ملیر ندی کا پُل اور جمال طاہر و اسلم مجاہد کی شہادت
ہماری شہری حکومت کی کارکردگی کو بڑھانے میں الخدمت کے ٹاؤن ناظمین کا بہت اہم کردار رہا۔ ویسے تو میری دانست کے مطابق ان میں سے ہر ایک کی کارکردگی دوسرے سے بڑھ کر رہی تھی، اور ہر شخص نے وژن اور محنت کے ساتھ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے خدمت کو عبادت سمجھ کر انجام دیتا رہا، لیکن یہاں لانڈھی ٹاؤن کے ناظم محمد شاہد اور کورنگی ٹاؤن کے ناظم عبدالجمیل خان کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہوں گا کہ یہ دونوں حضرات اُن لوگوں میں شامل تھے کہ جن کے پیش کردہ منصوبوں میں میری خاص دلچسپی ہوتی تھی۔ کیونکہ لانڈھی اور کورنگی ایک طرح سے کراچی کی معیشت کا حب تھے جن کی حالتِ زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا تھا۔ یہاں کے رہنے والے بہت بری صورت ِحال سے دوچار رہے تھے۔ پہلے ایم کیو ایم نے اپنے آغاز سے ہی اس علاقے کو تباہ کیا، نوجوان نسل کو اسلحہ پکڑایا، تعلیم کا برا حال کیا، پھر متحدہ اور اس سے نکلے ہوئے دھڑے ایم کیو ایم حقیقی کے روزانہ کی بنیاد پر خونریز جھگڑوں کی وجہ سے بڑی ابتری ہوئی۔ طویل عرصے سے ان علاقوں میں ترقیاتی کام بھی نہیں ہوئے تھے۔ زندگی کی بنیادی سہولتیں پانی، بجلی، گیس اور صفائی ستھرائی کا کوئی مربوط نظام کئی علاقوں میں موجود نہیں تھا، جگہ جگہ ابلتے گٹروں اور گندے بدبودار پانی نے ان علاقوں سے گزرنا ناممکن بنایا ہوا تھا، سڑکیں زبوں حالی کا شکار تھیں، لوگوں میں شدید مایوسی تھی۔ لیکن عزم اور ہمت رکھنے والے دونوں ٹاؤن ناظمین اور یونین کونسل ناظمین نے اپنے اپنے علاقوں میں عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے شب و روز محنت کی اور بتدریج صورتِ حال تبدیل ہوگئی۔ سڑکیں بن گئیں، پرانے پارک بحال کیے گئے، نئے پارکوں کا اضافہ ہوا، دینی مدارس اور مساجد پر خصوصی توجہ دی گئی۔ اس ضمن میں ایک اور شخصیت کا ذکر ضروری ہے، کیونکہ ان سب کی رہنمائی کے لیے وہ موجود تھے، اور وہ سابق رکن صوبائی اسمبلی اسلم مجاہد تھے، جو علاقے کے ہردلعزیز عوامی رہنما تھے اور لوگوں کے دلوں میں رہتے تھے۔ سٹی گورنمنٹ کے انتخابات میں محمد شاہد اور عبدالجمیل خان کی کامیابی کے پیچھے بھی اسلم مجاہد کا متحرک کردار، اور ان علاقوں کے لیے ان کی خدمات کا بڑا دخل تھا۔ ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کورنگی کے علاقے میں امراضِ قلب کے علاج کے لیے چیسٹ پین سینٹر کے منصوبے میں انہوں نے بہت دلچسپی لی تھی۔ اسی طرح ان کی دلچسپی سے ہی نہ صرف ملیر ندی پشتے کی تعمیر اور شہید ملت ایکسٹینشن کا کام ہوا، بلکہ اس کے علاوہ اسکولوں، کالجوں کو بھی بہتر بنایا اور ان میں اضافہ کروایا گیا، پانی اور سیوریج سسٹم کی بہتری کے لیے بڑی بڑی لائنیں ڈلوائی گئیں۔ غرض وہ وہاں کے لوگوں کے چھوٹے بڑے ہر قسم کے مسائل پر بھرپور توجہ دیتے تھے۔ افغانی صاحب کے دور میں بھی اسلم مجاہد نے بطور کونسلر اپنے علاقے کے لیے بہت کام کیے تھے ۔ خواتین کے لیے پردہ پارک، بارہ دری، اسپورٹس کمپلیکس، کورنگی نمبر ڈھائی پر میٹرنٹی ہوم، کھیل کے کئی میدان ان کی دلچسپی اور لگن سے ہی بنے تھے۔ کورنگی لانڈھی کے صنعتی علاقوں کی تعمیر وترقی، کورنگی کازوے کی تعمیر، اور پھر جام صادق علی پل کی ازسرنو تعمیر میں ان کا اہم کردار رہا۔ آٹھ ہزار اور بارہ ہزار روڈ کی تعمیر کے لیے بھی وہ متحرک رہے۔ اسلم مجاہد اپنی تقاریر میں متحدہ کی منفی طرزِ سیاست پر بہت سخت الفاظ میں گرفت کرنے لگے تھے اور ہزاروں کے مجمع کے سامنے بھی الطاف حسین کا نام لے کر تنقید کیا کرتے تھے۔
