وکالت کا پیشہ اپنالیا -


وکالت کا پیشہ اپنالیا

 

اب میرے پاس دو راستے تھے، صحافت کو بطور پیشہ اپنالوں یا پھر وکالت شروع کردوں۔ بیرسٹر اصغر علی کا مشوره یاد آیا اور پریکٹس شروع کرنے کے لیے کچھ کچھ ذہن بن گیا۔ کس طرح آغاز کروں، وسائل کہاں سے آئیں گے؟ دفتر کے لیے جگہ کہاں ملے گی؟ کلائنٹس کون لے کر آئے گا؟ ایسے سوالات نے الجھن میں مبتلا کردیا۔ اللہ کا نام لیا اور ہارون الرشید کو ساری صورت حال بتا کر پانچ ہزار روپے بطور قرض طلب کیے۔ یہ سوچ رکھا تھا کہ اگر قرض کی واپسی کے لیے پیسے نہ ہوئے تو اپنا پی ای سی ایچ ایس والا پلاٹ فروخت کردوں گا، جو اُس دور میں بہت ہی کم قیمت میں قسطوں پر خریدا تھا۔ وزیر مینشن نکل روڈ پر ایک عمارت کی پہلی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرہ تین ہزار روپے پگڑی اور دو سو روپے ماہانہ کرائے پر حاصل کیا۔ ٹیلی فون کے بغیر وکیل کے دفتر کا چلنا بہت مشکل تھا، اور اُس زمانے میں ٹیلی فون کا کنکشن لینا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس موقع پر ایک پرانے دوست حافظ الیاس کام آئے جو وزیر مواصلات رمیض الدین صاحب کے ذاتی معاون تھے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ وزیر موصوف کے دفتر میں لے گئے اور رمیض الدین صاحب سے تعارف کروا کر مسئلہ بیان کیا۔

انہوں نے فرمایا: Where is your application ۔بنگالی ہونے کی وجہ سے رمیض الدین صاحب کا شین قاف اٹکتا تھا، اس لیے انگریزی میں گفتگو کو ترجیح دیتے تھے۔ درخواست کا پوچھنے پر میں نے جیب میں رکھی ہوئی ٹائپ شدہ درخواست ان کے ہاتھ میں تھما دی۔ پڑھے بغیر اس پر نوٹ لکھ دیا… May be given (فون دیا جا سکتا ہے!) اگلے دن دفتر پہنچا تو ٹیلی فون نصب کیے جانے کا ڈیمانڈ نوٹس آچکا تھا جسے جمع کروا دیا، اور رابطے کی یہ کمی بھی دور ہوگئی۔ میدان نیا تھا، لوگ پرانے شہ سواروں کو بھی ٹھونک بجاکر کیس حوالے کرتے تھے، نئے کو کون پوچھتا! شاہ جہاں پور کے گائوں ’’ایکنورا‘‘ کے رہنے والے دوست سید نذیر احمد لیاقت آباد دس نمبر میں رہائش پذیر اور ٹھیکیداری کا کام کرتے تھے۔ ایک کیس لے کر آئے۔ کیس بھی کیا تھا؟ کوئی دستاویز لکھوانی تھی۔ منٹوں میں نمٹا دیا۔ پچیس روپے معاوضہ ملا۔

انکم ٹیکس کے وکیل کی حیثیت سے کام کرنا آسان کام نہیں تھا۔ لوگ آکر کہتے کہ کیس جمع کروا دیں اور ٹیکس کم سے کم دینا پڑے۔ کچھ لوگ کہتے کہ ہم اپنی آمدنی میں سے حساب کتاب کرکے ڈھائی فیصد زکوٰۃ نکال کر مستحقین کو دے دیتے ہیں، اگر حکومت کو پورا ٹیکس دیں گے تو ہمارے پاس کیا بچے گا؟ میں ایسے لوگوں کو سمجھانے کی پوری کوشش کرتا کہ زکوٰۃ الگ چیز ہے اور ٹیکس الگ۔ زکوٰۃ فرض عبادت ہے، جبکہ ٹیکس سے ملک کے کئی طرح کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ جو لوگ ٹیکس چوری کرنا چاہتے تھے، اُن کا کیس لینے سے معذرت کرلیتا۔

میرا زندگی بھر کا مشاہدہ یہ رہا کہ لوگ جس طرح اپنی مرضی سے زکوٰۃ دیتے ہیں، اسی طرح ٹیکس بھی دینا چاہتے ہیں، لیکن حکومتوں نے ٹیکس کی وصولی کے نظام کو پیچیدہ بنایا ہوا ہے اور ٹیکس کے محکمے کے افسران اور اہلکار اس پیچیدہ نظام کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ رشوت کے عوض اپنے کلائنٹس کو ٹیکس چوری کی ترغیب دیتے ہیں اور ملکی خزانے کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستان بدقسمتی سے دنیا کے اُن ملکوں میں شامل ہے جہاں انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے- زراعت کے شعبے پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا جبکہ کاروباری حضرات کا دو الگ طرح کے اکاؤنٹس رکھنا ایک عام سی بات ہے۔

