ناظمِ شہر نہیں- خادمِ شہر -


ناظمِ شہر نہیں- خادمِ شہر

 

اب مرحلہ تھا حلف برداری کا۔ بتایا گیا کہ تقریبِ حلف برداری بارہ دری میں ہوگی۔ اس سے قبل سابق کمشنر کراچی اور پہلے ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسر شفیق الرحمٰن پراچہ رات میرے گھر آئے، قدرے حیرانی ہوئی کہ ایسا کیا معاملہ تھا جس کے لیے انہیں میرے گھر آنا پڑا! ڈرائنگ روم میں رسمی سلام دعا کے بعد شفیق الرحمٰن پراچہ کہنے لگے: ”نعمت صاحب آپ کو میری جانب سے مکمل تعاون حاصل ہوگا۔ ان شاء اللہ کسی قسم کی شکایت نہیں ہوگی۔ ہر ممکن کوشش کے باوجود اگر کوئی شکوہ ہو تو بلاتکلف براہِ راست مجھ سے کہہ دیجیے گا“۔ اس کے علاوہ اور بہت ساری باتیں ہوئیں، میں خاموشی سے سنتا رہا، آخر میں، مَیں نے کہا: ”آپ مجھ سے کیا توقع کرتے ہیں؟“ اس پر وہ بے ساختہ بولے: ’’شفقت۔ مطمئن رہیے آپ کے طویل تجربے کو شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کریں گے اور ایک ٹیم کی طرح کام کریں گے۔“ 11 اگست 2001ء کو حلف برداری کا پروگرام طے پایا۔ اُس دن صبح سے ہی موسم ابر آلود تھا۔ تقریب کے شرکاء میں گھر کے چند افراد، ذمہ دارانِ جماعت اور کچھ منتخب نمائندوں کے علاوہ محترم مفتی رفیع عثمانی، قاری رضاالمصطفےٰ قادری، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر، علامہ حسن ترابی اور مفتی نظام الدین شامزئی بھی شامل تھے۔ تلاوتِ قرآن اور نعتِ رسولؐ کے بعد ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر آغا محمد رفیق نے طارق حسن سے نائب ناظم کا حلف لیا، پھر مجھ سے حلف پڑھوایا۔ کارروائی مکمل ہونے کے بعد اسٹیج سیکریٹری نے مجھے سٹی ناظم کی حیثیت سے خطاب کرنے کی دعوت دی۔ اس لمحے مجھے عجیب سا خوف محسوس ہوا کہ اللہ نے سرخرو تو کردیا، کہیں شہر کی نظامت میرے لیے آزمائش نہ بن جائے۔ اس لیے جب ڈائس پر پہنچا تو تقریر کرنے کے بجائے بے اختیار دعا شروع کردی۔ دعائیہ جملوں کے بعد تقریب میں شریک افراد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ’’میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ایک ایسے شہر کا ناظم منتخب ہوا ہوں کہ جس شہر کے لوگ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں۔ کراچی کے بھائیوں، کراچی کی بہنوں، کراچی کے نوجوانوں نے جس محبت کا اظہار کیا ہے میں اس محبت کے جواب میں شاید کچھ اور تو نہ کرسکوں مگر میں آج اللہ کو حاضر و ناظر جان کر یہ حلف اٹھاتا ہوں کہ میں اُن کی خدمت سے کسی قیمت پر دریغ نہیں کروں گا۔ میں اللہ کو گواہ کر کے یہ اقرار کرتا ہوں اور آپ تمام بھائیوں کو بھی گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ یہ حلف جو میں نے اپنے رب کے حضوراٹھایا ہے، میرا یہ عزم ہے، اللہ سے میری دعا ہے کہ اللہ مجھے اس حلف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میری یہ دعا ہے اور آپ سب میرے ساتھ اس دعا میں شریک ہیں کہ: اے اللہ! آج میں نے تیرے حضور کراچی کے لوگوں کے لیے جو وعدہ کیا ہے، جو عہد کیا ہے مجھے اس عہد پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرما۔

اے اللہ! میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ صرف تیری رضا کے لیے کام کروں گا۔ دنیا کے اندر تو نے مجھے سب کچھ دے دیا ہے اور آج اس منصب تک پہنچا دیا ہے کہ جس کا میں اپنے آپ کو اہل نہیںسمجھتا۔ اے اللہ، اے اللہ! میرے لیے یہ تیرا کرم ہے، فضل ہے، تو ہی دنیا کے نظام کو چلاتا ہے، تو نے ہی اپنی حکمت، اپنے مصالح اور اپنی مشیت کے مطابق مجھ جیسے ناتواں، مجھ جیسے کمزور، مجھ جیسے کم علم کا کراچی کی نظامت کے لیے انتخاب کیا ہے۔

