مقامی حکومتوں کا نیا نظام
جولائی 1999ء میں کارگل جنگ کے اختتام تک وزیراعظم نوازشریف اور فوجی قیادت کے تعلقات کشیدہ ہوچکے تھے۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ بھی ہوا، وہ اب تاریخ کا حصہ ہے۔
فوج ایک بار پھر اقتدار میں
بہرحال 12 اکتوبر 1999ء کو ایک بار پھر جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی۔ نوازشریف نے جس جنرل کو سینئرز پر فوقیت دے کر آرمی چیف بنایا تھا یعنی پرویز مشرف، انہوں نے ایک واقعے کو بنیاد بناتے ہوئے تختہ الٹ دیا اور اقتدار سنبھال لیا۔ منتخب وزیراعظم اور ان کے کئی قریبی ساتھیوں کو قید کردیا گیا۔ ہر فوجی حکمراں کی طرح جنرل پرویزمشرف نے بھی قوم سے خطاب میں حالات کے سدھار کے کئی دعوے اور وعدے کیے، اور حالات کی خرابی کا ذمہ دار سویلین حکومت کو ٹھیرایا۔
23 مارچ 2000ء کو مقامی حکومتوں کے ’’ڈسٹرکٹ اینڈ لوکل گورنمنٹ‘‘ کے نظام کا اعلان کیا گیا۔ اس نظام کے فوائد بیان کرتے ہوئے پرویزمشرف نے کہا کہ نچلی سطح پر اختیارات اور ذمہ داریوں کو منتقل اور عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرکے عام لوگوں میں قومی امور میں شراکت کا احساس پیدا کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی اعلان کردیا گیا کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات دسمبر 2000ء میں مرحلہ وار شروع ہوں گے اور 14 اگست 2001ء تک تمام مراحل کو مکمل کرلیا جائے گا۔ یہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ ووٹ ڈالنے کے لیے عمر کی حد 21 سال سے کم کرکے 18 سال کردی گئی۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ قومی مالیاتی کمیشن کی طرح چاروں صوبوں میں صوبائی مالیاتی کمیشن بنائے جائیں گے جو این ایف سی کی طرح اپنے ایوارڈز دیں گے۔ مقامی حکومتوں کے نظام کا خاکہ بنانے اور اسے متعارف کروانے میں ’’قومی تعمیرنو بیورو‘‘ کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) سید تنویر حسین نقوی نے اہم کردار ادا کیا۔ 23 مارچ کو نئے نظام کو متعارف کراتے وقت انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ضلعی حکومتیں مالی معاملات میں مکمل طور پر خودمختار ہوں گی۔
مقامی حکومتوں کے اعلان سے ملکی منظرنامے میں ایک بھونچال سا آگیا۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر آفتاب شیخ (سابق میئر حیدرآباد) نے ضلعی حکومتوں کے منصوبے کو سندھ کے شہری علاقوں کے خلاف سازش قرار دیا۔
اتحاد برائے بحالی جمہوریت (ARD) نے بھی نئے بلدیاتی نظام کی مخالفت کی۔ اتحاد کے چیئرمین سینئر سیاست دان نواب زادہ نصر اللہ خان نے کراچی میں ایک اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے نظام کے تحت ایک طرف اختیارات کی تقسیم کی بات کی جارہی ہے جبکہ دوسری طرف کراچی میں اختیارات کو مرکزی تحویل میں دینے کے لیے پانچوں اضلاع ختم کرکے ایک ڈویژن کی سطح پر سٹی گورنمنٹ کے قیام کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو کراچی کو دیہی علاقوں سے علیحدہ کرنے کا تصور پیدا ہوگا۔ یہ عمل سندھ کو تقسیم کرنے اور ملک کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔ اس اجلاس میں جاوید ہاشمی، اسفند یار ولی، امین فہیم اور دیگر سیاسی رہنما بھی شریک تھے۔
