشی اور مور ہلاک ہوگئے جبکہ ہزاروں افراد کو نہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کرنی پڑی۔
میں نے ادارہ نور حق میں ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں عبدالرشید بیگ، ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر تبسم جعفری، ڈاکٹر محمد خالد، عمر خان، زبیر منصوری، محمد یونس اور اشرف سموں شریک ہوئے۔ اجلاس میں طے کیا گیا کہ صحرائے تھر کے مختلف علاقوں میں مستحقین میں راشن تقسیم کیا جائے گا، جبکہ مختلف مقامات پر اسٹال لگا کر آٹا بھی بہت سستے داموں فروخت کیا جائے گا۔ موبائل میڈیکل کیمپس بھی منعقد کیے جائیں گے تاکہ لوگوں کو اُن کے گھروں کے قریب علاج کی سہولت فراہم کی جاسکے۔
عبدالرشید بیگ صاحب نے عمر خان، یونس قائم خانی، میر محمد بلیدی اور محمد صادق کے ساتھ مل کر اس پوری مہم کو نہایت احسن انداز میں چلایا اور بہت ذمہ داری سے دور دراز علاقوں میں مستحقین کا سروے کروایا۔ راشن کی تقسیم میں لوگوں کی عزتِ نفس کا بہت خیال رکھا گیا اور پوری کوشش کی گئی کہ لوگوں کو لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے ہونے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔
میڈیکل کیمپس میں کراچی سے ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ، ڈاکٹر تبسم جعفری، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر ہمایوں فرخ، ڈاکٹر ذکی الدین صابری، ڈاکٹر سالم غیور اور ڈاکٹر احسن اللہ حسینی شریک ہوئے۔ ڈاکٹر فیاض اپنی اہلیہ ڈاکٹر صدیقہ اور اپنے دو چھوٹے بچوں کو بھی ساتھ لے آئے۔ مئی کے مہینے کی سخت ترین گرمی میں جب میں نے ڈاکٹر صدیقہ کو مٹھی میں دو چھوٹے بچوں کے ساتھ بس سے اترتے ہوئے دیکھا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور دل سے دعا نکلی کہ اللہ ان سب کی کوششوں کو اپنے راستے میں قبول فرمالے، آمین
اس مہم کے دوران جماعت اسلامی کے مرکزی امیر محترم قاضی حسین احمد، امیر صوبہ اسد اللہ بھٹو اور سابق رکن قومی اسمبلی مظفر ہاشمی نے بھی مٹھی کا دورہ کیا۔
قاضی صاحب نے کچھ لوگوں کو راشن دیا اور مٹھی میں ایک لائبریری کا افتتاح بھی کیا۔ اس کے بعد ہم سب اسلام کوٹ کی طرف روانہ ہوئے، جہاں پہنچ کر قاضی صاحب نے گندم کی تقسیم کے کام کا جائزہ لیا اور وہاں موجود لوگوں سے حالات معلوم کیے۔ اسداللہ بھٹو صاحب اور عمر خان نگرپارکر چلے گئے۔
تھر کے مختلف گوٹھوں میں ہم نے العلم پراجیکٹ کا آغاز کیا اور چونرہ اسکول قائم کیے جن کی تعداد اب پچاس سے اوپر ہوچکی ہے۔ لوگوں کو باعزت روزگار کی فراہمی کے لیے بلاسود قرضوں کی ایک اسکیم بھی شروع کی گئی جس کے تحت کئی سو لوگوں کو بیس سے پچاس ہزار روپے کے قرضے دیے گئے۔ ان قرضوں کی واپسی کی شرح 70 فیصد سے بھی زیادہ رہی۔
میر محمد بلیدی اور محمد صادق نے اپنے آبائی علاقوں کو خیرباد کہہ دیا اور اپنی فیملیز کے ساتھ مٹھی میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ سچ یہ ہے کہ اگر یہ دو افراد اُس وقت مٹھی آکر رہنے سے انکار کردیتے تو صحرائے تھر میں جماعت اسلامی کی تنظیم کا قیام آسان نہ ہوتا۔
گرین کریسنٹ ٹرسٹ، مسلم ایڈ برطانیہ، ہیلپنگ ہینڈ امریکہ اور کراچی کے مخیر حضرات کے غیر معمولی تعاون کی وجہ سے الخدمت کراچی کے پاس 400 کنوؤں کی کھدائی کے لیے رقم جمع ہوگئی۔ عبدالرشید بیگ صاحب نے جھڈو کے رکن جماعت اور سماجی کارکن یونس قائم خانی کو کنوؤں کے منصوبے کے لیے اپنا معاون بنا لیا اور سروے کے لیے کلوئی، ڈپلو، مٹھی، اسلام کوٹ اور نگرپارکر میں مقامی افراد کو بھی شامل کرلیا۔ اس طرح فلاحی منصوبوں کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کا دعوتی کام بھی ایسے علاقوں میں شروع ہوگیا جہاں کے لوگوں نے کبھی جماعت اسلامی کا نام تک نہیں سنا تھا۔
عبدالرشید بیگ صاحب نہ صرف یہ کہ بہت تجربہ کار اور مشنری جذبہ رکھنے والے سماجی کارکن تھے بلکہ وہ ایک بہت ہی مضبوط کردار کے نظریاتی تحریکی رہنما بھی تھے۔ ہر قسم کی مہمات کو منظم کرنے کی ان جیسی مہارت جماعت اسلامی کراچی کے کسی دوسرے فرد میں نظر نہیں آتی تھی۔