پاکستان اسلامک فرنٹ – نئی سوچ کا عنوان تھا
کراچی جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری سنبھالے دو سال ہی گزرے تھے کہ ملک کی سیاسی فضا میں بھونچال آگیا۔ صدرِ مملکت غلام اسحٰق خان نے آئین کی شق 58-2Bکا استعمال کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت کو برطرف کردیا۔
یکم مئی 1993ء کا دن تھا کہ مجھے کسی نے فون پر اطلاع دی ”خان صاحب! عظیم احمد طارق کو قتل کردیا گیا۔ انا لله وانا اليہ راجعون“
میں نے پوچھا کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ اطلاع دینے والے نے بتایا کہ دستگیر میں، شاید ان کے سسرال میں۔ یہ سمجھنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں تھا کہ یہ ’’ اپنوں‘‘ ہی کی کارروائی تھی۔ وہ علاقہ مہاجر قومی موومنٹ کے مرکز 90 سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع تھا اور الطاف حسین کی پارٹی کا بے حد مضبوط گڑھ تھا۔ ممکن ہی نہیں تھا کہ باہر کا کوئی فرد اس علاقے میں جاکر پارٹی کے چیئرمین کو گھر میں گھس کرقتل کرسکے۔ یہ بات واضح تھی کہ الطاف حسین اور ان کے حواری ،آفاق احمد اور عامر خان کی طرح عظیم طارق کو بھی غداروں کی فہرست میں شامل کرچکے تھے۔
عظیم طارق مہاجر قومی موومنٹ کے معتدل مزاج رہنماؤں میں شامل تھے اور قتل و غارت، بھتہ خوری، اور ٹارچر سیل والی سیاست کی دبے لفظوں میں مخالفت کرتے تھے، لیکن یہ سوچ الطاف حسین اور پارٹی کے ہارڈ لائنرز کے لیے ناقابل برداشت تھی، جو صرف طاقت کی زبان بولتے اور امن و امان کو ناپسند کرتے تھے۔
مجھے جب کبھی موقع ملا ان کے بزرگوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ کراچی کے نوجوانوں کو اسلحہ سے دور رکھیں۔ ان کے ہاتھوں سے کتاب نہ چھینیں اور پستول نہ تھمائیں۔ ان کی منطق عجیب ہوا کرتی تھی۔ وہ کہتے کہ قبائلی علاقوں میں ہر گھر میں بڑی بڑی بندوقیں ہوتی ہیں، آپ لوگ ان پر اعتراض کیوں نہیں کرتے؟
مجھے ان لوگوں کی اس سوچ پر حیرت ہوتی تھی۔ کراچی کو قبائلی علاقوں سے ملانا کہاں کی تُک تھی؟ ہر علاقے اور معاشرے کا الگ کلچر ہوتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں لوگوں کے درمیان دشمنیاں ہوتی ہیں جو بعض اوقات نسل در نسل چلتی ہیں اور بے گناہوں کا خون بہتا ہے۔ یہ لوگ کراچی کو بھی خوں رنگ دیکھنا چاہتے تھے۔ میں ان سے کہتا تھا کہ یہ اسلحہ ایک دن خود انہی کے خلاف استعمال ہونے لگے گا۔ اور ہم سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ الطاف حسین کی پارٹی نے نہ صرف سیاسی مخالفین کو قتل کیا، عام لوگوں کی جانیں لیں بلکہ اپنے ہی بانی ارکان اور لیڈروں کو بھی نہیں بخشا۔ اس لحاظ سے الطاف حسین کی پارٹی نے بے حد سفاکانہ روایات ڈالیں، جن کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
نواز شریف حکومت کی برطرفی کے بعد جو کچھ بھی ہوا، اب تاریخ کا ایک ناخوشگوار باب ہے اور اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ نوازشریف کی حکومت بھی گئی اور غلام اسحٰق خان کی صدارت بھی۔ چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالا جبکہ امریکہ سے آئے ہوئے عالمی بینک کے سابق ملازم معین قریشی نگراں وزیراعظم بنادیئے گئے۔ خراب شہرت کے آدمی نہیں تھے۔ وہ ایک مہمان کی طرح آئے اور الیکشن کے بعد رخصت ہوگئے۔ یہ کیسی عجیب بات تھی کہ بیس کروڑ آبادی کے ملک میں تین ماہ کے نگراں وزیراعظم کے لیے بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ملک کے اندر کوئی موزوں فرد نہیں مل سکا۔ یا یہ کہ دونوں بڑی پارٹیاں کسی مقامی فرد پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے فیصلہ کیا کہ عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی جائے کہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں اپنے خصائل کے اعتبار سے ایک ہی جیسی ہیں اور چھوٹی یا بڑی برائی کا فلسفہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ عوام کے سامنے ایک تیسری اور متبادل سیاسی قوت کا آپشن پیش کیا جائے۔ خرم مراد صاحب اس حوالے سے بہت پُرجوش اور پُرامید تھے۔
