کچی آبادیاں، انفرااسٹرکچر اور پبلک ٹرانسپورٹ
کچی آبادیاں کراچی کی ایک حقیقت ہیں، جن کے برسرِ زمین وجود سے انکار ممکن نہیں ہے۔ یہ آبادیاں کب وجود میں آنا شروع ہوئیں اور مختلف حکومتوں نے ان کے پھیلاؤ کو کیوں نہیں روکا؟ یہ غور طلب بات ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ شہر کے بہت سارے دیرینہ مسائل کا تعلق ان کچی آبادیوں سے ہے، جہاں بسنے والے لوگ زندگی کی اکثر بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہوتے ہیں۔
بڑے شہروں میں کچی بستیوں کا وجود صرف کراچی ہی میں نہیں ہے، لاہور اور اسلام آباد میں بھی ایسی آبادیاں موجود ہیں گو کہ کراچی کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت کے بڑے شہروں جیسے ممبئی، دہلی اور کولکتہ میں بھی بڑی بڑی کچی بستیاں وجود رکھتی ہیں۔ کراچی میں 1985ء کے ایک سروے کے مطابق کئی سو کچی بستیاں موجود ہیں۔ 1989ء میں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کی منتخب کونسل نے کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق اور لیز دینے کے لیے ایک قرارداد کے ذریعے نرخ مقرر کیے جو کم از کم 25 روپے مربع گز اور زیادہ سے زیادہ 300 روپے مربع گز تھے۔ بہت ساری کچی بستیوں نے اس مفید اسکیم سے فائدہ اٹھایا لیکن درجنوں بستیاں پھر بھی باقی رہ گئیں۔
1999ءمیں کے ایم سی کے ایک ایڈمنسٹریٹر نے ان نرخوں میں غیر معمولی اضافہ کرکے کم از کم 400 روپے مربع گز اور زیادہ سے زیادہ 2500 روپے مربع گز کردیا۔ یہ نرخ ان بستیوں کے مکینوں کے لیے بہت زیادہ تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچی آبادیوں کی لیز (Lease)کا کام رک گیا جس سے شہر کو بہت نقصان ہوا۔
میں نے کچی آبادیوں کے لیز کے نرخ میں کمی کے حوالے سے ڈی سی او اور نائب ناظم سے مشاورت کی اور 1989ء کے نرخ کی بحالی کی تجویز پیش کی۔ شفیق الرحمٰن پراچہ اور طارق حسن نے اس تجویز سے مکمل اتفاق کیا۔ مسلم پرویز، سعید غنی اور صدیق راٹھور سمیت کونسل کے سب اراکین نے تائید و حمایت کی، اور کچھ ہی عرصے میں سٹی کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے 1989ء کے نرخ بحال کردیے۔
سٹی کونسل نے جو نئے نرخ مقرر کیے وہ درج ذیل تھے:
120 مربع گز 25 روپے فی مربع گز
120 سے 150 مربع گز 100 روپے فی مربع گز
اسکول، مدرسہ اور ہسپتال 300 روپے فی مربع گز
عبادت گاہیں (مسجد، مندر، چرچ،گردوارہ) صرف ایک روپیہ فی مربع گز
اس کے بعد مدتِ نظامت ختم ہونے تک ہم نے درجنوں کچی بستیوں کے ہزاروں مکینوں کو لیز کے کاغذات دیے اور ان بستیوں میں ترقیاتی کام شروع کروائے۔ لیز دینے کے منصوبے میں گوہر الاسلام، قاضی صدرالدین، عابدالیاس، عبدالرشید بیگ صاحب اور مسلم پرویز نے غیر معمولی محنت کی، جبکہ شہر کے تمام ٹاؤن ناظمین نے بھی بڑھ چڑھ کر تعاون کیا۔
