ماس ٹرانزٹ منصوبہ
ماہرین کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے گمبھیر مسئلے کا ایک ہی حل تجویز کرتے ہیں، اور وہ ہے ماس ٹرانزٹ۔ ملک ظہیر الاسلام ہمارے ڈائریکٹر جنرل ماس ٹرانزٹ تھے۔ محنتی اور تجربہ کار افسر تھے۔ انہوں نے ہماری ٹیم کے ساتھ مل کر ماس ٹرانزٹ منصوبے کے لیے بہت محنت اور لگن سے کام کیا۔ جب تعمیرِ کراچی پروگرام کی منظوری ہوئی تو ہم نے ماس ٹرانزٹ کے منصوبے کو بھی اس میں شامل کردیا۔ اخبارات میں ٹینڈر جاری کروائے گئے کہ بی او ٹی یعنی بلٹ آپریٹ ٹرانسفر کی بنیاد پر جو کمپنیاں شہر میں ماس ٹرانزٹ کے منصوبے پر کام کرنا چاہیں وہ اپنے پروپوزل جمع کروائیں۔ شہر میں ماضیِ قریب میں امن و امان کے جو بدترین حالات رہے تھے، ان کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سرمایہ کار خوف زدہ تھے، خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری کرتے ہوئے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہوجاتے تھے۔
ماس ٹرانزٹ کے منصوبے میں ہم نے ابتدائی طور پر دو کوریڈورز کو شامل کیا، ایک سہراب گوٹھ سے ٹاور تک، جبکہ دوسرا کینٹ اسٹیشن سے اورنگی ٹاؤن تک۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اس کوریڈور کو بنارس چوک پر ختم کردیا جائے کیونکہ آگے کی سڑک اتنی چوڑی نہیں تھی اور انکروچمنٹ کے مسائل بھی تھے۔ میں نے اس تجویز کو سختی سے رد کردیا اور کہا کہ اورنگی ٹاؤن کو لازمی طور پر شامل کیا جائے۔
ہم نے جن کمپنیوں سے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے، ان کو بھی ہدایت کی گئی کہ ٹینڈر میں شریک ہوں، کیونکہ شفافیت اور مسابقت ہمارا بنیادی اصول تھا جس پر کوئی سمجھوتا کرنے پر نہ میں راضی تھا اور نہ ہی میری ٹیم کا کوئی فرد۔
دو کمپنیوں نے پروپوزل جمع کروائے۔ ایک امریکی کمپنی تھی American Maglev Technology Inc,USAجس نے میگنیٹک لیوی ٹیشن ٹرین کا منصوبہ پیش کیا، جسے ہماری ٹیم کے اراکین نے اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ یہ ٹرین کچھ ہی عرصہ قبل تجرباتی مراحل سے گزری تھی اور اس کمپنی کی مالی پوزیشن بھی بہت مستحکم نظر نہیں آرہی تھی۔ دوسری کمپنی چین کی بہت بڑی کمپنی تھی، جس کا نام China National Machinery and Equipment Corporation Group (CNMEG) تھا۔
منصوبہ دراصل یہ تھا کہ دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی طرح مونو ریل چلائی جائے گی جو کچھ فاصلہ زمین کی سطح سے اوپر بنائے گئے پلرز اور ٹریک پر طے کرے گی، جبکہ بقیہ فاصلہ زیرزمین ٹریک پر طے کرے گی۔ یہ بے حد مفید منصوبہ تھا اور اس کی تکمیل کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں خوشگوار انقلاب کا سبب بن سکتی تھی۔
چینی کمپنی CNMEG نے 568 ملین ڈالر کا منصوبہ پیش کیا لیکن وہ بی او ٹی کی نہیں بلکہ کریڈٹ فنانسنگ کی بنیاد پر تھا۔ کمپنی نے پیشکش کی کہ ہم سرمائے کا بندوبست بھی کریں گے اور منصوبہ مکمل بھی کریں گے۔ سٹی گورنمنٹ تیس سال کے بعد آسان اقساط میں ادائیگی کرنے کی پابند ہوگی۔ اس سلسلے میں انہوں نے چین کے ایک بہت بڑے بینک AXIM Bank سے فنانسنگ کے معاملات بھی اصولی طور پر طے کرلیے، فزی بلیٹی بھی تیار کرلی گئی، اور ہمارا خیال تھا کہ اس منصوبے کے شروع ہونے میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ کیونکہ دو ملکوں کے درمیان اس طرح کے بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ایک شرط ہوتی ہے ساورن گارنٹی، یعنی یہ کہ اس قرض کی واپسی کی ضامن حکومت ہوگی۔ لہٰذا میں نے صدر پرویزمشرف کو اعتماد میں لے کر ساری صورت ِحال بتائی۔
کچھ دن بعد اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلایا گیا۔ صدر پرویزمشرف بھی اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ جبکہ صدارت وزیراعظم شوکت عزیز نے کی۔ اس اجلاس میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے علاوہ متحدہ کے بابر غوری اور ڈاکٹر فاروق ستار بھی شریک تھے۔ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن اکرم شیخ نے میری بریفنگ کے بعد رائے دی کہ ہم کریڈٹ فنانسنگ کی منظوری نہیں دے سکتے اور یہ منصوبہ بی او ٹی کی بنیاد پر ہی بنایا جانا چاہیے۔ وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی اکرم شیخ کے موقف کی تائید کی اور حیران کن طور پر بابر غوری اور ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے بھرپور انداز میں میرے موقف کی تائید کی اور کہا کہ نعمت اللہ خان صاحب کی تجویز قابلِ عمل ہے۔ وفاقی حکومت کو کراچی کے اس اہم ترین منصوبے کے لیے ان کی تجویز کو منظور کرنا چاہیے۔ اکرم شیخ نے صدر پرویزمشرف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم چینی کمپنی کے نمائندوں کو بی او ٹی پر قائل کرلیں گے۔ پرویزمشرف صاحب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے کہ نعمت صاحب! آپ کو تو پراجیکٹ سے غرض ہے نا۔ جب یہ کہہ رہے ہیں کہ بی او ٹی پر راضی کرلیں گے تو آپ ان کی بات مان لیں۔ میرے پاس مزید کچھ کہنے یا بحث کرنے کی گنجائش نہیں تھی، کیونکہ میٹنگ کے شرکاء کی اکثریت کا ذہن کچھ اور تھا۔ افسوس تو مجھے متحدہ کے دونوں رہنماؤں کے رویّے پر تھا جنہوں نے نجانے کیوں اس دن اکرم شیخ کی تجویز کی حمایت کی۔ نیتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن ہمارے کچھ رفقاء کا خیال تھا کہ وہ یہ ہضم نہیں کرپا رہے تھے کہ جماعت اسلامی کے سٹی ناظم کو شہر کے اہم ترین عوامی منصوبے کا کریڈٹ ملے۔ میری ذاتی رائے یہ تھی کہ انہوں نے محض مخالفت برائے مخالفت کی تھی۔
مخالف کی اچھی بات اور اچھے منصوبوں پر بھی مثبت رویہ نہ اپنانا ہمارا مجموعی سیاسی مزاج بن چکا ہے جسے تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ رویہ ملک کی ترقی کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
اس طرح چینی کمپنی کے ذمہ داران بوجھل دل کے ساتھ رخصت ہوگئے اور شہر میں ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ فائلوں میں ہی دم توڑ گیا۔