خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبوی میں حلف کا اعزاز
ستّر کی دہائی میں ملک میں اسلام اور سوشلزم کی نظریاتی کشمکش عروج پر تھی۔ اشتراکی قوتوں نے اپنی طاقت کے اظہار کے لیے پورے ملک میں 19 اپریل 1970ء کو ہڑتال کا اعلان کیا۔ ہڑتال کے پروگرام سے پہلے جماعت اسلامی نے قوم سے اپیل کی کہ 19 اپریل کی ہڑتال سے لاتعلقی رکھی جائے اور اسے کامیاب نہ ہونے دیا جائے تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے اور یہاں سوشلزم سمیت کوئی دوسرا ازم کامیاب نہیں ہوسکتا۔
مولانا مودودیؒ کی اس اپیل کا خاطر خواہ اثر ہوا اور 19 اپریل کی ہڑتال بری طرح ناکام ہوگئی۔ مولانا مودودیؒ نے واضح الفاظ میں اعلان کیا کہ ’’اس ملک میں اسلام کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک کو دارالاسلام بن کر رہنا ہے یا مارکس اور لینن کی امت کا ملک بن جانا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ نے تمام دینی جماعتوں اور عوام سے اپیل کی کہ وہ 31 مئی 1970 ء کو ’’یومِ شوکتِ اسلام‘‘ کے طور پر منائیں۔
31مئی پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم اور یادگار دن ثابت ہوا۔ لاہور، پشاور، کوئٹہ، ڈھاکہ، چٹاگانگ اور کراچی سمیت ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہر اور قصبے ’’پاکستان کا مطلب کیا …لا الہ الا اللہ‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھے۔ انتہائی پُر امن اور منظم جلوس نکالے گئے اور مظاہرے ہوئے۔ لاہور میں امیر جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، اکابرینِ جماعت اور دیگر دینی جماعتوں کے رہنمائوں نے بہت بڑے جلوس کی قیادت کی، جبکہ کراچی میں نائب امیر جماعت میاں طفیل محمد نے ایک عظیم الشان جلوس کی قیادت کی۔ اس دوران مشرقی پاکستان میں اس قدر شدید سیلاب آیا کہ الیکشن کو 7 دسمبر 1970ء تک ملتوی کرنا پڑا۔
جماعت نے کراچی سے قومی اسمبلی کے لیے پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، صابر حسین شرفی، سید ذاکر علی، عبدالستار افغانی اور پیر محمد کو امیدوار نامزد کیا، جبکہ مولانا ظفر احمد انصاری صاحب کی حمایت کی گئی جو آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی چودہ نشستوں پر بھی امیدوار کھڑے کیے گئے۔ ملک کے دونوں حصوں میں زبردست انتخابی مہم چلائی گئی۔ کارنر میٹنگز، جلسے، جلوس اور گھر گھر جاکر لوگوں سے رابطے کیے گئے۔ قیادت اور کارکن انتخابی مہم سے پوری طرح مطمئن تھے اور اخبارات بھی جماعت اسلامی کے امیدواروں کی ممکنہ کامیابی کی نوید سنا رہے تھے، لیکن الیکشن والے دن بیلٹ بکسوں سے جو نتائج برآمد ہوئے وہ توقع کے بالکل برخلاف تھے۔ مغربی و مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے امیدواروں میں سے پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی اور ہمارے حمایت یافتہ مولانا ظفر احمد انصاری کامیاب ہوئے، جبکہ صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست پر افتخار احمد کامیاب ہوسکے۔ مجموعی انتخابی نتائج نے عجیب صورتِ حال پیدا کر دی۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے 162 میں سے 160 نشستیں حاصل کرلیں۔ جب کہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلزپارٹی نے 138 میں سے81 نشستیں جیت لیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر مولانا مودودیؒ نے تبصرہ کیا: ”آج پاکستان کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے“۔ آنے والے حالات نے ان کی بات حرف بہ حرف سچ ثابت کر دی۔ اقتدار کی کشمکش کشیدگی میں تبدیل ہو گئی، حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ یحییٰ خان کے اللے تللے اور عیاشیاں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اس دوران کچھ اطلاعات تھیں کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے ذوالفقار علی بھٹو سے کہا ہے کہ آپ مجھے پاکستان کا وزیراعظم بننے دیں ورنہ یہ ملک تقسیم ہو جائے گا۔ اور بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا۔
مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے کچھ زیادہ تھی اور وہاں بنگالی بولنے والے مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی۔ جاگیر دار، وڈیرے، خان، سردار اور سیاسی طور پر مضبوط پیر وہاں نہ ہونے کے برابر تھے۔ عوامی لیگ سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت تھی۔ مسلم لیگ کا کردار بہت محدود ہوچکا تھا، جبکہ جماعت اسلامی صوبے کے تمام حصوں میں مضبوط تنظیمی لیکن محدود سیاسی قوت رکھتی تھی۔ عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور پاکستان کی اشرافیہ خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کے رویّے سے نالاں تھے۔
صدر یحییٰ خان نو منتخب اسمبلی کا اجلاس منعقد نہ کرواسکے، نجانے ان کی نیت کیا تھی؟شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہ تھے جبکہ بھٹو اور یحییٰ خان ان چھ نکات کو ملک کی وحدت کے خلاف سازش سمجھ رہے تھے- مارچ کے مہینے میں مشرقی پاکستان کے کئ شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور عوامی لیگ کے حامیوں نے غیر بنگالی مسلمانوں ( خاص طور پر بہاریوں) کا قتل عام شروع کردیا- بعض علاقوں میں حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے- فوج نے آپریشن شروع کردیا جس میں مبینہ طور پر شرپسندوں کے ساتھ ساتھ عوامی لیگ کے کچھ عام کارکن بھی مارے گئے۔ یحییٰ خان اور گورنر ٹکہ خان حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے میں بری طرح ناکام رہے اور جلتی پر تیل چھڑکتے رہے- دراصل مغربی پاکستان کی اشرافیہ یہ دیکھنے اور سمجھنے کی زحمت ہی نہیں کررہی تھی کہ ملک کی اکثریتی آبادی والے صوبے کے عوام کی غالب اکثریت اپنی پسندیدہ پارٹی کو اقتدار نہ ملنے پر صرف ناراض ہی نہیں ہیں بلکہ ملک سے علیحدگی کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار ہوچکے ہیں- جب عوامی لیگ نے مکتی باہنی کو ہندوستان کی مدد سے مسلح کیا، بنگلہ دیش کے قیام کا نعرہ لگادیا اور مشرقی پاکستان کے اکثر حصوں میں غیربنگالی شہریوں کی جان و مال اور املاک کو شدید خطرات لاحق ہوگئے، کئی لاکھ افراد بے دردی سے قتل کردیئے گئے اور لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی تو جماعت کی قیادت نے عوامی لیگ اور مکتی باہنی کی مخالفت اور پاکستانی فوج کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
فوج کی بنائی ہوئی رضاکار تنظیم البدر میں جمعیت کے نوجوانوں نے شمولیت اختیار کی اور ملک کو بچانے کی لڑائی میں غیر معمولی قربانیاں پیش کیں۔
مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اُسے لکھنے کا حوصلہ مجھ میں نہیں ہے۔ خون اور آنسوؤں کی اس المناک داستان کو مختلف لوگوں نے قلم بند کیا ہے، لیکن یہ ناکافی ہے اور اس کے کئی اہم پہلو اب بھی تشنہ ہیں۔
سانحہ سقوط مشرقی پاکستان