انکم ٹیکس کا دفتر ناز سنیما کے سامنے تھا، ٹیکس ریٹرن جمع کرانے میں خود جاتا تھا۔ دن گزرتے رہے یہاں تک کہ صدر اسکندر مرزا نے 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی شب کو پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا لگا دیا۔ اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ ایوب خان نے 20 دن کے اندر اسکندر مرزا کو اقتدار سے بے دخل کر کے پہلے کوئٹہ پھر برطانیہ بھجوا دیا۔ مارشل لاء حکام نے اعلان کیا کہ ایسے افراد جنہوں نے اب تک آمدن و خرچ کے گوشوارے جمع نہیں کروائے وہ اپنا حساب کتاب بمع ٹیکس جمع کرا دیں، ہم جرمانہ عائد نہیں کریں گے اور ٹیکس بھی کم وصول کریں گے۔ یہ حکم نامہ آنے کی دیر تھی کہ کیسز کی لائن لگ گئی اور خوش حالی کا دور شروع ہوگیا۔ حالات نے بہتری کی مزید منازل طے کیں تو جیکب لائن سے نکل کر ناظم آباد نمبر دو میں کرائے کا مکان 216 روپے ماہوار پر حاصل کیا۔

شادی خانہ آبادی

والدہ اور بہن نے کسی تقریب میں ایک لڑکی کو دیکھا اور مجھے بتایا کہ ہم نے تمہارے لیے لڑکی پسند کرلی ہے، اگر تم چاہو تو دیکھ سکتے ہو۔ شریعت نے اگرچہ اس بات کی اجازت دی ہے لیکن مجھے اماں اور بہن کی پسند پر پورا بھروسا تھا۔ ایک جھلک یا تصویر دیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ کچھ دنوں کے بعد اماں اور بہن نے باقاعدہ رشتہ لے جاکر بات پکی کردی۔

سسرال والوں نے مختلف ذرائع سے چھان بین کی، ذاتی کردار، دوست احباب، ذریعہ معاش غرض ہر چیز کے متعلق تسلی کی گئی۔ 16 جنوری 1960ء کو زندگی کے نئے سفر کا آغاز ہوا اور طاہرہ میری زندگی کا حصہ بن گئیں۔ اہلیہ طاہرہ دو بھائیوں اور چار بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔ انہوں نے ہمارے خاندان کو پوری طرح اپنایا اور اماں کو ساس نہیں سگی والدہ کا مقام دیا۔ گھر زمین پر جنت کا ٹکڑا لگنے لگا تھا۔

پچاس کی دہائی میں جیکب لائن کے جس خیمے میں میری رہائش تھی وہیں جماعت اسلامی کے افتخار احمد (1970ء کے انتخابات میں سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے) اور رجب علی رہا کرتے تھے۔ یہ دونوں حضرات میرے خیمے کے پیچھے جھونپڑیوں میں رہتے تھے۔ اکثر ملاقات ہوتی تو مولانا مودودیؒ کی کتابیں اور کتابچے پڑھنے کے لیے تھما دیا کرتے۔ مولانا کا نام میں نے بہت سن رکھا تھا کہ کوئی ان کی کتابیں پڑھ لے تو اس کا دماغ پلٹ جاتا ہے اور وہ مولوی بن جاتا ہے۔ یہ بات میرے دماغ میں بیٹھی ہوئی تھی، اس لیے وہ کتابیں پڑھنے کے بجائے طاق پر رکھ دیا کرتا تھا۔ یہ حضرات واپس لینے کے لیے آتے اور پوچھتے پڑھ لیں؟ مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتا ہاں دیکھ لی ہیں۔ طویل عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ گھر کی تبدیلی کی وجہ سے ان حضرات سے رابطہ منقطع ہوگیا، یہاں تک کہ ناظم آباد بلاک ایف میں ذاتی مکان تعمیر کرایا اور اہلِ خانہ یہاں شفٹ ہوگئے تو نزدیک ہی جماعت اسلامی کے مقامی حلقے کے ناظم صدیق صاحب سے جو بلاک ’’بی‘‘میں رہتے تھے، سلام دُعا ہوئی۔ دوسری جانب اپنے دفتری کاموں کے سلسلے میں انکم ٹیکس بلڈنگ جانے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ ایک روز انکم ٹیکس بلڈنگ کے بار روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ کچھ فاصلے پر یوسف صاحب (مسلم لیگ کے پکے حمایتی) بیٹھے ایک کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ ”کیا پڑھ رہے ہیں؟“ پوچھا تو بجائے نام بتانے کے، کہنے لگے ”یار!! بڑی عجیب کتاب ہے“۔ اُن کے ہاتھ سے کتاب لے کر تھوڑا مطالعہ کیا تو بڑی دلچسپ معلوم ہوئی۔ میرے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہنے لگے ”بھئی یہ نزدیک ہی اسٹینڈرڈ فوٹو گراف والے اسرار صاحب ہیں نا، اُن کی دکان پر بہت سی کتابیں موجود ہیں اور وہ ڈسکائونٹ بھی بہت دیتے ہیں“۔ بغیر کچھ کہے اسرار صاحب کی دکان کی جانب چل دیا۔ اور پہلے تو وہی کتاب خریدی جو یوسف صاحب پڑھ رہے تھے۔ پھر کوئی ڈیڑھ سو روپے کی مزید کتابیں خریدیں اور اگلے کچھ دنوں میں پڑھ ڈالیں۔ صدیق صاحب سے ایک مرتبہ پھر ملاقات ہوئی، اس مرتبہ اُن کے کچھ کہنے سے قبل میں نے آفر کر ڈالی کہ آپ لوگ اپنے اجتماعات میرے گھر پر منعقد کرلیا کریں۔