وہ کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، وہ کراچی جو منی پاکستان ہے، وہ کراچی جو ہم سب کا محسن ہے۔ اس کراچی نے ہم کو وہ سب کچھ دیا ہے جس کی وجہ سے ہم اس مقام پر ہیں۔ یہ مقام ہم کو پاکستان نے دیا ہے اور اگر خاکم بدہن یہ پاکستان نہ بنتا۔ تو ہم وہ کچھ نہ ہوتے جو آج ہم ہیں۔

میں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

کراچی کے مسائل سے میں پوری طرح آگاہ ہوں۔ میں اس پاکستان میں، اس کراچی میں 53 سال سے رہ رہا ہوں۔ کراچی میرا شہر ہے، کراچی میری جان، کراچی میرا دل ہے، کراچی کے لوگ، کراچی کے بزرگ، کراچی کی بہنیں، کراچی کی بیٹیاں میرے دل سے بہت زیادہ قریب ہیں۔ میں نے اس منصب کی ذمہ داری صرف کراچی کے لوگوں کے لیے ہی اٹھائی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کراچی کے اندر رہنے والے وہ تمام لوگ جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے اور جو پاکستان کے ہر صوبے سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں، میں ان لوگوں کے درمیان ایک پل کی حیثیت اختیار کر جاؤں۔ میں چاہتا ہوں کہ اس منصب کی ذمہ داریاں اٹھانے کے بعد اُن کے زخموں پر مرہم رکھوں۔ اُن کے تمام مسائل کو اپنی کوششوں سے، اپنے نائب ناظم کی کوششوں سے اور تمام منتخب نمائندوں کی جدوجہد سے کراچی کے عوام کے تعاون اور دعاؤں سے میں توقع سے زیادہ جلدی حل کروں۔ “

سچ یہ ہے کہ ساری تقریر دعا کے لہجے میں مکمل ہوئی، اور اس دوران آنکھوں سے آنسو بھی رواں رہے۔ مفتی رفیع عثمانی پر نظر پڑی تو دیکھا کہ رومال سے آنسو پونچھ رہے ہیں۔ بہت عرصے بعد دوبارہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگے: ”نعمت صاحب میں ہر فجر کی نماز کے بعد دعا کرتا ہوں تو آپ کا نام ضرور لیتا ہوں۔“

اگلے دن صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ گھر سے ڈرائیور کے ہمراہ کے ایم سی بلڈنگ کی طرف روانہ ہوا۔ اُس وقت ناظم سیکریٹریٹ اس عمارت میں تھا۔ ابھی گھر سے کچھ فاصلے پر تھا کہ حیدری مارکیٹ تھانے کی پولیس موبائل گاڑی کے ساتھ چلنے لگی۔ میں نے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی روک کر ذرا موبائل کے کسی ذمہ دار فرد کو میرے پاس بلائے۔ پیغام سن کر ایک صاحب نزدیک آئے اور مؤدبانہ انداز میں کہنے لگے: ”جی سر! کیا حکم ہے؟“ میں نے کہا: ”بھئی مجھے پروٹوکول کی کوئی ضرورت نہیں ہے، آپ لوگ واپس جائیں“۔ جواب ملا: ”سر ہم تو ڈیوٹی کے پابند ہیں، اپنی مرضی سے آپ کو چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارے افسر سے بات کرلیں“۔ میں نے کہا: ”آپ خود افسران سے رابطہ کریں اور کہیں کہ مجھے کسی سیکورٹی کی ضرورت نہیں ہے“۔ جواب سن کر چلے گئے۔ اس کے بعد دیکھا موبائل گاڑی کے آگے تو نہیں خاصا پیچھے چل رہی تھی۔ دفتر پہنچا تو پہلے سے آنے کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔ ڈی سی او بھی پہنچ گئے۔ مختلف محکموں کی فائلیں دیکھیں۔ اس میں انفرااسٹرکچر اور ایجوکیشن کے محکموں کی فائلوں کی تعداد زیادہ تھی۔ منصب تو سنبھال لیا تھا لیکن اختیارات واضح نہیں تھے۔ ایس ایل جی او مکمل وضاحت نہیں دے پارہا تھا۔ اس لیے ابہام کی فضا میں نظامت کے پہلے دن کا کچھ وقت گزارا۔ زبیر منصوری اور سٹی کونسلر توصیف میرے پاس آئے۔ پوچھنے لگے: کس طرح پہنچے ہیں؟ بتایا: ”جس طرح دفتر جماعت جایا کرتا تھا اسی طرح یہاں آیا ہوں، کیوں کوئی خاص فرق ہونا چاہیے؟“ الٹا ان سے پوچھا، تو کہنے لگے: ”نعمت صاحب! حالات آپ کے سامنے ہیں، نہ کوئی سیکورٹی نہ کچھ“۔ میں نے بات سنی اور کوئی جواب دیے بغیر فائلیں دیکھنے لگا۔ اسی دوران ایک پنج ستارہ ہوٹل کے نمائندے سیکریٹیریٹ آئے۔ ان کا زبیر منصوری سے ٹکرائو ہوا۔ پوچھنے لگے: ”آج صاحب کھانے میں کیا پسند کریں گے؟“ جب انھیں بتایا گیا کہ سٹی ناظم کا کھانا گھر سے آیا کرے گا تو کہنے لگے: ”ان سے پہلے جو صاحب یہاں ایڈمنسٹریٹر تھے، ان کے لیے دوپہر کا کھانا ہمارے ہوٹل سے آتا تھا“۔ بعد میں پتا چلا کہ ایک وقت کے کھانے کا بل کئی ہزار روپے ہوا کرتا تھا۔ معاملات کو چلانے کے لیے بہت سارے احباب نے اپنی بے تحاشا مصروفیات میں سے وقت نکال کر میرے ساتھ تعاون کیا، جماعت اسلامی کراچی کے نظم نے مختلف شعبہ جات کے لیے کمیٹیاں تشکیل دیں اور کچھ رفقاء کو اعزازی طور پر میری ٹیم کا حصہ بنادیا۔ کمیٹیوں کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری برجیس احمد صاحب کی لگائی گئی۔ برجیس صاحب بلدیہ عظمیٰ کے کونسلر رہ چکے تھے اور طویل عرصے سے کراچی جماعت کے نظم کا حصہ تھے۔ میری معاونت کرنے والوں میں منتخب اور غیر منتخب دونوں طرح کے لوگ شامل تھے۔ عبدالرشید بیگ، مسلم پرویز، انجینئر سلیم اظہر، انجینئر اظہار الحق، نصر اللہ شجیع، زاہد سعید، عابد الیاس، قاضی صدر الدین، انصار رضی، توصیف احمد، نسیم صدیقی، محمد طفیل، زبیر منصوری، گوہر الاسلام، سیف الدین ایڈووکیٹ، ڈاکٹر فیاض عالم، راشد قریشی اور حنیف اکبر وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