طارق وسیم غازی کے بعد جنرل احسن سلیم حیات نے نئے کور کمانڈر کی حیثیت سے چارج لیا۔ ان کے ساتھ گزرے تھوڑے سے عرصے کا ایک واقعہ مجھے تادیر یاد رہا۔ کور کمانڈر ہاؤس میں ایک میٹنگ جاری تھی۔ احسن سلیم حیات کمرے میں داخل ہوئے تو ان کی پتلون خون آلود تھی۔ میٹنگ کے تمام شرکاء یہ منظر دیکھ کر حیران بھی ہوئے اور پریشان بھی۔ احسن سلیم حیات نے کہا: چند منٹ دیجیے، میں کپڑے تبدیل کرکے آتا ہوں۔ اس موقع پر انہوں نے خود تو ذکر نہیں کیا، لیکن میٹنگ کے اختتام پر ان کے اسٹاف ممبرز نے بتایا کہ قاتلانہ حملے میں بال بال بچے ہیں۔ میٹنگ کے دوران انہوں نے ایجنڈے کے سوا کسی موضوع پر بات نہیں کی اور نہ ہی ان کے رویّے سے کسی قسم کی پریشانی ظاہر ہوئی۔ غالباً انہی کے دور میں اسٹیبلشمنٹ نے طے کرلیا تھا کہ اب کیونکہ ایک منتخب صوبائی حکومت اپنا وجود مستحکم کرچکی ہے، اس لیے شہری حکومت کے نظام کو بھی صوبائی حکومت کے کارپرداز دیکھیں تو مناسب رہے گا۔ شہری حکومت کے تخلیق کاروں کی یہ لاتعلقی ایک درجے میں بہتر تھی تو دوسری طرف بعض منفی عناصر کو شہ دینے کے مترادف بھی تھی۔ وزیراعلیٰ کو تو اس نظام سے ویسے بھی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ خاص طور پر کراچی اور حیدرآباد کے معاملات میں وہ بالکل بے بس نظر آتے تھے۔ سٹی گورنمنٹ کے مختلف محکموں میں صوبائی وزراء کی جانب سے مداخلت پر ان کی طرف سے کوئی ردِعمل بھی سامنے نہیں آتا تھا۔ پھر صدر پرویزمشرف بھی تھوڑے پرے پرے دکھائی دے رہے تھے۔
اپنی ذمہ داریاں مختصر عرصہ تک نبھانے کے بعد احسن سلیم حیات بھی رخصت ہوگئے، اور ان کی جگہ نئے کورکمانڈر سید اطہر علی آگئے۔ کچھ میٹنگز میں رسمی سلام دعا ہوئی۔ ایک بار صوبائی وزراء کی بے جا مداخلت کا شکوہ کرکے کردار ادا کرنے کا کہا تو انہوں نے زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اپنی نظامت کے آخری دنوں میں، میں نے شہری حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفتوں اور کورکمانڈر کراچی کی سردمہری کے رویّے کا تذکرہ طارق وسیم غازی سے ایک ملاقات میں کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کو کور کمانڈر سے ون ٹو ون ملاقات کرنی چاہیے۔ چنانچہ سید اطہر علی سے ملاقات کا وقت لیا۔ وقت ِ مقررہ پر جب میں ان کے دفتر پہنچا تو ایک ایئروائس مارشل اور کچھ دیگر اہم شخصیات ان سے ملاقات کے لیے انتظار گاہ میں موجود تھیں۔ اردلی نے میرے پہنچنے کی اطلاع دی تو انہوں نے سب سے پہلے مجھے ملاقات کے لیے بلوالیا، اور پھر تقریباً ایک گھنٹے تک ہماری ملاقات جاری رہی۔ گفتگو کے درمیان وہ کہنے لگے: اصل میں ابتدا میں آپ کے متعلق صدر صاحب کی پالیسی یہ تھی کہ ناظم کراچی کی مکمل سپورٹ کی جائے اور ترقیاتی کاموں میں سپورٹ کے ساتھ صوبائی حکومت کو بھی کنٹرول میں رکھا جائے۔ لیکن اب پالیسی اور ہدایات یہ ہیں کہ صوبائی حکومت کو بھی اختیارات میں شریک کیا جائے۔ صدر پرویزمشرف آپ کی کارکردگی سے بہت خوش ہیں لیکن صوبائی حکومت کو بھی بالکل بے حیثیت نہیں دیکھنا چاہتے، اور خواہش رکھتے ہیں کہ آپ کے اور صوبائی وزراء کے درمیان اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ میرا ننھیال یہاں (کراچی) میں ہے۔ اور میرے تمام ننھیالی رشتے دار آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں۔
