خدمت ، صرف رضائے الہٰی کے حصول کے لیے
کراچی کے ضلع غربی میں واقع اورنگی ٹاؤن ملک کی سب سے بڑی کچی آبادی ہے۔ اس علاقے میں تھوڑی بہت آبادی تو 1960ء کی دہائی سے تھی، لیکن اس آبادی میں غیر معمولی اضافہ اُس وقت ہوا جب 1971ء میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد مہاجرین لُٹ پِٹ کر کراچی پہنچے اور صوبائی حکومت نے انہیں بسانے کے لیے اورنگی ٹاؤن میں رہائشی انتظامات کیے۔
جماعت اسلامی نے مہاجرین کی آباد کاری کے لیے ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا۔ کراچی میں آباد دہلی پنجابی سوداگران، چنیوٹ اور میمن برادری سمیت ہر طبقۂ فکر کے لوگوں نے غیر معمولی انفاق کا ثبوت دیا اور انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کردی۔ مہاجرین کی اکثریت خالی ہاتھ آئی تھی لیکن پڑھے لکھے اور بے حد خود دار لوگ تھے۔ فاقے کر لیتے لیکن ہاتھ پھیلانے اور کسی سے کچھ مانگنے سے گریز کرتے۔
اُس زمانے میں وہاں نہ پانی کی سہولت تھی، نہ بجلی اور گیس کی، اور نہ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی۔ علاقہ نیا نیا آباد ہو رہا تھا، اس لیے اسکول، ہسپتال وغیرہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
پروفیسر غفور احمد، منورحسن صاحب کو لے کر فجر کے وقت اپنی گاڑی میں اورنگی ٹاؤن جاتے۔ خاموشی سے کچھ مستحق لوگوں کی مالی مدد کرتے اور سیکٹر ساڑھے گیارہ میں جماعت کے تحت تعمیر کیے جانے والے کئی سو مکانات کا جائزہ بھی لیتے تھے۔ عثمان رمز، ڈاکٹر مبین اختر، ڈاکٹر اطہر قریشی ، اشرف اعوان، حکیم عزیر بیگ قاسمی اور نثار احمد صاحب سمیت سینکڑوں لوگ تھے جو اورنگی ٹاؤن میں بسنے والے مہاجرین کی خدمت کے لیے ہمہ وقت مصروف رہتے۔ مجھے بھی ان لوگوں کے ساتھ مہاجرین کی خدمت کی سعادت حاصل ہو رہی تھی۔ جماعت اسلامی کا شعبۂ خدمت ِخلق نہایت منظم انداز میں مہاجرین کی بلا تفریق خدمت کررہا تھا اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق لوگوں کی عزت ِنفس کو ٹھیس پہنچائے بغیر ان کی ہر ممکن مدد کی جارہی تھی۔
انہی دنوں میں جماعت اسلامی کراچی نے اورنگی ٹاؤن کے سیکٹر پانچ میں ایک رفاہی ہسپتال کے لیے کے ڈی اے سے پلاٹ حاصل کیا۔ پلاٹ کا رقبہ دو ایکڑ سے زیادہ تھا۔ بعد ازاں اس کے کچھ حصے پر قبضہ ہوگیا اور اس سے متصل پلاٹ عدالت کے حکم پر جماعت کو بمشکل مل پایا۔
الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کا قیام
1975ءمیں اس پلاٹ پر 100 بستروں کے ہسپتال کے قیام کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ کراچی میں صحت کے شعبے میں جماعت اسلامی کا سب سے بڑا منصوبہ تھا۔ اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کے نام سے ایک ادارہ رجسٹرڈ کروایا گیا۔
الخدمت کو سوسائٹیز ایکٹ XXI,1860 کے تحت 27 جولائی 1976ء کو رجسٹرڈ کروایا گیا۔