ایک جانب شہر کے دیرینہ مسائل منہ کھولے توجہ کے منتظر تھے، اور دوسری طرف سابقہ کمشنری نظام میں مختلف محکموں کے افسران کا نئے سسٹم میں ماتحتی قبول کرنے سے انکار۔ نت نئے پیش آنے والے مسائل کی وجہ سے ایس ایل جی او میں ہر تھوڑے دن بعد ترمیم کی جاتی۔ ابتدا میں ایس ایل جی او میں سٹی گورنمنٹ کا دورانیہ تین سال رکھا گیا جو بعد میں بڑھا کر چار سال کردیا گیا۔ اس میں کے بی سی اے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے متعلق کوئی ذکر نہیں تھا۔ قومی تعمیرنو بیورو کے قانون کے مطابق ابتدائی چھ ماہ آفیشل مدت طے کی گئی تھی، اس دوران ڈپٹی کمشنر اور ان کے اختیارات نچلی سطح پر منتقل ہونے تھے۔ افسران میں بعض ایسے تھے جو اس نئے سیٹ اَپ سے ناخوش تھے اور تعاون نہیں کررہے تھے۔ یہ طے کیا گیا کہ مسائل اور حل کی درجہ بندی کرلی جائے۔ فوری اور چھوٹے پیمانے کے کام یونین کونسل کے ناظمین شروع کردیں، سیوریج اور چھوٹی سڑکوں کی تعمیر و مرمت وغیرہ… اس کے لیے پہلے سال کے بجٹ میں ہر یونین کونسل کے لیے 34 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔ کچھ بڑے کام ٹائونز کے سپرد تھے، بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھے۔ سٹی گورنمنٹ نے میگا پروجیکٹس اور مجموعی انفرااسٹرکچر کی ازسرنو بحالی کا بیڑہ اٹھایا۔ اس ضمن میں اوّل روز سے ارادہ کیا کہ اپنے پرائے کی تفریق کے بغیر شہر کی خدمت کروں گا۔ الحمدللہ چار برس تک ایسی کوئی شکایت کسی ٹاؤن یا یونین کونسل کو نہیں ہوئی کہ سٹی ناظم کراچی کے علاقوں یا ناظمین کے درمیان کوئی تفریق برتتے ہیں۔ ابتدائی دنوں میں ایک دلچسپ واقعہ بھی پیش آیا، ہوا کچھ یوں کہ میں اپنے دفتر میں بیٹھا فائلیں دیکھ رہا تھا کہ سیکورٹی گارڈ کمرے میں داخل ہوا۔ شکل پر گھبراہٹ عیاں تھی۔ پھولی ہوئی سانسوں سے کہنے لگا: ”بہت سارے لوگوں نے دفتر پر دھاوا بول دیا ہے، اور ضد کررہے ہیں ناظم صاحب کے پاس جانا ہے، میں نے بہت منع کیا، لیکن وہ گھستے ہی چلے آرہے ہیں“۔ اس کی بات سن کر میں اٹھ کھڑا ہوا اور کہا: ”کون لوگ ہیں، انہیں اندر آنے دو“۔ سیکورٹی گارڈ کسی قدر تردد کا شکار تھا، میں نے دوبارہ کہا: ”آنے دو“۔ اس دوران پانی دو، پانی دو کے نعرے صاف سنائی دینے لگے۔