اسلم مجاہد اور لانڈھی، کورنگی کے یوسی و ٹاؤن ناظمین کے دیرینہ مطالبے پر سٹی گورنمنٹ نے شاہ فیصل کالونی کو کورنگی سے ملانے کے لیے ملیر ندی پر ایک بڑے پل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا جسے ملیر ریور برج کا نام دیا گیا۔ 1057.95 ملین روپے کے اس میگا پراجیکٹ کے تعارف کے لیے اتوار 29 مئی 2005 ء کو کورنگی میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس پروگرام میں میرے علاوہ نائب ناظم طارق حسن، اسلم مجاہد، کمال فاروقی، مسلم پرویز، ای ڈی ورکس سرفراز علی شاہ، محمد شاہد اورعبدالجمیل خان بھی شریک ہوئے۔ پروگرام میں شریک لوگوں کو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس پل کی تعمیر کے بعد شاہ فیصل کالونی سے کورنگی تک کا فاصلہ چند منٹ میں طے ہوجائے گا۔ پروگرام کے اختتام پر جماعت اسلامی لانڈھی کے جواں سال رہنما جمال طاہر موٹر سائیکل پر اپنے گھر جانے کے لیے نکلے۔ گھر کے قریب پہلے سے گھات لگائے متحدہ کے ٹارگٹ کلرز نے ان پر گولیاں برسا دیں اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔ کارکنان انہیں جناح ہسپتال لے کر جارہے تھے مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاسکے اور جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ جمال طاہر حزب المجاہدین میں بھی سرگرم رہے تھے اور عزیزی طفیل و عظیم بلوچ کے ساتھ میرے پاس آتے رہے تھے۔ اگلے روز ظہر کے بعد ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی جس میں پورے شہر سے جماعت اسلامی کے کارکنان شریک ہوئے۔ اسلم مجاہد بھی جمال طاہر کی نمازِ جنازہ میں شریک تھے۔ اسلم مجاہد جنازے کے بعد جب اپنی کار میں واپس جانے لگے تو متحدہ کے کچھ دہشت گردوں نے ان کا راستہ روک لیا اور اسلحے کے زور پر انہیں اغوا کرلیا۔ ان پر بے پناہ تشدد کیا گیا اور ان کے سینے اور سر میں گولیاں مار کر انہیں بھی شہید کردیا گیا۔ ان کی نعش لانڈھی نمبر 6 ڈگری کالج کے قریب سے ملی۔ جماعت کے ساتھیوں نے ہمیں بتایا کہ اسلم مجاہد جب نمازِ جنازہ سے لوٹ رہے تھے تو لانڈھی ساڑھے 3 الرازی چورنگی کے قریب متحدہ کے بیس پچیس دہشت گردوں نے ان کی گاڑی کو روک لیا تھا۔ حملہ آوروں کا سرغنہ متحدہ کا سیکٹر انچارج فاروق بیگ تھا، جبکہ اسلم مجاہد پر گولیاں چلانے والوں میں مبینہ طور پر علاقے کا بدنام زمانہ پولیس افسر انوارجعفری بھی شامل تھا۔ وہ بہت درد، تکلیف اور صبر کا وقت تھا، دو دنوں کے اندر جماعت اسلامی کے دو رہنماؤں کی شہادت ہم سب کے لیے بڑا سانحہ تھا۔ کارکن سے لے کر قیادت تک سب غم میں ڈوبے ہوئے اور مشتعل تھے، لیکن ہمارے پاس سوائے صبر کے کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ ریاست متحدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی تھی۔ اندازہ ہو رہا تھا کہ متحدہ کی قیادت شہر کو ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اپنے حواس گم کر بیٹھی ہے اور شہر پر ایک بار پھر خوف اور تشدد کی لعنت کو مسلط کرنا چاہتی ہے۔ اسلم مجاہد جیسے شریف النفس سیاسی کارکن اور سماجی رہنما کا دن دہاڑے قتل اس بات کا کھلا ثبوت تھا کہ الطاف حسین اور متحدہ کی اُس وقت کی ٹیم جو آج بھی کسی نہ کسی نام سے موجود ہے، دہشت اور نفرت کی سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی تھی۔ شہادت کے اگلے روز اسلم مجاہد کی نمازِ جنازہ امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد نے پڑھائی۔ کراچی جماعت اسلامی کے ذمہ داران، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، خیبر پختون خوا کے سینئر صوبائی وزیر سراج الحق، زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد اور عوام کی بڑی تعداد نے نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔
ہر آنکھ اشکبار تھی۔ کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ لانڈھی کورنگی کے ایک ایسے سیاسی و سماجی رہنما کو وحشیانہ تشدد کرکے قتل کردیا گیا ہے جو اپنی شہادت سے ایک روز قبل بھی علاقے کے عوام کو سہولت پہنچانے والے ترقیاتی منصوبے ’’ ملیر ریور برج ‘‘ کی تعمیر کا خواب دیکھ رہا تھا۔ جو اپنے علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر دم بے چین اور سرگرم رہا کرتا تھا۔ جمال طاہر اور اسلم مجاہد نے شہادت کی منزل پائی اور اپنے رب سے کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا۔
”کہو، میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“(سورہٴ الانعام ١٦٢)