16دسمبر1971ء، سقوط بغداد کے بعد امت کی تاریخ کا سب سے سیاہ دن ہے، جب اپنوں اور غیروں کی سازشوں اور لسانی تعصب کے کامیاب وار نے ملک کو دو لخت کردیا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔ اس سانحے سے ایک دو دن قبل جنرل امیر عبداللہ نیازی عرف ٹائیگر اپنے دفتر میں کرسی سے ٹیک لگائے بڑے طمطراق سے فرما رہے تھے کہ دشمن کی فوجیں ہماری لاشوں پر سے گزر کر اس ملک میں داخل ہوں گی۔ لیکن اس کی نوبت نہیں آئی۔ چشمِ فلک نے دیکھا کہ ہماری فوج نے سرجھکا کر دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ ایسا نہیں ہے کہ مشرقی محاذ پر فوجی افسروں اور سپاہیوں نے بہادری کا مظاہرہ نہیں کیا اور جانوں کے نذرانے پیش نہیں کیے۔ اکثر مقامات پر فوج اور رضاکار بڑی بے جگری سے لڑے اور مکتی باہنی و انڈین فوج کو نقصان بھی پہنچایا، لیکن ایک مشکل محاذ پر جب عوام کی اکثریت آپ کے خلاف ہوچکی ہو، کوئی بھی فوج جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی، اور وہاں تو کسی کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ جنگ لڑنا چاہتی بھی ہے یا اہلِ بنگال کو بوجھ سمجھ کر از خود الگ کیا جارہا ہے۔
ملک کا ایک بازو کٹ گیا۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ جغرافیہ بھی بدل گیا لیکن بے حس لوگوں کو نہ شرم آئی اور نہ غیرت۔
31دسمبر کی رات کراچی اور لاہور میں طبقہ اشرافیہ کے سفاک لوگ نئے سال کی آمد کا جشن منا رہے تھے۔ کراچی کے پنج ستارہ ہوٹلوں میں شراب کے دور چل رہے تھے اور رقص و سرود کی محفلیں ان لوگوں کا غم غلط کر رہی تھیں۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاںجاتا رہا
سقوطِ ڈھاکہ کے دو دن بعد یعنی 18 دسمبر کی شام کو جنرل یحییٰ نے اپنا استعفیٰ تحریر کیا، اور امریکا میں موجود ذوالفقار علی بھٹو کو خط لکھا کہ وہ پاکستان آکر اقتدار سنبھالیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 20 دسمبر کو راولپنڈی پہنچے اور ایوانِ صدر جا کر انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔
اقتدار سنبھالتے ہی موصوف نے فوج کے کچھ جرنیلوں کی چھٹی کر دی اور کچھ کو آئوٹ آف ٹرن ترقی دی۔ مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کی قیادت کرنے والے جنرل ٹکا خان کو برّی فوج کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ 17 اپریل 1972ء کو نئے آئین کی تیاری کے لیے ایک 25 رکنی آئین ساز کمیٹی تشکیل دی۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی۔ پروفیسر غفور احمد جماعت اسلامی کی طرف سے شامل تھے۔ کمیٹی کے سربراہ وزیر برائے قانون اور پارلیمانی امور میاں محمود قصوری تھے۔ بعد میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور ان کی جگہ عبدالحفیظ پیرزادہ کو کمیٹی کا چیئرمین بنا دیا گیا۔
20اکتوبر 1972ء کو کمیٹی نے آئین کے مسودے کو حتمی شکل دے کر قومی اسمبلی کے حوالے کیا۔ 10 اپریل 1973ء کو اس کی منظوری دی گئی، جبکہ صدر کی توثیق کے بعد 14 اگست 1973ء کو اسے نافذ کردیا گیا۔
آئین کے تحت اسلام پاکستان کا سرکاری مذہب قرار پایا، جبکہ صدر اور وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا۔ اردو کو قومی زبان قرار دیا گیا اور عدلیہ کی آزادی کی ضمانت دی گئی۔ اہم ترین اور تاریخی نکتہ یہ تھا کہ عقیدئہ ختم ِنبوت کے منکرین یعنی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔
جولائی 1972 ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھی کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا بل صوبائی اسمبلی سے منظور کروا لیا۔ اس اقدام کے خلاف اردو بولنے والے افراد نے کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں میں سخت احتجاج کیا۔ دونوں طرف کے کچھ لیڈروں نے اس مسئلے کو مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے اشتعال انگیز بیانات دیے جس کی وجہ سے منافرت اور تعصب کی فضا پیدا ہوگئی اور شہری زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ شدید ہنگامے پھوٹ پڑے اور 55 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوگئے۔ سیکڑوں دکانیں لوٹ لی گئیں یا نذرِ آتش کردی گئیں۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں میں کئی کئی دن کرفیو نافذ رہا۔ لوگوں کو نقل مکانی پر بھی مجبور ہونا پڑا۔ ان لسانی فسادات کو فرو کرنے میں جماعت اسلامی نے بہت مثبت اور تعمیری کردار ادا کیا۔ جماعت کے پارلیمانی لیڈر اور رکن قومی اسمبلی پروفیسر غفور احمد کو حکومت نے لسانی مسئلہ پر مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی۔ وہ ان مذاکرات میں سمجھوتہ ہونے تک شریک رہے۔ سمجھوتے کے مطابق سندھی اور اردو دونوں زبانوں کو سندھ کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ پاکستان کے باقی ماندہ تین صوبوں پنجاب، سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں نے پہلے ہی اردو کو اپنے صوبوں کی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا، جبکہ اُس وقت بھی دفاتر، بیوروکریسی اور عدلیہ کی زبان انگریزی ہی تھی اور اگلی کئی دہائیوں تک بھی صورتِ حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ نوجوان نسل کو اس سے یہ سمجھنا چاہیے کہ تبدیلی جذباتی نعروں اور اعلانات سے نہیں آجاتی، بلکہ اس کے لیے سازگار ماحول اور حکمرانوں کی سیاسی خواہش کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارا طبقہ اشرافیہ انگریز کے جانے کے باوجود خود کو ذہنی غلامی سے آزاد نہیں کرواسکا اور آج بھی انگریزی زبان اس ملک میں ترقی کی کنجی سمجھی جاتی ہے ۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
خدمتِ خلق اور جماعتِ اسلامی کی رکنیت
مجھے بندگانِ خدا کی خدمت کا شوق لڑکپن ہی سے تھا۔ اجتماعی ماحول سے وابستگی اپنے پسندیدہ کام یعنی خدمتِ خلق کی مصروفیات انجام دینے کے لیے سازگار ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر اطہر قریشی صاحب جماعت اسلامی کے ذمہ داران میں شامل تھے۔ بے حد پُرکشش اور بااخلاق انسان تھے۔ ایک دن اُن سے کہا: آپ کے پاس شادی بیاہ اور امداد کے سلسلے میں جو درخواستیں آتی ہیں وہ مجھے دے دیا کریں۔ انکوائری کرکے سامان پہنچانے سمیت دیگر کام بھی کردیا کروں گا۔ وہ بخوشی آمادہ ہوگئے۔ اہلیہ بھی ان کاموں کی جانب مائل ہوگئیں۔ کاموں میں ہاتھ بٹانا، امدادی سامان پیک کرنا اور سلیقے سے رکھنا ازخود اپنے ذمہ لے لیا۔ ڈاکٹر اطہر قریشی نے مجھے خدمتِ خلق کا علاقائی انچارج بنادیا۔ نیو کراچی کے ایک گھرانے کی جانب سے شادی کے لیے امداد کی درخواست موصول ہوئی۔ تحقیق کے لیے ان کے گھر پہنچا تو عالم یہ تھا کہ بٹھانے کے لیے ایک جھلنگی چارپائی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ گفتگو کے دوران پتا چلا کہ اگلے دن شادی ہے اور بچی کے سر پر رکھنے کے لیے ایک دوپٹہ تک نہیں ہے۔ دل لرز کر رہ گیا۔ کچھ سامان ساتھ لے کر گئے تھے، وہ حوالے کیا۔ شادی کا جوڑا، اسٹیل اور چینی کے برتن، روزمرہ ضروریات کی کچھ چیزیں اور پانچ سو روپے نقد دے کر جب واپس لوٹ رہا تھا تو خیال آیا کہ معاشرے میں اس قدر محرومی اور غربت ہے۔ کوئی ایسا میکنزم ہونا چاہیے کہ جس سے ضرورت مند بہتر انداز میں استفادہ کریں۔ حکیم صادق صاحب امیر کراچی تھے، اُن سے اس موضوع پر تفصیلی تبادلۂ خیال ہوا، جس کے نتیجے میں انہوں نے جماعت اسلامی کراچی کے شعبۂ خدمت ِ خلق کو توسیع دینے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا اور غریبوں کو علاج کے اخراجات، بیواؤں کو راشن، طلبہ کو وظائف، فیس کے انتظام سمیت دیگر مدات بھی شامل ہو گئیں۔