پانی کے لیے احتجاج

کمرے سے نکل کر دیکھا تو گہری رنگت اور گھنگھریالے بالوں والے مرد و خواتین کثیر تعداد میں جمع ہیں۔ اندازہ ہوگیا کہ لیاری سے تعلق ہے۔ کمرے کے اندر بلایا۔ کرسیاں کم پڑ گئیں تو کہہ دیا کہ جس کو جہاں جگہ مل رہی ہے بیٹھ جائے۔ کچھ دیر میں شور تھما تو پوچھا کیا مسئلہ ہے؟ اتنا کہنا تھا کہ پھر شور مچ گیا، ایک ہی لفظ سمجھ میں آرہا تھا ’’پانی‘‘۔ آنے والوں نے شکایتوں کے دفتر کھول دیئے۔ سب بول بول کر تھک گئے تو میں نے ان سے کہا: ”مجھے سٹی ناظم بنے ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا ہے۔ آپ کی شکایات بالکل ٹھیک ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایک دو دن میں خود آپ کے علاقے میں آؤں گا اور صورتِ حال کا جائزہ لے کر فوری طور پر جو ممکن اقدام ہوا وہ کروں گا“۔ میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی تھی کہ ایک صحت مند نوجوان کھڑا ہوا اور قدرے بدتمیزی سے کہنے لگا: ’’سب اسی طرح بولتے ہیں۔ پہلے بھی بہت لوگوں نے وعدہ کیا، لیکن آیا کوئی نہیں“۔ میں نے کہا: ”بس ایک دو دن صبر کرلیں“۔ دو دن کے بعد لیاری کے ٹاؤن ناظم عبدالخالق جمعہ اور کچھ دیگر افراد کے ہمراہ ان لوگوں کے علاقے میں پہنچا تو تھوڑی ہی دیر میں اچھی خاصی بھیڑ جمع ہوگئی۔ گلیوں اور گھروں کے اندر جاکر پانی کی قلت کے حوالے سے معلومات لیں، پتا چلا کہ اردگرد کی آبادیوں میں پانی موجود ہے لیکن لیاری کے کئی علاقوں میں ہفتوں ہفتوں پانی نہیں آتا۔ موقع پر ہی افسران کو حکم دیا کہ فی الحال عارضی طور پر پانی کی فراہمی ممکن بنائی جائے اور مستقل بنیادوں پر فراہمی کے لیے منصوبہ بناکر پیش کیا جائے۔ سٹی نظامت سنبھالے ابھی جمعہ، جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ کئی اور مسائل کھڑے ہوگئے۔ ڈومیسائل کون بنائے گا؟ پیدائش و اموات کے سرٹیفکیٹ کہاں سے بنیں گے؟تعین ہی نہیں ہورہا تھا یہ کام کون کرے گا۔ ایس ایل جی او اس حوالے سے خاموش تھا۔ دوسری طرف کے ڈی اے اور کے ایم سی جیسے ادارے تو شہری حکومت میں ضم ہوگئے لیکن کے بی سی اے اور واٹر بورڈ کا مسئلہ الجھا رہا۔ اصولی طور پر ان دونوں اداروں کو بھی شہری حکومت کا حصہ بننا تھا لیکن صوبائی حکومت نے ان دونوں محکموں کو شہری حکومت کے سپرد نہیں کیا۔ اُس وقت کے بی سی اے کے چیف کنٹرولر بریگیڈیئر ایس اے ناصر تھے، انہیں صوبائی حکومت کے کچھ اہم افراد کی پشت پناہی حاصل تھی۔ وہ کسی صورت سٹی گورنمنٹ کے ماتحت کام کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔

بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پر کنٹرول

میں نے بریگیڈیئر ایس اے ناصر کو خط بھی لکھا، لیکن انہوں نے جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ صورتِ حال یہ ہوگئی تھی کہ کے بی سی اے شہری حکومت کے مدمقابل ایک متوازی ادارہ بن گیا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تمام ٹائونز کے ٹی ایم اوز کو خط لکھ کر مطلع کردیا کہ ٹائون پلاننگ کے معاملات ٹائونز کی سطح پر دیکھے جائیں گے، ایس ایل جی او میں بھی یہی لکھا ہوا تھا۔ ساتھ ہی ایک نوٹیفکیشن کے بی سی اے کے متعلقہ افسران کے لیے نکالا کہ وہ کل سے اپنی ذمہ داریاں ٹائونز میں انجام دیں۔ اس پر کھلبلی مچ گئی۔ چیف سیکریٹری سلیم خان تھے، انہوں نے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم اس مسئلے پر ہنگامی میٹنگ کال کررہے ہیں۔ اس میں ساری صورت حال کا جائزہ لیں گے۔ میٹنگ کے بعد چیف سیکریٹری صاحب کہنے لگے: ”شہری حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن کی وجہ سے بڑا مسئلہ ہوگیا ہے اور جو کام ہورہے تھے وہ بھی رک گئے ہیں“۔ مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے: ”نعمت صاحب! براہِ مہربانی آپ اس نوٹیفکیشن کو فی الحال واپس لے لیں“۔ یہی کچھ معاملہ واٹر بورڈ کا تھا۔ ادارے کے سربراہ بریگیڈیئر بہرام خان تھے۔ وہ اچھی شہرت کے حامل افسر تھے اور کراچی میں پانی کی فراہمی کے مسائل کے حل میں دلچسپی لیتے تھے۔ ہمارے آنے کے کچھ عرصے بعد ان کا تبادلہ ہوگیا۔ ان کے بعد یکے بعد دیگرے منیجنگ ڈائریکٹر تبدیل ہوتے گئے۔ بریگیڈیئر جاوید اشرف آئے، پھر بریگیڈیئر آصف غزالی آئے، اور ان کے بعد بریگیڈیئر افتخار حیدر آئے، لیکن کوئی بھی اس بات پر آمادہ نہیں تھا کہ سٹی حکومت کی ماتحتی میں خوش دلی سے کام کرے۔

سٹی ناظم بنے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ کرنل طاہر مشہدی نے سٹی ناظم کے انتخاب کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ یہ صاحب بھی الیکشن میں سٹی نظامت کے لیے بحیثیت امیدوار کھڑے ہوئے تھے (بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر سینیٹر بھی بنے)۔ سیشن کورٹ میں مقدمہ چل رہا تھا۔ شہری حکومت کے وکیل منظور ستی تاریخوں پر عدالت جاتے تھے۔ یہ سلسلہ جاری تھا اور میں اس کے نتائج سے بے پروا اپنے روزمرہ معمولات کو نمٹانے میں مصروف تھا کہ ایک دن نائب ناظم طارق حسن میرے پاس آئے، دیکھا تو چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ پوچھا: ”خیریت تو ہے، کیا ہوا؟“ مجھے پتا تھا یہ کیس کے سلسلے میں کورٹ گئے ہوئے تھے، کہنے لگے: ”نعمت صاحب! ابھی وکیل سے ملاقات ہوئی ہے، وہ بتا رہے تھے کہ آج جج کا رویہ بدلا ہوا تھا۔ میرے حساب سے وہ کل ہمارے خلاف فیصلہ سنا دے گا۔ اس طرح تو ہماری نظامت…!“ طارق حسن کی بات سن کر میں نے کہا: ”چھوڑو طارق! اچھا ہے، اس طرح تو ہماری جان چھوٹ جائے گی“۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگے: ’’میں پریشان ہورہا ہوں اور آپ مذاق کررہے ہیں!‘‘ میں نے طارق حسن سے کہا: ”جماعت اسلامی نے دو چیزیں سکھائی ہیں۔ عہدے کی خواہش نہ رکھنا، اور اگر خواہش نہ ہونے کے باوجود بھی کوئی عہدہ مل جائے تو اسے امانت سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ اللہ نے آزمائش دی ہے، دوسرے یہ کہ اللہ پر توکل کرنا“۔ طارق حسن پتا نہیں میری ان باتوں کو کتنا ہضم کرپائے، لیکن ان کی بے چینی کم ضرور ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ دے دیا۔ منظور صاحب نے تبصرہ کیا کہ فیصلہ آپ لوگوں کے نہیں، دراصل کراچی کے حق میں ہوا ہے۔

شہر کے معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کا ایک ہی راستہ تھا کہ 178 یونین کونسل ناظمین اور 18 ٹاؤن ناظمین سے مسلسل رابطہ بھی رکھا جائے اور ان کے جن مسائل کا تعلق سٹی گورنمنٹ سے ہو، انہیں میرٹ پر حل کیا جائے، اور کسی طور یہ نہ ہو کہ فلاں ہمارے گروپ کا فرد ہے اور فلاں کا تعلق کسی دوسری سیاسی جماعت یا گروہ سے ہے۔

اس توازن کو برقرار رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ شہر کے ہر علاقے کے مسائل گمبھیر تھے اور سال ہا سال سے حل نہیں ہوئے تھے۔ ہمارے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں تھا کہ رگڑتے، جن حاضر ہوتا اور ہمارے حکم پر سارے مسائل حل کردیتا۔ سٹی کونسل میں نائب ناظم طارق حسن اور مسلم پرویز نے نہایت متانت، بردباری اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیا اور پوری کونسل کو ساتھ لے کر چلے۔ عبدالرشید بیگ صاحب، قاضی صدرالدین، عابد الیاس، انجینئر عبدالعزیز، ریحانہ افروز، گوہر الاسلام، سجاد دارا، حکیم مجاہد محمود برکاتی، زاہد سعید، حکیم سعادت ابراہیم، پیپلز پارٹی کے نجمی عالم اور سعید غنی اور سینئر رکن کونسل صدیق راٹھور کا کردار بھی لائقِ ستائش رہا کہ ان سب نے شہر کے مفاد کو اوّلیت دی اور اختلافی امور کو افہام و تفہیم سے حل کیا۔ بجٹ اجلاسوں کے مواقع پر نوک جھونک ضرور ہوتی رہی، لیکن ہر سال کا بجٹ اراکین کی غالب اکثریت کی حمایت و تائید سے منظور ہوتا رہا۔