اس کے عہدیداران کے نام درج ذیل ہیں:
1- پروفیسر سرجن نورالٰہی ۔صدر
2- نعمت اللہ خان۔ نائب صدر
3- ڈاکٹر افتخار احمد ۔جنرل سیکریٹری
4- ڈاکٹر عبدالمجید ۔خازن
5- ڈاکٹر اقبال غیور ۔جوائنٹ سیکریٹری
6- عبدالرحمٰن چھاپرا ۔رکن
7- فضل مبین احمد ۔رکن
8- ڈاکٹر محمد اطہر قریشی ۔رکن
9- افتخار احمد ۔رکن
10- حکیم محمد اقبال حسین ۔رکن
11- محمود احمد مدنی ۔رکن
12- محمد جنید فاروقی ۔رکن
13- ڈاکٹر قاضی محفوظ الحسنین جلیسی ۔رکن
14- محمد عثمان رمز ۔رکن
جماعت اسلامی کراچی کے ذمہ داران اور نوتشکیل شدہ الخدمت کے عہدیداران اس ہسپتال کے قیام کے لیے بہت پُرجوش تھے۔ملک کی معروف آر کی ٹیکچر کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں، جس نے ہسپتال کا نقشہ اور ماڈل بنایا۔
ڈاکٹر عبدالمجید صاحب جو کہ دوائیں بنانے والی کمپنی نبی قاسم فارما کے مالک تھے، کسی زمانے میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں لیکچرر بھی رہے تھے۔ ان کے ایک شاگرد سعودی شہری تھے جو بعد ازاں وہاں کے ڈائریکٹر ہیلتھ ہوگئے تھے۔
سعودی عرب کے فرماں روا شاہ خالد بن عبدالعزیز کی بھی خواہش تھی کہ اورنگی ٹاؤن میں مہاجرین ِمشرقی پاکستان کے لیے کوئی ہسپتال بنایا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے بات بھی ہوئی تھی اور انہوں نے کچھ رقم بھی اس مد میں ابتدائی طور پر بھجوائی تھی۔ مجوزہ ہسپتال کا نام شاہ خالد ہسپتال تجویز کیا گیا اور اس کا تعارفی بروشر بھی شائع کروایا گیا۔ پلاٹ پر قبضے اور عدالت میں مقدمے کی وجہ سے منصوبہ غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوگیا ۔
چند سال کے بعد ڈاکٹر عبدالمجید، ڈاکٹر اقبال غیور اور مجھے اس منصوبے کی مالی معاونت کے حصول کی غرض سے سعودی عرب بھیجا گیا، لیکن اس وقت شاہ خالد وفات پاچکے تھے اور ڈاکٹر مجید کے شاگرد ڈائریکٹر ہیلتھ کے عہدے پر نہیں رہے تھے۔ وفد کو خالی ہاتھ واپس آنا پڑا۔ 1979ء کے بلدیاتی انتخابات اور عبدالستار افغانی صاحب کے کراچی کا میئر منتخب ہوجانے کے بعد جماعت اسلامی کراچی کے ذمہ داران شہر کے بلدیاتی سسٹم کو چلانے میں اتنے مصروف ہوئے کہ ہسپتال کے منصوبے سے توجہ ہٹ گئی۔
الخدمت ہسپتال اورنگی ٹاؤن
90 کی دہائی میں عبدالرشید بیگ صاحب نے اس پلاٹ پر ایک مدرسے کے قیام کا منصوبہ پیش کیا اور نظم کی منظوری کے بعد عمارت کا نقشہ بھی بنوالیا، لیکن پھر ایک نئی پیش رفت سامنے آگئی۔ ڈاکٹر فیاض عالم نے جو اُس زمانے میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (PIMA) میں بہت فعال تھے اور اس کی مرکزی شوریٰ کے رکن تھے، 1992ء میں اس پلاٹ پر پیما کے تعاون سے اسپیشلسٹ کلینک اور ڈائیگنوسٹک سینٹر کے قیام کی تجویز پیش کردی۔