پاکستان اسلامک فرنٹ
جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے قوم کے سامنے پاکستان اسلامک فرنٹ کا منشور پیش کیا اور ملک بھر میں اچھی شہرت کے حامل مؤثر لوگوں کو اس پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ جماعت اسلامی کی نوجوانوں کی تنظیم پاسبان اُس زمانے میں بہت منظم انداز میں کام کررہی تھی اور اس نے ملک کے بڑے شہروں میں ہزاروں نوجوانوں کو جمع کرلیا تھا۔ ظلم کے خلاف پاسبان کا نعرہ عام آدمی کو بہت اپیل کرتا تھا۔ کراچی میں الطاف شکور، عثمان معظم، مسعود محمود، الطاف آگریا، ڈاکٹر ظفر اقبال جیسے لوگ اس کی قیادت کررہے تھے۔
1993ء کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوا تو جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا جسے انتخابی نشان کار الاٹ ہوا۔ قاضی حسین احمد کی ولولہ انگیز قیادت میں ملک بھر میں بے حد جوش و خروش سے انتخابی مہم چلائی گئی۔ راشد نسیم کراچی جماعت کے قیم یعنی جنرل سیکریٹری تھے۔ انہوں نے اس پوری مہم کو شہر میں بہت ہی سائنٹفک اور جدید انداز میں منظم کیا۔ الیکشن سے قبل ایسا ماحول بن گیا کہ ہمارے کئی امیدواروں کی جیت سامنے نظر آنے لگی تھی۔
قاضی حسین احمد نے اپنے آبائی حلقے نوشہرہ کے ساتھ ساتھ کراچی سے بھی قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ مہاجر قومی موومنٹ نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا لیکن صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا۔ لوگ سمجھ گئے کہ اسٹیبلشمنٹ سے اندرون خانہ کوئی ڈیل ہوگئی ہے۔
زبردست انتخابی مہم کا نتیجہ بہت ہی مایوس کن نکلا۔ پورے ملک سے اسلامک فرنٹ کے صرف تین امیدوار رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوسکے۔ ہم لوگوں کو یہ باور کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں سے کوئی چھوٹی یا بڑی برائی نہیں ہے۔ اور ملک کو کسی متبادل سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔
کراچی سے قاضی حسین احمد، سید منور حسن، عبدالستار افغانی اور خود مجھے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ مظفر احمد ہاشمی کو بہت تھوڑے ووٹوں کے مارجن سے فتح نصیب ہوئی اور وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ قاضی حسین احمد صاحب کو حلیم صدیقی نے شکست دی جو کہ میدانِ سیاست میں نوارد تھے۔ میرے مقابلے میں مسلم لیگ نواز کے دوست محمد فیضی کامیاب ہوئے۔ ان کے حصے میں 17058 ووٹ آئے جبکہ مجھے 10344 ووٹ ملے۔ میں نے نتیجہ آنے کے بعد دوست محمد فیضی سے ملاقات کی اور انہیں مبارک باد دی۔ شہر میں ووٹنگ کا تناسب بہت کم رہا کیونکہ مہاجر قومی موومنٹ نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا، اور بہرحال شہر کے اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد پتنگ پر مہر لگانا چاہتی تھی جیسا کہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن والے روز ہوا اور 1988ء اور 1990ء کی تاریخ دہرائی گئی۔
الیکشن میں شکست کا ملبہ پاسبان پر گرا دیا گیا اور جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے پاسبان کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ مجھ سمیت کئی اراکینِ شوریٰ اس فیصلے پر مضطرب تھے، لیکن اجتماعیت کے فیصلے پر سرِتسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
پاسبان کا خاتمہ اور شبابِ ملی کا قیام