ٹاؤن ناظمین کے ساتھ میری اور ڈی سی او کی مستقل مشاورت ہوا کرتی تھی۔ ہم ان اجلاسوں میں اہم محکموں کے ای ڈی اوز کو بھی شریک کروایا کرتے تھے۔ تمام ٹاؤن ناظمین شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہتے تھے۔ میرے دروازے ان سب کے لیے ہر وقت کھلے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب ایک ٹیم اور ایک خاندان کی طرح کام کرپائے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والے منتخب نمائندوں اور خواتین کونسلرز نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ کئی لوگ پہلی مرتبہ کسی عوامی عہدے پر منتخب ہوئے تھے اور قواعد و ضوابط سے کم واقف تھے، لیکن ان میں سیکھنے کا جذبہ بہت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ آگے چل کر پورے ملک کے لیے ایک مثال ثابت ہوئی۔

خوشحال پاکستان پروگرام

سٹی گورنمنٹ کے قیام سے کچھ پہلے پورے پاکستان میں وفاقی حکومت کے تحت ایک بہت بڑا اور ہمہ جہت ترقیاتی منصوبہ خوشحال پاکستان پروگرام شروع ہوچکا تھا۔ ہم نے 2004ء کے آخر تک اس پروگرام کے چار مراحل میں کئی ارب روپے کے منصوبے شہر بھر میں مکمل کیے۔ ان میں مختلف سڑکوں کے ساتھ ساتھ گرومندر، نمائش، فائیو اسٹار چورنگی، عائشہ منزل چورنگی، بنارس چوک اور ناگن چورنگی کی امپروومنٹ اور سگنلائزیشن شامل ہیں، جبکہ سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے بھی بہت کام کیا گیا۔ گلشن اقبال ٹاؤن اور جمشید ٹاؤن میں سیوریج کے بہت بڑے حصے کو اسٹورم واٹر ڈرین سے الگ کیا گیا اور سیوریج کا نیا نظام ڈالا گیا۔ اس کے علاوہ پورے شہر میں بڑے پیمانے پر بوسیدہ سیوریج لائنوں کو تبدیل کیا گیا۔ خوش حال پاکستان پروگرام کی نگرانی کے لیے میں نے انجینئر سلیم اظہر کی ذمہ داری لگائی اور ان سے کہا کہ تمام ٹاؤن اور یوسی ناظمین کی مشاورت سے منصوبے بنائے جائیں۔ ہر ٹاؤن کو کچرا اٹھانے اور صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے 65 لاکھ روپے کی مشینری، ٹریکٹر ٹرالی وغیرہ بھی دیں۔ کراچی کی 178 یونین کونسلز کو بھی صفائی کے نظام کی بہتری کے لیے ٹریکٹر ٹرالی اور دیگر سامان کا تحفہ دیا گیا۔ خوشحال پاکستان پروگرام کو کامیابی سے ہم کنار کرنے میں منتخب نمائندوں کے ساتھ ساتھ دو افسران نثار ساریو اور محمد شکیب نے غیر معمولی محنت اور لگن سے کام کیا اور اپنے فرائضِ منصبی پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کیے۔ ترقیاتی منصوبوں میں عوامی نمائندوں اور سرکاری افسران کا مل جل کر کام کرنا ہی کامیابی کی دلیل ہوتا ہے۔ الحمدللہ ہمارے پورے دور میں بیوروکریسی اور مختلف محکموں کے افسران کا تعاون ہمیں حاصل رہا، اور ہم سب نے ایک ٹیم بن کر شہر کی خدمت کی۔

شاہ فیصل کالونی فلائی اوور

سٹی گورنمنٹ نے اپنے قیام کے بعد جس فلائی اوور پر سب سے پہلے کام شروع کروایا، وہ شاہ فیصل کالونی فلائی اوور تھا۔ اس فلائی اوور کی تعمیر کا ٹھیکہ سٹی گورنمنٹ کے وجود میں آنے سے کچھ عرصے قبل ایک کنٹریکٹر کو دیا جاچکا تھا۔ 15 اگست 2001ء کو صدر پرویزمشرف نے اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا۔ منصوبے کی کُل مالیت 27 کروڑ روپے تھی۔