الخدمت کراچی کے جنرل سیکریٹری اسامہ مراد صاحب تھے، انہوں نے ڈاکٹر فیاض اور ڈاکٹر اورنگزیب کو جو خود بھی اورنگی میں رہا کرتے تھے اور ضلع غربی کے نائب قیم تھے، بتایا کہ الخدمت کراچی ہسپتال کے قیام میں دلچسپی نہیں رکھتی لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ ہم یہ پلاٹ ضلع غربی کے حوالے کردیں اور آپ لوگ ان کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر کام کرلیں۔ ڈاکٹر فیاض نے اس منصوبے کو اپنے سر پر سوار کرلیا تھا اور وہ ہر قیمت پر اس منصوبے پر عمل درآمد ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ بالآ خر میں نے ضلع غربی کے امیر اشرف اعوان سے بات کرکے ایک کمیٹی بنادی اور ڈاکٹر فیاض کو اس منصوبے کا پراجیکٹ سیکریٹری مقرر کردیا گیا۔
کمیٹی کے اراکین کے نام درج ذیل ہیں
سرپرست : اشرف اعوان
پراجیکٹ سیکریٹری : ڈاکٹر فیاض عالم
اراکین : مظفر احمد ہاشمی، اخلاق احمد، ڈاکٹر سید احسان اللہ، ڈاکٹر ذکی الدین صابری، عبدالغفار عمر، ڈاکٹر تبسم جعفری
میں نے یہ بات صاف طور پر بتادی تھی کہ ہسپتال کے لیے الخدمت کراچی کوئی رقم نہیں دے گی اور کمیٹی کو خود ہی عطیات جمع کرنا ہوں گے۔ ویسے بھی اُس زمانے میں الخدمت کراچی کے سالانہ بجٹ کا زیادہ تر انحصار چرمِ قربانی کی مہم پر ہوا کرتا تھا اور الطاف حسین کی پُرتشدد سیاست نے قربانی کی کھالیں جمع کرنا بھی مشکل بنا دیا تھا۔ طاقت کے زور پر لوگوں سے کھالیں حاصل کرنا، بلکہ جمع کرنے والے دیگر گروہوں سے کھالیں چھین لینا بھی عام سی بات تھی۔ دینی مدارس اور ایدھی ٹرسٹ جیسے اداروں کو اس چھینا جھپٹی سے بہت نقصان پہنچا تھا۔ چرم قربانی کی مد سے الخدمت کے کئی منصوبوں کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔
اس پلاٹ کے ایک کونے پر جماعت اسلامی کا ضلعی دفتر بنا ہوا تھا جس کے ایک کمرے میں الخدمت کی کلینک بھی قائم تھی۔ یہ کلینک 1991ء میں ہنگامی طور پر قائم کی گئی تھی کیونکہ یہ اطلاع ملی تھی کہ مہاجر قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی سلیم شہزاد اس پلاٹ کے کونے پر قائم دفتر ضلع کی عمارت کو سرکاری اداروں کی مدد سے مسمار کروانا چاہتے ہیں اور یہ ایشو اٹھا رہے ہیں کہ جماعت اسلامی نے رفاہی پلاٹ پر ہسپتال کے بجائے دفتر بنایا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی ضلع غربی کے نظم اور کارکنوں نے اس پلاٹ پر قبضے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا۔
ڈاکٹر اورنگزیب نے اس کلینک کا آغاز کیا۔ بعد ازاں الخدمت نے اس پلاٹ پر میت گاڑی کا بکنگ آفس بھی بنالیا۔ ہسپتال کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر ذکی الدین صابری کا تعلق امراضِ چشم کے شعبے سے تھا۔ انہوں نے اسی کلینک میں ہفتے میں ایک دن امراضِ چشم کی مفت کلینک شروع کردی۔