پاسبان کے خاتمے کے بعد جماعت اسلامی کی مرکزی شوریٰ نے نوجوانوں میں کام کے لیے شباب ملی کے نام سے تنظیم قائم کی۔ اس کے پہلے مرکزی صدر شبیر احمد خان اور جنرل سیکریٹری حافظ سلمان بٹ تھے۔ کراچی میں ہم نے سید محمد بلال کو صدر مقرر کیا۔ ان کے بعد شاہد شیخ اور ان کے بعد ڈاکٹر پرویز محمود کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ پرویز محمود نے لیاقت آباد ٹاؤن کے ناظم کا الیکشن لڑنے تک اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا۔
اس الیکشن کے بعد سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جماعت کے کچھ ذمہ داران نے تحریک ِ اسلامی کے نام سے ایک دھڑا بنالیا۔ ان ذمہ داران میں ہمارے بہت ہی سینئر اور پکے نظریاتی لوگ بھی شامل تھے۔ کراچی سے جلیل خان صاحب اور ڈاکٹر اطہر قریشی بھی ان لوگوں کے ساتھ ہوگئے۔
مولانا مودودیؒ کی تربیت اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلقِ قلبی کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی ان رفقا کے ادب و احترام میں فرق نہیں آیا۔ ہم سب جانتے تھے کہ اختلاف سوچ اور حکمت عملی کا ہے، اقامتِ دین کے نظریے پر مکمل یکسوئی ہے اور کوئی بدنیتی یا دنیوی مفاد بھی کسی کے پیش نظر نہیں ہے۔
الیکشن میں عبدالستار افغانی حلقہ این اے 185 سے ہمارے امیدوار تھے۔ دو بار میئر کراچی رہ چکے تھے اور اورنگی ٹاؤن کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے محمد آفاق خان شاہد اور مسلم لیگ نواز کے الحاج شمیم الدین امیدوار تھے۔
ہمیں توقع تھی کہ افغانی صاحب آسانی سے یہ مقابلہ جیت جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور افغانی صاحب کو 7796 ووٹ ملے۔ وہ تیسرے نمبر پر آئے۔ جبکہ آفاق خان شاہد نے 14866 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی۔ اس حلقے سے ماضی میں مہاجر قومی موومنٹ کے سلیم شہزاد نے 80 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔
دیہی آبادیوں میں دعوتی کام
افغانی صاحب کی شکست کا جائزہ لیا گیا تو پتا چلا کہ اورنگی ٹاؤن کے اکثر حلقوں سے وہ جیت گئے تھے لیکن قومی اسمبلی کے اس حلقے میں دیہی آبادی کے ووٹ بھی شامل تھے جہاں بلوچی، بروہی اور سندھی بولنے والے لوگوں کی اکثریت تھی۔ یہ کراچی کے قدیم گوٹھ تھے جن میں بنیادی سہولتوں کی بہت کمی بھی تھی اور خواندگی کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔ سچ یہ ہے کہ ان علاقوں کی طرف جماعت اسلامی نے بھی کبھی توجہ نہیں دی تھی، اور بعد ازاں وہاں جاکر اندازہ ہوا کہ اکثر لوگ پیپلز پارٹی کے سوا کسی دوسری سیاسی جماعت کا نام تک نہیں جانتے تھے۔
جماعت اسلامی ضلع غربی کے امیر اشرف اعوان نے دیہی آبادی کے نام سے ایک نیا تنظیمی علاقہ بنایا اور عبدالرحیم مروت کو اس کا ناظم مقرر کیا۔ عبدالرحیم مروت نے پیما کی مدد سے ان گوٹھوں میں ہفتہ وار میڈیکل کیمپس کا انعقاد شروع کیا، جبکہ نظمِ خواتین نے بھی ان گوٹھوں میں جانا شروع کیا اور خواتین کی قرآن کلاسوں کا آغاز کیا۔
کچھ عرصے کے بعد کچھ گوٹھوں میں اسکول قائم کیے گئے جنہیں بعد ازاں گرین کریسنٹ ٹرسٹ نے اپنے زیر انتظام لے لیا اور ان اسکولوں کو ہلال پبلک اسکولز کا نام دے دیا گیا۔
عبدالرحیم مروت نے ان تمام گوٹھوں میں بے حد محنت سے کام کیا اور اگلے چند سال میں کئی افراد کو رکن بھی بنالیا۔ کراچی جماعت اسلامی کے نائب امیر افتخار احمد نے میری ہدایت پر ان گوٹھوں کا تفصیلی دورہ کیا اور سفارش کی کہ حلقہ کراچی اپنے بجٹ میں دیہی آبادی میں دعوتی کام کے لیے بجٹ مختص کرے۔ 1993ء کی انتخابی شکست کے بعد ضلع غربی کے گوٹھوں میں جماعت کے دعوتی کام کا آغاز ہونا، بجائے خود اس بات کا ثبوت تھا کہ کسی معرکے میں ہونے والی شکست تحریکِ اسلامی کے وابستگان کا حوصلہ پست نہیں کرسکتی۔
اہلیہ کا انتقالِ پرملال