جماعت اسلامی نے بحث مباحثے اور مختلف طبقۂ فکر کے لوگوں سے مشاورت کے بعد اس نظام کو قبول کرکے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے فیصلہ کیا۔
1979ء اور 1983ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اخوت گروپ کے نام سے حصہ لیا تھا، لیکن اس مرتبہ بعض احباب نے رائے دی کہ خدمتِ خلق کے میدان میں درجنوں اداروں اور بھرپور سرگرمیوں کی وجہ سے لوگ جماعت کو ’’خدمت‘‘ کرنے والی پارٹی سمجھتے ہیں۔ گو کہ جماعت نے خدمتِ خلق کے شعبے کو اوّل روز سے سیاست سے الگ رکھا ہے اور الخدمت کو ملنے والا ایک روپیہ بھی کبھی تنظیمی یا سیاسی کاموں پر خرچ نہیں کیا گیا، لیکن ہم الخدمت گروپ کے نام سے حصہ لے کر عوام کو یہ پیغام ضرور دے سکتے ہیں کہ بلدیاتی الیکشن کا مقصد شہر کے لوگوں کی خدمت ہے جو کہ جماعت اسلامی بغیر حکومتی وسائل کے بھی کرتی چلی آئی ہے بات میں وزن تھا، اس لیے اکثریت متفق ہوگئی۔
سٹی ڈسٹرکٹ گونمنٹ کراچی
کراچی کو نئے نظام کے تحت سٹی ڈسٹرکٹ قرار دیا گیا تھا۔ مزید تقسیم یہ تھی کہ 178 یونین کونسلز اور 18 ٹاؤن بنائے گئے تھے۔ ایک یونین کونسل میں ناظم اور نائب ناظم سمیت کُل 21 نمائندوں کا چناؤ ہونا تھا۔ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جماعت اسلامی میں کوئی بھی فرد کسی تنظیمی یا عوامی عہدے کا امیدوار نہیں ہوتا، بلکہ کسی بھی منصب کی خواہش رکھنے والے فرد کو برا یا غیر تربیت یافتہ سمجھا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے ہر ہر مرحلے پر اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ ارکان و کارکنان کی اکثریتی رائے سے امیدواروں کے نام فائنل کیے جائیں۔
کراچی میں 2 جولائی کو انتخابات کا پہلا معرکہ سجا۔ اس دن یونین کونسل کی سطح پر ووٹ ڈالے گئے۔ الخدمت گروپ یعنی جماعت اسلامی کے نمائندوں نے 65 سے زیادہ یونین کونسلوں میں اکثریت حاصل کرلی، جبکہ پورے شہر میں بڑی تعداد میں کونسلر بھی منتخب ہوئے۔ متحدہ کے عروج کے بعد کسی بھی انتخابی معرکے میں یہ جماعت اسلامی کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔ اس کامیابی میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے درجنوں شہداء کا خون بھی شامل تھا، جنہوں نے کراچی میں الطاف حسین کی فسطائی طرزِ سیاست اور دہشت گردی کے سامنے مزاحمت کی تھی۔ 4 جولائی کو ادارہ نور حق سے متصل شہداء گراؤنڈ میں بعد نمازِ مغرب نمازِ شکرانہ کا اہتمام کیا گیا۔
نئے قانون کے تحت یہ لازمی تھا کہ ٹاؤن اور سٹی کی سطح پر ناظم اور نائب ناظم کے پینل کو پچاس فیصد ووٹ ملیں ورنہ انتخاب کالعدم قرار دیا جاسکتا تھا۔ ابھی سٹی ناظم کے نام کا فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ مختلف سیاسی رہنما ادارہ نور حق آنے لگے، کیونکہ کوئی بھی پارٹی تن تنہا اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ سٹی ناظم اور نائب ناظم کا پینل منتخب کروا سکے۔ الخدمت گروپ سب سے بڑا گروپ تھا لیکن ہمیں بھی کسی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت تھی۔ اگلے چند دن بے حد مصروفیت میں گزرے۔ مسلم لیگ (ن) کے ممنون حسین، جمشید احمد خان اور طارق خان ملاقات کے لیے آئے، حاجی حنیف طیب اور نصرت مرزا نے ملاقات کی۔ جمعیت علمائے پاکستان کے محمد احمد صدیقی بھی اپنے وفد کے ساتھ تشریف لائے۔ اس کے بعد مسلم لیگ ہم خیال کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی کیپٹن حلیم صدیقی نے مجھ سے ون ٹو ون ملاقات کی اور اپنے گروپ کے ووٹوں کی تعداد بتاکر درخواست کی کہ ہم ان کے گروپ سے نائب ناظم لے لیں، وہ سٹی ناظم کے لیے ہمارے امیدوار کی حمایت کریں گے، بلکہ ناظم اور نائب ناظم کا پینل تو مشترکہ ہونا تھا۔ نظم کراچی اور امرائے اضلاع نے صورتِ حال پر تفصیلی غور و خوض کے بعد اس آپشن کو بہتر محسوس کیا۔ ہم نے ان سے نائب ناظم کے امیدوار کا نام مانگا۔ انہوں نے فاروق اعوان کا نام پیش کیا۔ وہ ملاقات کے لیے ادارہ نورحق آئے لیکن ان کی تعلیمی اسناد میں کچھ مسئلہ تھا جس کی وجہ سے ان کا نام واپس لے لیا گیا۔
پھر چودھری شجاعت حسین کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھیوں کی رائے علیم عادل شیخ کے بارے میں ہے۔ اس نام پر ہمارے کچھ لوگوں کو تحفظات تھے، لہٰذا یہ نام بھی مسترد ہوگیا۔ تیسرا نام طارق حسن کا پیش کیا گیا۔ طارق حسن ملاقات کے لیے آئے تو سب نے ان کے بارے میں اچھی رائے قائم کی۔ ان سے کہا گیا کہ اپنی اصل تعلیمی اسناد کے ساتھ آئیں، تو بغیر کسی تاخیر کے لے آئے۔ کینٹ اسٹیشن پر واقع ایک ہوٹل ان کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔ میدانِ سیاست میں نوآموز ہونے کے باوجود پوری انتخابی مہم میں دل جمعی کے ساتھ شامل رہے۔
سٹی نظامت کے لیے نامزدگی
2 اگست کو سٹی اور ٹاؤن ناظمین کے انتخاب کے لیے پولنگ ہونی تھی۔ وقت کم رہ گیا تھا۔ جماعت اسلامی کراچی کی شوریٰ نے سٹی ناظم کے لیے چار افراد کے نام مرکز بھیجے تاکہ امیر جماعت ان میں سے ایک نام کی منظوری دے دیں۔ کچھ دن کے بعد قاضی حسین احمد صاحب کا خط موصول ہوا جس میں ہدایت کی گئی تھی کہ میں سٹی ناظم کا الیکشن لڑوں۔ میں نے قاضی صاحب کو فون کیا اور معذرت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی جماعت میں کئی جوان العمر اور باصلاحیت افراد موجود ہیں۔ مگر قاضی صاحب کا اصرار تھا کہ سٹی ناظم کے امیدوار آپ ہی ہوں گے۔ انتخابی مہم شروع ہونے سے قبل کراچی کی امارت سے استعفیٰ دے دیا۔ 14 جولائی کو ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی نے جماعت اسلامی کراچی کے عبوری امیر کا حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر معراج اس سے قبل ضلع وسطی کے امیر تھے۔ بلدیاتی الیکشن میں الخدمت گروپ کے سب سے زیادہ یوسی ناظمین اور کونسلر بھی ضلع وسطی ہی سے منتخب ہوئے تھے۔
انتخاب کے دن سے ایک روز پہلے تک منتخب ناظمین اور کونسلرز سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پیپلز پارٹی جمہوری پینل کے نام سے میدان میں تھی، اس کے سٹی ناظم کے امیدوار پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات اور سابق سینیٹر تاج حیدر تھے۔ جبکہ دیگر امیدواروں میں غریب نواز گروپ کے حاجی حنیف طیب، الخادم گروپ کے صدیق راٹھور اور وطن پرست گروپ کے مولانا احترام الحق شامل تھے۔ لیکن اصل مقابلہ الخدمت اور جمہوری گروپ کے امیدواروں کے درمیان ہی تھا۔