ملاقات کے آخر میں جب انہیں رکاوٹوں اور مخالفتوں کے حوالے سے چند مثالیں دیں تو وہ کہنے لگے: ’’آپ نے یہ باتیں صدر پرویزمشرف سے کہی ہیں؟‘‘ ”وہ تو ملتے ہی نہیں ہیں، میں تو دیگر ذرائع سے بھی ملاقات کے لیے رابطہ کرچکا ہوں“۔ میں نے اُن سے کہا۔ اس پر سید اطہر علی کہنے لگے: اچھا ٹھیک ہے، میں رابطے کا بندوبست کرواتا ہوں۔ کوئی تین دن گزرے ہوں گے کہ ایک دن سید اطہر علی کا فون آیا۔ کہنے لگے: نعمت صاحب! پرویزمشرف ملاقات کے لیے انکار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں نعمت اللہ خان سے ملاقات کرتا ہوں تو اس پر متحدہ قومی موومنٹ والے اعتراض کرتے ہیں، ان کا مؤقف یہ ہے کہ ان ملاقاتوں سے ہمارے کارکنوں میں غلط پیغام جاتا ہے۔ کور کمانڈر کراچی کی بات سن کر سارا نقشہ سمجھ میں آگیا۔ دراصل پرویزمشرف کے روکھے پن کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ 2008ء میں ہونے والے الیکشن کا سوچ رہے تھے اور متحدہ اُن کے لیے بہت اہمیت اختیار کرچکی تھی۔
اپنے اقتدار کے دوام کے لیے وہ سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ کی مکمل حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس خواہش کے عوض ایم کیو ایم چاہتی تھی کہ صدر پرویزمشرف شہری حکومت کے مقابلے میں صوبائی حکومت کی مکمل سرپرستی کریں۔ بس اسی وجہ سے پرویزمشرف متحدہ کے مطالبے کے آگے ڈھیر ہوگئے۔
نئے ترقیاتی منصوبے
نئے بلدیاتی نظام کی اچھی شروعات کے بعد آنے والے مختلف نشیب و فراز اور آخر میں اس سسٹم کے طاقتور سرپرستوں کی جانب سے اختیار کی جانے والی بے رخی کے باوجود اپنے مخلص رفقاء کے ہمراہ شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے کیے گئے کاموں کی طویل فہرست میں سے چند بڑے ترقیاتی منصوبوں کی ابتدا اور تکمیل کا احوال بڑا دلچسپ ہے۔ اس حوالے سے پہلے مرحلے میں انفرااسٹرکچر کی بحالی کے زمرے میں شاہ فیصل فلائی اوور اور ایف ٹی سی فلائی اوور کی تکمیل کے بعد شاہراہ قائدین فلائی اوور کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ اس پراجیکٹ پر خاصی حد تک کام ہوچکا تھا، قریب تھا کہ ہم اس کا افتتاح کرتے، لیکن صوبائی مشیر بلدیات نے پراجیکٹ انجینئر کو معطل کردیا جس کی وجہ سے کام تعطل کا شکار ہوگیا۔ اس کے علاوہ 28 اپریل 2005ء کو سہراب گوٹھ فلائی اوور کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ لیاقت آباد 10 نمبر جانے والے راستے پر مستقل ٹریفک جام کی وجہ سے غریب آباد کے مقام پر 560 میٹر طویل انڈر پاس تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 7 دسمبر 2004ء کو اس منصوبے کا بھی سنگ ِ بنیاد رکھا گیا۔ اس کی تعمیر کا ٹھیکہ ایسے کنٹریکٹر کے پاس تھا جس کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ سے تھا۔ اس نے قصداً کام میں تاخیری حربے اختیار کرنا شروع کیے، یہاں تک کہ میری نظامت کا دور مکمل ہوگیا۔ اس کے ساتھ پہاڑ گنج سے قصبہ کالونی تک پہاڑی کو کاٹ کر سڑک کی تعمیر، کارساز فلائی اوور، قائد آباد فلائی اوور، ماری پور روڈ، مہران ہائی وے، نشتر روڈ، ابن سینا روڈ، راشد منہاس روڈ، شاہ ولی اللہ روڈ، شبیر احمد عثمانی روڈ، منگھوپیر روڈ، کورنگی 8 ہزار روڈ، کالا پل تا قیوم آباد روڈ ، جہانگیر روڈ، صبغت اللہ شہید روڈ، اور گریگس ولیج سے ساحل سمندر تک سڑک کی تعمیر کے علاوہ30 مئی 2005ء کو ملیر ریور برج کے تاریخی منصوبے کا آغاز کیا گیا۔ 1350 میٹر طویل اور23.60 میٹر چوڑے پل کی تعمیر سے کورنگی سے شاہ فیصل کالونی کا فاصلہ سمٹ کر محض 15 منٹ کا رہ گیا۔ اس فلائی اوور کی لاگت ایک ارب چھ کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ نظامت کے اختتام تک فلائی اوور کے ستون کھڑے ہوچکے تھے اور مزید کام جاری تھا۔
پبلک ٹرانسپورٹ
شہر میں سڑکوں اور پلوں کی تعمیر کے ساتھ ہی اس بات کا شدت سے اندازہ ہورہا تھا کہ کراچی میں آمد و رفت کے لیے عمدہ راستوں کے علاوہ پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو ازسرنو درست کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ کیوں کہ نجی ٹرانسپورٹرز نے برس ہا برس سے ٹرانسپورٹ کے نظام کو اپنے شکنجے میں کس رکھا تھا۔ اکثر ٹرانسپورٹر خراب لوگ نہیں تھے لیکن ٹریفک پولیس کی بھتہ خوری، متحدہ کے لوگوں کی طرف سے جا و بیجا مطالبات، اور کچھ دیگر عوامل نے مل کر اس شعبے میں حالات کو بہت ناسازگار بنادیا تھا۔ عام کاروباری آدمی ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ شہر میں چلنے والی بسوں، منی بسوں اور کوچوں کی کُل تعداد ضرورت کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی۔ ماضی میں سویڈن کی کمپنی M.R.V.P کا پیش کردہ منصوبہ، 1984ء میں زمین دوز ٹرین چلانے کا منصوبہ، الیکٹرک ٹرام اور اربن ٹرین بس سروس کے منصوبے تیار ہوئے مگر فقط کاغذوں پر ہی رہ گئے۔ پھر بدقسمتی سے 1996ء میں سرکاری ٹرانسپورٹ کے ادارہ ’’کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن‘‘ کو مالی طور پر تباہی کے کنارے پہنچا کر بند کردیا گیا۔ دوسری جانب کراچی سرکلر ریلوے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے گئے، یہاں تک کہ 104 سرکلر ٹرینوں کے ذریعے چلنے والے اس سسٹم کو مسافروں کی عدم دلچسپی کا جواز پیش کرکے 1999ء میں بند کردیا گیا۔ اس طرح کراچی کی دو کروڑ کے لگ بھگ آبادی ٹوٹی پھوٹی، دھواں اڑاتی بسوں اور ویگنوں میں سفر کرنے پر مجبور تھی۔ چورنگیوں کی ری ماڈلنگ، کشادہ سڑکوں کی تعمیر اور کئی نئے فلائی اوورز سے ٹریفک جام کا سنگین مسئلہ تو کسی حد تک حل ہوگیا تھا لیکن اب بھی بہت سے اہم مسائل حل طلب تھے۔ اس مرحلے پر ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک ’’اربن ٹرانسپورٹ اسکیم‘‘ تیار کی گئی۔ اس اسکیم میں مقامی ٹرانسپورٹرز کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاروں کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ٹیکس کی مد میں وفاقی حکومت کی جانب سے رعایتیں بھی دی گئیں۔ اس اسکیم کی بنیادی شرائط میں ڈرائیور اور کنڈیکٹر کا تعلیم یافتہ ہونا اور ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا شامل تھا۔ کچھ عرصے میں 22مختلف کمپنیوں نے شہر میں بسیں چلانے کے لیے رجوع کیا۔ اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کے تحت کراچی گرین بس کمپنی، الائیڈ سروسز، ورلڈ وائڈ موٹرز، العزیز روڈ ٹرانسپورٹ کمپنی، Q.S.F اور سویڈ بس پاک لمیٹڈ، انٹرنیشنل ٹرانس لیویا، ہلٹن ٹرانس، نیلم کارپوریشن، الطاف شاہ رخ، اور قائد سٹی بس گروپ نے بڑی بسیں چلانا شروع کردیں۔ جب کہ بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی بسوں کے متعلق وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ یہ بسیں جن شہروں میں درآمد کی جائیں گی صرف وہیں چلائی جائیں گی۔ اس شرط کو پورا کرنے کی صورت میں امپورٹ ڈیوٹی اور ٹیکس معاف کردیا جائے گا۔ ہم نے گاڑیاں منگوانے کا ارادہ کیا تو اُس وقت نوٹیفکیشن میں دی گئی مدت پوری ہوگئی تھی۔
شہریوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سینٹرل بورڈ آف ریونیو کے عہدیداران سے ملاقات کے لیے اسلام آباد گیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم گاڑیاں منگوانا چاہ رہے تھے، لیکن نوٹیفکیشن کی مدت ختم ہوگئی۔ اس میں کوئی رعایت تو دیں۔ میری گزارش پر انہوں نے تاریخ میں توسیع کردی۔ اس کے بعد سوئیڈن کی ایک کمپنی کی 300 بسیں اور دوسری کمپنی کی سی این جی والی گاڑیاں کراچی آگئیں۔ ان گاڑیوں میں باقاعدہ ٹکٹ مشینیں نصب تھیں۔ ہمارے افراد ٹرانسپورٹ کا نظام چیک کرنے کے لیے ان گاڑیوں میں سفر کرتے، دفاتر جانے والے افراد کی معقول تعداد اپنی ذاتی گاڑیوں کے بجائے ان ایئرکنڈیشنڈ گرین بسوں میں سفر کرنے کو ترجیح دینے لگی۔ ٹرانسپورٹ کے نظام کی بہتری کے ساتھ مسافروں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’بس شیلٹرز‘‘ کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ شیلٹرز BOT (بلٹ، آپریٹ، ٹرانسفر) کی بنیاد پر تیار کیے جانے تھے اور انہیں تین درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلی درجہ بندی میں بس شیلٹر صرف چھجہ اور بیٹھنے کی جگہ پر مشتمل تھا۔ دوسری درجہ بندی میں مسافروں کے لیے بیٹھنے کی جگہ اور ٹک شاپ شامل تھی۔ اور تیسری درجہ بندی میں ٹک شاپ مسافروں کے لیے نشستیں اور مرد و خواتین کے علیحدہ علیحدہ بیت الخلا بھی بنائے جانے تھے۔ ٹک شاپس کے لیے پہلے سے طے کردیا تھا کہ یہ صرف معذور افراد کو چلانے کے لیے دیے جائیں گے۔ 470 بس شیلٹرز کے منصوبے میں سے پہلا بس شیلٹر شارع فیصل پر عوامی مرکز کے سامنے بنایا گیا۔ باقی جگہوں پر بھی کام جاری تھا۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ اور اس میں سفر کرنے والے مسافروں کے مسائل کے حل کے ساتھ ہی انٹر سٹی بس ٹرمینلز کا مسئلہ بھی بہت اہمیت کا حامل تھا، کیوں کہ کراچی سے روزانہ سینکڑوں بسیں ہزاروں مسافروں کو ملک کے مختلف شہروں میں لے کر جاتی اور آتی تھیں۔ لیکن ان بسوں کے لیے کوئی مناسب ٹھکانا نہ ہونے کی وجہ سے تاج میڈیکل کمپلیکس، پرانی سبزی منڈی، سہراب گوٹھ، بنارس چوک، قائد آباد سمیت مختلف جگہوں پر درجنوں غیر قانونی بس ٹرمینل وجود میں آگئے تھے۔ ان علاقوں کے رہائشیوں کی طرف سے متعدد بار شکایات بھی آچکی تھیں۔ نظر بھی آرہا تھا کہ جگہ جگہ بننے والے بس اڈوں کی وجہ سے نت نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ شہر میں آمد و رفت کے تین مرکزی راستے ہیں: 1-سپرہائی وے، 2-نیشنل ہائی وے، 3- آرسی ڈی ہائی وے یا حب ریور روڈ۔ طے کیا گیا کہ ان ہائی ویز پر انٹر سٹی بس ٹرمینل بنائے جائیں تاکہ ان بڑی بسوں کے شہر میں داخل ہونے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
ٹرانسپورٹ کے محکمے نے بلدیہ ٹاؤن کے علاقے یوسف گوٹھ میں ایک بڑے قطعہ اراضی پر شہر کے پہلے انٹر سٹی بس ٹرمینل کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ ورکس اینڈ سروسز کے محکمے کے ای ڈی او سرفراز علی شاہ، ٹرانسپورٹ کے ای ڈی او ڈاکٹر طاہر سومرو، پراجیکٹ ڈائریکٹر محمد اطہر اور میرے معاون محمد طفیل نے اس منصوبے کو خواب سے تعبیر کی شکل دینے کے لیے سخت محنت کی اور ایک ٹیم کی طرح کام کیا۔ اس منصوبے کی افادیت اور اس میں میری خصوصی دلچسپی کی وجہ سے فنانس ڈپارٹمنٹ نے کبھی فنڈز کی دستیابی کا مسئلہ پیدا نہیں ہونے دیا۔ شہر کے لیے بنائے جانے والے اس بے حد مفید منصوبے کو شیڈول کے مطابق 31 مئی 2005ء تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے آخری ہفتوں میں یہ منصوبہ کچھ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ ہمارے یہاں ایک عجیب سیاسی کلچر رائج ہے کہ نئی حکومتیں سابقہ حکومتوں کے منصوبوں کو جان بوجھ کر دیر سے مکمل کرواتی ہیں تاکہ ایسے منصوبوں کا کریڈٹ لے سکیں۔ بعض اوقات تو پرانی حکومتوں کے شروع کردہ منصوبوں کو بغیر کسی معقول وجہ کے ختم بھی کردیا جاتا ہے اور عوام کے ٹیکس کے کروڑوں روپے منفی سیاست کی نذر ہوجاتے ہیں۔ بہرحال 9 نومبر 2006ء کو اس منصوبے کا باقاعدہ افتتاح گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے کردیا۔ بلوچستان سے آنے والی تمام بسوں کے لیے اس ٹرمینل کی تعمیر سے بہت سہولت ہوگئی۔
کے ڈی اے نے 1995ء میں سپر ہائی وے پر گلشن معمار سے پہلے دیہہ بٹی امری میں انٹرسٹی بس ٹرمینل کے لیے 45 ایکڑ اراضی مختص کی تھی۔ اس اراضی کے بڑے حصے پر طویل عرصے سے لینڈ مافیا نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ کراچی میں سرکاری زمینوں پر مختلف قسم کی سیاسی و غیر سیاسی مافیاؤں کا قبضہ بہت ہی منظم کام ہے اور برس ہا برس سے جاری ہے۔ یہ قبضہ پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کے کرپٹ افسران اور نام نہاد سیاسی لیڈروں کی ملی بھگت سے ہوتا ہے، کیونکہ زمینوں پر قبضے کے نتیجے میں اربوں کھربوں روپے کمائے جاتے ہیں، اس لیے اس گھناؤنے کام کا روکا جانا آسان کام نہیں ہے۔ ایک بار قبضہ ہوجائے تو معاملات آخرکار عدالتوں تک جا پہنچتے ہیں جہاں مقدمات کچھوے کی رفتار سے چلتے ہیں اور اکثر اوقات سرکاری وکیلوں اور تفتیشی افسران کی ملی بھگت کی وجہ سے فیصلے ناجائز قابضین کے حق میں ہی ہوجاتے ہیں۔