مطالعۂ کتب، اجتماعات میں شرکت، اور تفویض کی گئی ذمہ داریوں کو ممکنہ حد تک بہتر انداز میں انجام دینے کی کوشش میں مصروف دیکھ کر قریبی ساتھیوں اور ذمہ داران نے خیال ظاہر کیا کہ مجھے جماعت اسلامی کا رکن بن جانا چاہیے۔ 1974 ءکا واقعہ ہے۔ پروفیسر غفور احمد امیر جماعت کراچی تھے اور رابطہ عالم اسلامی کی ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے۔ ان کی غیرموجودگی میں حکیم صادق حسین قائم مقام امیر جماعت تھے۔ میرا بھی اہلیہ کے ہمراہ حج کی ادائیگی کا ارادہ بن گیا۔ روانگی سے قبل حکیم صادق صاحب تشریف لائے اور فرمایا ”آپ رکنیت کا یہ فارم پُر کردیں“۔میں نے انہیں جواب دیا کہ ”یہ فارم حج پر اپنے ساتھ ہی لیے جاتا ہوں۔ بھر کر واپس لے آؤں گا“۔ تو کہنے لگے ”میں منور حسن (اُس وقت کراچی کے قیم یعنی جنرل سیکرٹری تھے) کے ہاتھ دو فارم آپ کو بھجوادوں گا، ایک بھر کر یہیں چھوڑ جائیے گا، دوسرا اپنے ساتھ لے جائیں۔ جب وہ واپس لے کر آئیں گے تویہ والا تلف کر دیں گے“۔ یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔ شام کو سید منور حسن گھر تشریف لائے۔ دیکھا تو ہاتھ میں ایک ہی فارم تھا، دوسرے کے متعلق پوچھا تو کہا ”مجھے تو ایک ہی دے کر بھیجا ہے“۔میں نے کہا کہ ”ٹھیک ہے یہی دے دیجیے“۔ میں وہ فارم اپنے ساتھ سعودی عرب لے گیا، لیکن کسی وجہ سے بھر نہیں سکا۔ حج کے دوران پتا چلا کہ پروفیسر غفور صاحب بھی منیٰ میں موجود ہیں۔ اگلے دن ملاقات ہوئی، کہنے لگے ”تیار ہیں؟ کل خانۂ کعبہ میں رکنیت کا حلف لوں گا“۔ حسب ِ پروگرام وہاں پہنچ تو گیا، پتا چلا کہ غفور صاحب ایک میٹنگ میں مصروف ہوگئے ہیں۔ میرے ساتھ صلاح الدین صاحب (مدیرِ جسارت) اور ایک پڑوسی موجود تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ پروفیسر صاحب نے حلف لینے کا ضرور کہا ہے لیکن اب وہ موجود نہیں ہیں تو کوئی دوسرا ذمہ دار فرد یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے۔ وہاں رحیم یار خان کے امیر جماعت موجود تھے، انہوں نے حلف لیا۔ حج کے بعد زیارت کے لیے مدینہ منورہ پہنچا تو راستے میں صفدر چودھری مل گئے۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد کہنے لگے پروفیسر غفور احمد صاحب فلاں ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے ہیں۔ پہلے تو لرزتے کانپتے روضہ رسولﷺ پر حاضری دی اور خدمت ِاقدس میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا۔ روضہ رسولﷺ پر حاضری اور مسجد ِنبوی میں نماز کی ادائیگی کے وقت جو کیفیت دل و دماغ پر طاری ہوئی اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ پروفیسر غفور احمد جس ہوٹل میں ٹھیرے ہوئے تھے وہاں جا پہنچا۔ انہیں علم نہیں تھا کہ میں حلف یافتہ ہوچکا ہوں۔ کہنے لگے ”کل مسجد ِ نبوی میں آپ کا حلف لوں گا“۔ جی میں آیا کہ بتا دوں، پھر خیال آیا کہ پروفیسر غفور صاحب جیسے عاشقِ رسولﷺ کے سامنے مسجدِ نبوی میں حلفِ رکنیت پڑھنا غیر معمولی بات ہے۔ اگلے دن طے شدہ وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ انہوں نے مسجد کے صحن میں حلف لیا۔ حج بھی ادا ہو گیا تھا اور دو مرتبہ رکنیت کا حلف بھی اٹھا لیا۔ اس کے بعد پاکستان واپسی کا قصد کیا۔ اہلیہ نے توجہ دلائی آپ کی شیو بڑھ گئی ہے، بنوالیں تو مناسب رہے گا۔ جواب دیا کہ اب ان شاء اللہ داڑھی رکھوں گا۔ کراچی پہنچا تو جماعت اسلامی نارتھ ناظم آباد کے ذمہ داران کو خیال آیا کہ موصوف تو ہمارے علاقے کی حدود میں رہتے ہیں، اس ناتے حلف برداری تو یہیں ہونی چاہیے۔ انہیں بھی میرے دو مرتبہ حلف اٹھانے کے متعلق علم نہیں تھا۔ متین علی خان صاحب ناظمِ علاقہ تھے۔ تیسری مرتبہ انہوں نے حلف لیا اور ساتھ ہی میری رکنیت پر مہر ثبت کر دی گئی، کہ خالصتاً علاقے کا رکن ہوں۔