2 اگست کی صبح نو بجے پولنگ کا عمل شروع ہوگیا۔ دن بھر مختلف کیمپوں پر بھاگ دوڑ لگی رہی، مختصر وقت میں کراچی کے تمام پولنگ کیمپس کا دورہ کرنا، شکایات کا بروقت تدارک کروانا… انہی مصروفیات میں دن گزر گیا۔ شام کو نتائج آئے تو کچھ ٹائون ناظمین تو واضح اکثریت سے کامیاب ہوگئے اور باقی ناظمین پچاس فیصد اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے رائونڈ میں چلے گئے۔
الخدمت گروپ کی طرف سے عبدالوہاب گلشن اقبال ٹاؤن، فاروق نعمت اللہ گلبرگ ٹاؤن، فصیح الدین صدیقی نارتھ ناظم آباد ٹاؤن، شفیق الرحمٰن عثمانی نارتھ کراچی ٹاؤن، ڈاکٹر پرویز محمود لیاقت آباد ٹاؤن، احمد قاسم پاریکھ جمشید ٹاؤن، اعظم علی ملیر ٹاؤن، محمد شاہد لانڈھی ٹاؤن اور محمد جمیل خان کورنگی ٹاؤن کے ناظم منتخب ہوئے، جبکہ شاہ فیصل ٹاؤن میں اسلام اللہ صدیقی نائب ٹاؤن ناظم منتخب ہوئے۔
سٹی ناظم اور نائب ناظم کے لیے کاسٹ ہونے والے 3632 ووٹوں میں سے 1757 ہمارے پینل کو ملے جبکہ تاج حیدر کے پینل کو 1136 ووٹ ملے۔ غریب نواز پینل کے امیدواروں حاجی حنیف طیب اور بوستان علی ہوتی 512 ووٹ حاصل کرپائے۔ ہمارے پینل کو برتری حاصل ہوگئی تھی لیکن شرط چوں کہ 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے کی تھی اور وہ پوری نہیں ہوئی تھی، اس لیے 8 اگست کو دوسرا رائونڈ ہوا۔ پہلے مرحلے میں ہماری واضح کامیابی کے بعد مزید لوگوں نے ہماری حمایت کا فیصلہ کرلیا۔ ان لوگوں میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق خان اور سابق صوبائی وزیر زہیر اکرم ندیم کے صاحبزادے عمیر اکرم ندیم بھی شامل تھے۔ اورنگی ٹاؤن، لانڈھی، کورنگی اور لیاری کے کچھ چھوٹے گروپوں نے بھی ہماری حمایت کردی۔
8 اگست کو عزیزم محمد طفیل علی الصبح میرے گھر پہنچ گئے، ان کے ہمراہ کچھ نوجوان بھی تھے۔ پوچھا کہ بھلا اتنے سارے افراد کا کیا کام؟ طفیل بولے: آپ ناظم تو بن گئے ہیں بس آج رسم ادا ہونی ہے اور شام کو اعلان ہونا ہے، اس لیے سیکورٹی کے پیش نظر یہ نوجوان ساتھ ہیں۔ مجھے، بلکہ جماعت اسلامی کے کسی بھی ذمہ دار کو سیکورٹی کا کبھی شوق نہیں رہا اور نہ ضرورت تھی، لیکن اُس روز اُن کے جذبات دیکھتے ہوئے منع کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اُس دن ہلکی ہلکی بارش بھی ہورہی تھی۔ جب پولنگ اختتام کے نزدیک پہنچی تو کیمپوں کا دورہ مکمل کرکے واپس ادارہ نورِحق جارہا تھا، راستے میں تھا کہ موبائل فون پر بی بی سی لندن کے شفیع نقی جامعی کا فون آیا۔ کہنے لگے: نعمت صاحب آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ راستے میں ہوں، تھوڑی دیر میں ادارہ نورِحق پہنچ جاؤں گا، آپ کچھ دیر کے بعد فون کرلیں تو آرام سے بات ہوجائے گی۔ وہ بضد رہے: نہیں آپ کا انٹرویو ابھی اسی وقت کرنا چاہ رہا ہوں۔ شفیع نقی اسلامی جمعیت طلبہ کے پینل پر جامعہ کراچی کی طلبہ یونین کے صدر رہ چکے ہیں اور کراچی جماعت کے اکثر ذمہ داران سے ان کے گہرے مراسم تھے۔ ان کے اصرار کے بعد انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ مختصر گفتگو کرتا ہوا ادارہ نورِحق پہنچا تو پتا چلا کہ پولنگ مکمل ہوچکی ہے اور گنتی آخری مراحل میں ہے۔ ادارے میں بھی باقاعدہ نتائج وصول کرنے کے لیے سیل قائم تھا، جو شہر کے تمام پولنگ اسٹیشنز سے لمحے لمحے کی رپورٹ موصول کررہا تھا۔ باقاعدہ جلسے کا ماحول بنا ہوا تھا۔ ایک جانب اسٹیج تیار تھا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان و قائدین ہار پھول لے کر وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کارکنان کے نعروں میں شدت آگئی۔ جذبات سے مغلوب ہوکر عزیزی ناظم اقبال نے مجھے کاندھوں پر اٹھا لیا۔ حتمی نتیجہ آیا تو پتا چلا ہمارے پینل کو 2060 ووٹ، جب کہ تاج حیدر صاحب کے پینل کو 1511 ووٹ ملے ہیں۔ فضا نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھی۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد کارکنان کو مبارک باد دی اور دیگر سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا۔ اسی جلسے میں، مَیں نے نائب ناظم طارق حسن کو اپنا آٹھواں بیٹا قرار دیا۔ کیپٹن حلیم صدیقی بھی وہیں موجود تھے، انہوں نے اپنی تقریر میں مبارک باد دینے کے ساتھ کہا کہ نعمت صاحب ہم نے اپنا وعدہ پورا کردیا، اب یہ شہر آپ کی توجہ کا منتظر ہے۔ کارکنان خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے اور یہ خوشی کیوں نہ ہوتی، شہر ایک مرتبہ پھر روشنیوں اور رونقوں کی طرف سفر شروع کرنے والا تھا۔ بہت سے چہرے اجنبی تھے جن کی آنکھوں سے محبت اور خلوص جھلک رہا تھا، خواتین کی بہت بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ سب کا شکریہ ادا کرکے ارادہ کیا کہ پہلے تاج حیدر صاحب سے ملاقات کروں۔ تاج حیدر ڈیفنس میں ایک فلیٹ میں تنہا رہا کرتے تھے۔ میں، محمد طفیل اور چند رفقاء ان کے گھر جانے کے لیے روانہ ہوئے تو راستے میں بغیر کچھ کہے سنے ایک عدد پروٹوکول گاڑی کار کے آگے ہوٹر بجاتے ہوئے چلنے لگی۔ طارق روڈ پر جاکر اندازہ ہوا ہم ڈیفنس کے بجائے کسی اور راستے پر آگئے ہیں، ڈرائیور میاں داد سے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اور ہم کہاں جارہے ہیں؟ بتانے لگے: یہ سرکاری پروٹوکول والی گاڑی ہے اور یہ ہم کو قائداعظم کے مزار پر حاضری دینے کے لیے لے جارہے ہیں۔ دنیا دن کی روشنی میں مزاروں پر جاتی ہے، پروٹوکول والے ہمیں رات کی تاریکی میں کیوں مزار قائد لے کر جارہے ہیں؟ اس نامعقول تجویز کو مسترد کرتے ہوئے میں نے میاں داد سے کہا: اس موبائل کے ڈرائیور سے کہو کہ ہوٹر بجاکر لوگوں کو ہماری جانب متوجہ کرنے کے بجائے اپنا راستہ لے اور ہمیں اپنا کام کرنے دے، اور سیدھا تاج حیدر کے گھر چلو، سنا ہے وہ جلدی سونے کے عادی ہیں۔ ڈیفنس میں ایک عمارت کی دوسری منزل پر واقع ان کے فلیٹ پہنچے، دروازے پر دستک دی، انہوں نے خود دروازہ کھولا، گرمجوشی سے گلے ملے اور مبارک باد دی، اور پھر ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھایا، ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد وہ چائے بنانے کے لیے کچن میں چلے گئے، خوش ذائقہ چائے سے انہوں نے ہماری تواضع کی۔ کچھ دیر رکنے کے بعد تاج حیدر سے رخصت چاہی اور واپس گھر کا رخ کیا۔