نہایت تگ و دو کے بعد پولیس اور رینجرز کے آپریشن کے ذریعے 20 ایکڑ زمین واگزار کروائی گئی۔ بجٹ مختص کرکے اور منصوبہ بندی مکمل کرکے منصوبے کا سنگ ِ بنیاد رکھ دیا گیا۔ اسی طرح نیشنل ہائی وے پر بس ٹرمینل کے لیے شاہ لطیف ٹائون میں ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے دفتر کے سامنے 15 ایکڑ زمین مختص کی گئی۔ 2 دسمبر 2004ء کو اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھنے کے بعد تعمیر کے لیے باقاعدہ ٹینڈر بھی جاری کروایا۔ افسوس کہ ہمارے بعد آنے والوں نے اس جانب توجہ نہیں دی۔
کشادہ سڑکوں کی تعمیر اور چورنگیوں کی ری ماڈلنگ سے جہاں ایک طرف شہریوں کو تیز رفتار ٹریفک کی سہولت ہوگئی تو دوسری طرف بہت سے مقامات پر پیدل چلنے والے افراد کے لیے سڑک عبور کرنا مسئلہ بن گیا۔ اس کے حل کے لیے شہر کی مصروف ترین شاہراہوں کے 28 مقامات پر زیبرا کراسنگ و لین پارکنگ کے ساتھ بالائی گزرگاہیں تیار کرنے کا ارادہ کیا۔ 55 سے 60 لاکھ کی لاگت سے تیار ہونے والے یہ پیڈسٹرین برج بھی BOT کی بنیاد پر بنائے جانے تھے۔ ابتدائی مرحلے میں 13 پیڈسٹرین برج تیار کیے گئے۔ اس کے علاوہ شہر میں پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی تعداد میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے پارکنگ کا مسئلہ بھی شدت اختیار کرگیا تھا۔ سروے رپورٹس بھی یہی بتارہی تھیں کہ اگر کوئی معقول بندوبست نہ کیا گیا تو صورت حال قابو سے باہر ہوجائے گی۔ اس لیے باہم مشاورت سے طے کیا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح ملٹی اسٹوری پارکنگ پلازے بنانے کا منصوبہ تیار کیا جائے۔ ابتدائی مرحلے میں تین مصروف جگہوں پر پارکنگ پلازوں کی تعمیر کا پروگرام بنایا گیا۔ اس کے لیے صدر کے مصروف علاقے ایمپریس مارکیٹ، کلفٹن اور حسن اسکوائر کا انتخاب کیا گیا۔ بعد میں صرف ایک یعنی ایمپریس مارکیٹ والا پارکنگ پلازہ تعمیر کیا گیا، لیکن نامناسب انداز کے انتظامات کی وجہ سے لوگ استفادہ نہیں کرپا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے روڈ سیفٹی ایجوکیشن کا پروگرام بھی بنایا گیا۔ اس منصوبے کے تحت ایک مربوط پلان تیار کیا گیا، جس میں ڈرائیوروں اور عام شہریوں کو ٹریفک اصولوں کی پابندی کی تربیت اور بچوں کو روڈ سیفٹی کی تعلیم دینے کے لیے روڈ سیفٹی ایجوکیشنل یونٹ کا قیام شامل تھا۔ اس یونٹ کے ذمہ داران شہر کے مختلف اسکولوں میں جاکر بچوں کو لیکچر اور ویڈیو فلمز کی مدد سے روڈ سیفٹی کے اصولوں سے آگاہ کرتے تھے۔ اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنے والے مسافروں کے ساتھ ڈرائیورز اور کنڈیکٹرز کے خراب رویوں کو بدلنے کے لیے سائٹ کے علاقے میں واقع گزشتہ کئی برسوں سے بند کے ٹی سی کے ڈرائیورز ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کو دوبارہ فعال کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ میری نظامت مکمل ہونے کے بعد یہ منصوبہ بھی سردخانے کی نذر ہوگیا۔