ہسپتال کا نام تبدیل کرکے الخدمت ہسپتال کردیا گیا اور پہلے فیز کا نقشہ بنوالیا گیا۔ اس مرحلے پر ناظم آباد کے رکن جماعت انجینئر تسنیم قاضی نے بہت تعاون کیا۔ نارتھ ناظم آباد زون کے امیرانصار رضی کے بہنوئی مجید احمد عباسی نے اس منصوبے کے لیے ایک خطیر رقم کا عطیہ دے دیا، جبکہ پیما کراچی کے صدر ڈاکٹر احسان اللہ، پاکستان بزنس فورم کے میاں تنویر احمد مگوں، سعید اسماعیل، ملک نعیم، لیاقت عبداللہ اور محمد عارف نے بھی نہ صرف خود تعاون کیا بلکہ دوسروں سے بھی عطیات جمع کیے۔ جنرل ریٹائرڈ محمد عمر کے ایک صاحبزادے منیر کمال اُس زمانے میں فیصل بینک کے کنٹری ہیڈ تھے، انہوں نے بھی ہسپتال کی تعمیر میں معاونت کی۔ شمس الدین خالد ایڈووکیٹ نے مسلم ایڈ کے ٹرسٹی اور اپنے دیرینہ دوست سید تنظیم واسطی سے بات کی اور مسلم ایڈ نے 1994ء میں ہسپتال کے شعبۂ امراضِ چشم کے لیے کئی لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔
تنظیم واسطی سید منورحسن اور مظفر ہاشمی کے بھی قریبی دوست تھے، اور برطانیہ کے مسلمانوں کی معروف تنظیم یو کے اسلامک مشن کے بھی بانیوں میں سے تھے۔ واسطی صاحب طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم تھے لیکن سال میں ایک دو بار کراچی آیا کرتے اور ادارئہ نورِ حق آ کر ملاقات ضرور کرتے تھے۔ مسلم ایڈ آگے چل کر الخدمت کی ایک بہترین پارٹنر آرگنائزیشن بن گئی اور بہت سارے منصوبوں میں گراں قدر تعاون کیا۔
جماعت اسلامی حلقۂ خواتین نے اس منصوبے میں خصوصی دلچسپی لی اور بڑے پیمانے پر عطیات جمع کرنے کی مہم چلائی۔ ہسپتال کی نئی عمارت کا تعمیراتی کام زور شور سے شروع کردیا گیا۔
7 تا 9 دسمبر 1994ء کو الخدمت ہسپتال اورنگی میں ایک تین روزہ آئی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ اب تو مفت آئی کیمپ کی روایت بہت مستحکم ہوچکی ہے لیکن اُس زمانے میں الخدمت کے لیے یہ نئی سرگرمی تھی۔ یہ الخدمت کراچی کا پہلا آئی کیمپ تھا جس میں موتیا، کالاپانی اور بھینگے پن کے آپریشن بھی کیے گئے تھے اور موتیا کے مریضوں کو لینس بھی لگائے گئے تھے۔ یہ کیمپ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن اور سوسائٹی فار دی پریوینشن اینڈ کیور آف بلائنڈنیس کے تعاون سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس کیمپ کے روحِ رواں ڈاکٹر شاہنواز منعمی اور ڈاکٹر ذکی الدین صابری تھے۔
1996ءمیں الخدمت ہسپتال اورنگی ٹاؤن میں ایک نئی پیش رفت ہوئی۔ ہسپتال میں امراضِ نسواں کا شعبہ قائم کردیا گیا۔ ڈاکٹر فیاض کی اہلیہ ڈاکٹر صدیقہ نے زچہ و بچہ کی کلینک کا آغاز کردیا۔ ڈاکٹر صدیقہ کے والد فضل اللہ حسینی ضلع وسطی کے رکن جماعت تھے۔ اس سے قبل کراچی الخدمت کے کسی ادارے میں گائنی کی کلینک نہیں تھی اور نہ ہی کسی خاتون نے الخدمت کے کسی شعبے میں کام کیا تھا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد خواتین کا رجوع بہت بڑھ گیا۔