1965ء کی جنگ

1965ء کی جنگ شروع ہوئی تو ملک میں مارشل لا نافذ تھا اور ایوب خان مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ جنگ شروع ہوئی، ایوب خان نے ریڈیو پر قوم سے پُرجوش خطاب کیا اور آخر میں کلمہ بھی پڑھا۔ پورا ملک جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔ بھارت کی جانب سے گولہ باری کے دوران کچھ گولے کیماڑی اور بہار کالونی میں بھی آکر گرے تھے۔ مغرب ہوتے ہی ہر قسم کی روشنیاں گل کرکے بلیک آئوٹ کردیا جاتا۔ فوجیوں کو سڑک سے گزرتا دیکھ کر عوام ان کے حق میں نعرے لگاتے۔ سترہ دن کی جنگ کے دوران باوجود کوشش کے کام پر جانے کا موڈ نہیں ہوتا تھا۔ ریڈیو سے خبریں ملتیں کہ پاک فوج نے دشمن کے اتنے ٹینک تباہ کر دیے، درجنوں فوجی ہلاک کر دیے۔ قوم کا مورال ایسی خبروں سے مزید بلند ہوجاتا تھا۔ جنگ کے دوران ہی بیٹے کلیم کی لیاقت آباد گورنمنٹ ہسپتال میں ولادت ہوئی۔ اُس زمانے میں سرکاری ہسپتالوں میں سیاسی اور سفارشی بھرتیاں نہیں ہوا کرتی تھیں اور ان کا معیار بہت اچھا ہوتا تھا۔

زندگی میں پہلے ذاتی مکان کے لیے پلاٹ کا حصول اور اس کی تعمیر کا معاملہ بھی خوب تھا۔ 1966ء کی بات ہے جنگ ختم ہوئے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا۔ نارتھ ناظم آباد کے بلاک F کے پلاٹ E-47 کے مالک شناسا تھے اور ایک بینک میں ملازمت کرتے تھے۔ انہیں 19 ہزار روپے قسطوں میں ادا کر کے پلاٹ کا سودا کیا۔

ابتدا ہی سے ذاتی مکان کے متعلق ذہن میں تصور قائم تھا کہ پلاٹ وسیع اور اس پر تعمیر مختصر ہونی چاہیے۔ بلڈنگ کوڈ کے اعتبار سے کُل رقبے میں ایک تہائی حصے پر تعمیر کی اجازت تھی۔ اس اعتبار سے 600 مربع گز پر مکان بنانے میں 2 لاکھ 76 ہزار روپے خرچ ہوگئے۔ 67ء کے آخر میں تعمیر مکمل ہونے کے بعد ایک حصے کو کرائے پر اٹھا دیا۔ نزدیک ہی اپنا کلینک چلانے والے ڈاکٹر نے یہاں رہائش اختیار کی۔ بالائی حصے میں بھی دو کمرے بنوائے تھے۔ بعد ازاں برادرم سید منور حسن اپنے آبائی گھر کی تقسیم کی وجہ سے یہاں منتقل ہوگئے اور دس برس تک یہاں رہے۔

اہلیہ گھر کا انتظام نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالے ہوئے تھیں اور بچوں کی تعلیم کے معاملات بھی خود ہی دیکھا کرتی تھیں۔ مجھے جماعت اسلامی کے احباب سے ملنے جلنے اور پروگرامات میں شرکت کا باقاعدگی سے موقع ملتا رہا۔
26 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے ملک میں جاری ہنگاموں اور عوامی دباؤ کے پیش نظر استعفیٰ دے دیا اور اقتدار اسپیکر کے بجائے کمانڈر اِن چیف یحییٰ خان کے سپرد کردیا۔ 28 نومبر کو یحییٰ خان نے اپنی نشری تقریر میں 3 اکتوبر 1970ء کو ملک میں عام انتخابات کا اعلان کردیا۔

فہرست | →پیچھے جائیے

←خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی میں حلف کا اعزاز