شریکِ حیات طاہرہ کئی سال سے ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھیں۔ نہایت بلند حوصلہ اور صابر شاکر خاتون تھیں، بیماری کی تکالیف کا زبان سے اظہار نہیں کرتی تھیں۔ عبادات اور گھریلو معاملات میں کوئی فرق پیدا نہیں ہونے دیتی تھیں۔ کبھی شکوہ نہیں کرتی تھیں کہ میں اپنی سیاسی مصروفیات کی وجہ سے گھر کو کم وقت دے پاتا ہوں۔ یہ شکوہ ضرور کرتی تھیں کہ آپ وقت پر دوائیں نہیں کھا پاتے۔ میں بھی ان امراض میں طویل عرصے سے مبتلا تھا۔ اللہ نے ہمیں فرماں بردار بیٹے بیٹیوں سے نوازا تھا جو ہم دونوں پر جان چھڑکتے تھے۔ وہ اولاد پر سختی کرنے کی قائل نہیں تھیں لیکن نماز کے معاملے میں رعایت نہیں دیا کرتی تھیں۔
26 فروری 1994ء کو مہلتِ عمل ختم ہوگئی اور ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کے بعد پہلی مرتبہ کسی نے مجھے پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دیکھا تھا۔ شریکِ حیات سے 34 سالہ رفاقت کا اچانک خاتمہ نہ آنکھوں کو برداشت تھا اور نہ ہی دل و دماغ کے لیے قابلِ قبول۔ لیکن اللہ کی رضا پر راضی ہونے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔
إنا لله وإنا إليه راجعون
محمد صلاح الدین کی شہادت
90ءکی دہائی کا کراچی امن و امان کے لحاظ سے دنیا کے بدترین شہروں میں شامل تھا۔ الطاف حسین کے فسطائی گروہ کا شہر پر مکمل کنٹرول تھا۔ جرم اور سیاست ایک ہوچکے تھے۔ کسی بھی طبقے کے لوگ محفوظ نہیں تھے۔ 4 دسمبر 1994ء کو ملک کے معروف صحافی مدیر تکبیر محمد صلاح الدین کو دہشت گردوں نے گولیاں مار کر شہید کردیا۔ صلاح الدین صاحب کا شمار ملک کے صف ِ اوّل کے صحافیوں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک بہادر، بے باک اور نظریاتی صحافی تھے۔ ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آئے تھے اور ساری زندگی جدوجہد کرکے بہت محنت سے صحافت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا۔ وہ طویل عرصے تک جماعت اسلامی کراچی کے روزنامہ جسارت کے بھی مدیر رہے تھے اور اس کے بعد ہفت روزہ تکبیر جاری کیا تھا۔ انہوں نے الطاف حسین اور ان کی پارٹی کے طرزِ سیاست کے خلاف ہمیشہ کھل کر لکھا، اور اس کی سزا کے طور پر گلبہار میں واقع ان کے گھر اور تکبیر کے دفتر کو بھی نذرِ آتش کیا گیا لیکن صلاح الدین صاحب کے قلم کو پابند نہیں کیا جاسکا۔
1995ءمیں جماعت اسلامی سندھ کے امیر مولانا جان محمد عباسی نے مجھے بطور نائب امیر اپنے نظم میں شامل کرلیا۔ عباسی صاحب شاندار انسان تھے۔ بردباری، تحمل، خوش اخلاقی اور شائستگی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ وہ بے حد نرم خو انسان تھے اور کسی پر حکم چلانے کے قائل نہیں تھے۔ سندھ میں ہر طبقۂ فکر کے لوگوں سے ان کے بہت اچھے مراسم تھے اور وڈیرے، سردار اور گدی نشین بھی ان کی تکریم کرتے تھے۔
انہوں نے مجھے ضلع ٹھٹہ، میرپورخاص، عمر کوٹ اور تھرپارکر کی نگرانی سونپ دی اور فرمایا کہ آپ خدمتِ خلق کے میدان میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں لیکن تنظیمی دوروں کے بغیر چھوٹے شہروں اورقصبوں میں دعوتی کام کو مستحکم نہیں کیا جاسکتا، گو صوبائی جماعت کے پاس مالی وسائل کی کمی ہے اور سفر کے لیے اچھی گاڑیاں بھی نہیں ہیں لیکن میری خواہش ہے کہ آپ ان اضلاع کے تنظیمی دورے باقاعدگی سے کیا کریں۔
اُس زمانے میں کراچی کے مخصوص حالات کی وجہ سے جماعت کے سبھی ذمہ داران کی مصروفیات بہت زیادہ ہوا کرتی تھیں۔ سندھ کے اضلاع کے دوروں کی مصروفیت کا اضافہ ہوا تو میری طبیعت پر اس کا برا اثر ہوا اور پرانی بیماریوں نے تکلیف دینا شروع کردی۔
معروف ماہر امراضِ قلب پروفیسر اظہر فاروقی میرے معالج تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آرام نہیں کریں گے تو بستر سے لگ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل رہا کہ زندگی میں بستر سے لگنے اور سرگرمیوں کو محدود کرنے کی نوبت بہت کم ہی آئی۔