میں نے انجینئر سلیم اظہر اور محکمہ ورکس اینڈ سروسز کے افسران کو ہدایت کی کہ یہ ہمارا پہلا بڑا ترقیاتی منصوبہ ہے۔ اگر ہم نے اس منصوبے کو شفاف انداز میں اچھے معیار کے مطابق مکمل کرلیا تو آگے کے لیے راستہ ہموار ہوجائے گا، اور ٹھیکیدار و افسران ہمارے کام کرنے کے طریقے کو بھی سمجھ جائیں گے۔ میں نے اس پراجیکٹ پر کام کرنے والی کمپنی کے نمائندے کو بھی بلایا اور اس سے کہا کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آپ کو بروقت ادائیگی ہوتی رہے اور بغیر کسی رشوت کے ہوتی رہے، لیکن ہماری ٹیم کے اراکین کا کام کے معیار سے مطمئن ہونا لازمی ہے، اور یہ بھی کہ ادائیگی سے قبل ہمارے انجینئرز پیمائش وغیرہ بھی لازمی طور پر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ ہماری کمپنی آپ کی توقعات پر پوری اترے گی، ہم خود بھی چاہتے ہیں کہ اپنے شہر کی خدمت کریں اور معیاری کام کریں، لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ رشوتوں کا ریٹ کتنا ”ہائی“ ہے۔ مجھے ان کی صاف گوئی نے متاثر کیا۔

شاہ فیصل کالونی کے کئی مکانات اس فلائی اوور کی زد میں آرہے تھے۔ ہم نے ان کے مالکان کو مارکیٹ ریٹ کے مطابق قیمت ادا کی، اور میں نے خود ان تمام افراد کو چیک دیے، تاکہ وہ اپنے لیے متبادل رہائش کا معقول بندوبست کرسکیں۔

حیران کن طور پر یہ فلائی اوور 19کروڑ روپے میں مکمل ہوگیا۔ مکانات کے لیے دی گئی رقم اس میں شامل نہیں تھی۔ شاید سرکاری شعبے میں اپنی نوعیت کی یہ پہلی اور انوکھی مثال تھی کہ ٹینڈر میں منظور شدہ رقم سے کم میں کوئی منصوبہ مکمل کیا گیا ہو۔ ہمارے یہاں روایت تو اس کے برعکس رہی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور ایک منصوبے کی لاگت کہیں سے کہیں جا پہنچتی ہے۔

شاہ فیصل کالونی فلائی اوور منصوبے میں کئی کروڑ کی بچت نے ہماری پوری ٹیم کا حوصلہ بلند کردیا اور آگے آنے والے ترقیاتی منصوبوں کے لیے مثال قائم کردی۔ اس فلائی اوور کی وجہ سے شاہ فیصل کالونی کے عوام نے سُکھ کا سانس لیا، کیونکہ اب انہیں ریلوے پھاٹک پر انتظار کرنے کی زحمت سے نجات مل گئی تھی۔ ریلوے کی مین لائن ہونے کی وجہ سے وہاں پھاٹک دن اور رات میں کئی بار بند ہوا کرتا تھا اور ٹریفک جام ہونے کی شکایت عام تھی۔

ہم نے روزِ اوّل سے ایک اصول طے کرلیا تھا کہ ترقیاتی منصوبے خواہ کسی بھی علاقے میں ہوں یا کسی بھی نوعیت کے ہوں، آنکھیں بند کرکے منظوری دینے کے بجائے، ٹینڈرز اور معاہدوں سمیت تمام جزئیات کی مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی۔

ہر معاملہ میں شفافیت

سٹی گورنمنٹ کے مالی حالات اچھے نہیں تھے۔ آمدنی میں فوری اضافہ ناگزیر تھا۔ ایک آسان حل تو یہ تھا کہ ہم شہریوں پر نئے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتے جو پہلے ہی سے کئی طرح کے ٹیکسوں کو بھگت رہے تھے۔ کچھ افسران کی جانب سے نئے ٹیکس متعارف کروانے کی تجویز کو سندِ قبولیت نہیں مل سکی۔ متبادل راستے اختیار کرتے ہوئے سٹی گورنمنٹ نے پہلے مرحلے میں کمرشل جگہوں کی شفاف نیلامی کا فیصلہ کیا۔ اس میں دو تین مقامات بہت اہم تھے جیسے ہاکس بے ٹرک اسٹینڈ پر پارکنگ کا ٹھیکہ برسوں سے ایک ہی پارٹی کے پاس تھا، اور اس کے عوض وہ کرائے کی مد میں 45 لاکھ روپے سالانہ جمع کراتے تھے۔ مسلم پرویز کی سربراہی میں آکشن کمیٹی بنا دی۔ اس نے مکمل جائزہ لے کر نیلامی کرنے کا اعلان کیا۔ بہت سارے لوگ اس میں شریک ہوئے اور آفرز دیں۔ آخر میں 45لاکھ روپے سالانہ پر جانے والا ٹھیکہ ایک کروڑ پچھتر لاکھ میں گیا۔ یعنی سابقہ کرائے سے تین گنا زائد۔ نئی پارٹی کامیاب بولی دینے کے بعد جب قبضہ لینے کے لیے وہاں پہنچی تو پرانی پارٹی نے بدمعاشی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے انہیں دھمکیاں دیں اور بھگا دیا۔ ذرا سختی کی تو وہ لوگ جماعت اسلامی کراچی کے دفتر پہنچ گئے اور امیر جماعت معراج الہدیٰ صدیقی کو باور کرانے لگے کہ ہم بھی جماعت اسلامی کے پرانے خیر خواہوں میں سے ہیں اور آپ کے سٹی ناظم تو ہمیں معاشی طور پر تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ ڈاکٹر معراج نے ان سے معذرت کرلی کہ وہ کسی ناجائز کام کے لیے سفارش نہیں کریں گے۔

اُس وقت ڈی آئی جی کراچی طارق جمیل تھے، انہیں مسئلہ حل کرنے کے لیے کہا۔ پولیس کی بھاری نفری نے قبضہ ختم کرایا۔ اس سے اگلے برس وہ ٹھیکہ 2کروڑ 40 لاکھ روپے میں گیا۔ جب کہ ہماری مدت ختم ہونے سے قبل کرائے کی مد میں مذکورہ اسٹینڈ سے 2کروڑ 75 لاکھ سالانہ آمدنی ہورہی تھی۔ آمدنی کو بہتر بنانے کے لیے کمرشل اَراضی کی نیلامی کا معاملہ بھی قابلِ ذکر رہا۔ اس حوالے سے صدر میں امریکانو ڈرائی کلینر کی زمین کی فروخت کا معاملہ بہت نمایاں رہا۔ بہت دنوں تک اخبارات میں اس کا چرچا رہا۔

ہوا کچھ یوں کہ امریکانو ڈرائی کلینر سٹی گورنمنٹ کی اراضی پر قائم تھی۔ اس کے مالکان گزشتہ 40 برس سے فقط چند سو روپے ماہانہ کرایہ ادا کرتے تھے، جو کہ محلِ وقوع کے اعتبار سے نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کی لیز کی مدت ختم ہوئی تو اس کے مالکان میں سے ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہماری دکان کی لیز ختم ہورہی ہے، براہ مہربانی اس میں توسیع کردیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں اس پلاٹ کی لیز میں توسیع کرنے کے بجائے اسے نیلام کرواؤں گا، آپ بھی نیلامی میں حصہ لیجیے۔ بولی میں آپ کامیاب ہوگئے تو آپ کام جاری رکھیے گا۔ وہ اعتراض کرنے لگے کہ اس طرح تو پچھلی حکومتوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔ نیلامی کے لیے جاری کردہ اشتہار کا اچھا نتیجہ نکلا۔ کافی لوگوں نے اس میں حصہ لیا۔ جب نیلامی ہوئی تو محض چند سو روپے ماہانہ کرایہ دینے والی جگہ 6 کروڑ 75 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔ کامیاب بولی دینے والے سے پیسے لے کر فوراً قبضہ دے دیا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ شہری حکومت کو حاصل ہونے والی یہ معقول آمدنی صوبائی حکومت کو ایک آنکھ نہ بھائی، اس لیے شہر کے مفاد کا دعویٰ کرنے والے عناصر عدالت جا پہنچے اور مقدمہ دائر کردیا کہ سٹی ناظم کو یہ جگہ نیلام کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ کچھ دن کے بعد متحدہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صوبائی وزیر سید سردار احمد ایک سیمینار کی صدارت کررہے تھے۔ منتظمین نے مجھے بھی مدعو کررکھا تھا۔ تقریر کے دوران میں نے مالی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے امریکانو ڈرائی کلینر کی نیلامی کے معاملے کا حوالہ بھی دیا۔ سردار احمد صاحب جب اپنی صدارتی تقریر کرنے آئے تو انہوں نے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”نعمت صاحب کی امانت اور دیانت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا، اور نہ ہی کبھی اس کی نوبت آئے گی۔ امریکانو ڈرائی کلینر کے پورے معاملے سے میں ذاتی طور پر واقف ہوں، اس لیے برملا کہتا ہوں کہ نعمت صاحب کی طرف سے نیلامی کا فیصلہ بالکل درست تھا اور شہر کے حق میں تھا“۔ سٹی گورنمنٹ کی زمینوں کی نیلامی کے ہر عمل کو کرپشن اور شکوک و شبہات سے مکمل پاک رکھنے کے لیے مختلف مواقع پر ہونے والی نیلامیوں میں افسران کے ساتھ عوامی نمائندوں کو بھی شامل کیا۔ معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ایک مشاورتی کمیٹی بنائی اور اس سے اگلے مرحلے میں کرپشن کے خاتمے کے لیے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی معاونت سے ایک Procurement Manual بنوایا اور اس کے نفاذ کو یقینی بنایا۔

 

فہرست | →پیچھے جائیے


←شہر کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ – کے تھری