پارک بنائے – پارکوں پر قبضہ نہیں کیا
شہر کو سرسبز و شاداب دیکھنے کی خواہش مجھے نوجوانی کے دور سے تھی۔ سچ یہ ہے کہ 1970ء کی دہائی تک شہر کنکریٹ کا جنگل بنا بھی نہیں تھا اور مختلف شاہراہوں اور بڑے پارکوں میں برگد، پیپل اور نیم کے گھنے سایہ دار درخت موجود تھے۔ میں نے نارتھ ناظم آباد میں پلاٹ خریدا تو اس کا بڑا حصہ پودوں اور درختوں کے لیے خالی رہنے دیا تھا۔ سٹی ناظم بننے کے کچھ ہی عرصے کے بعد کراچی کے سارے یوسی اور ٹاؤن ناظمین جان چکے تھے کہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے ساتھ ساتھ شہر کے ماحول کی بہتری بھی میری ترجیح ہے۔ چنانچہ ان سب نے بھی پارکوں کی دیکھ بھال، نئے پارکوں کے قیام اور سڑکوں و میدانوں میں شجر کاری پر بھرپور توجہ دینی شروع کردی۔ ہم نے انہیں اجازت دی کہ خوشحال پاکستان پروگرام کے فنڈز سے بھی پارک بنائے جاسکتے ہیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ سٹی گورنمنٹ کے بجٹ سے ہر ٹاؤن میں ایک ماڈل پارک بنایا جائے گا۔ محکمۂ باغات نے ٹاؤن ناظمین کی مشاورت سے ہر ٹاؤن میں قطعات ِاراضی کا تعین کیا اور بہت تیز رفتاری سے بیک وقت کئی ٹاؤنز میں ماڈل پارکوں پر کام شروع ہوگیا۔ الحمدللہ چند ماہ کے اندر دس سے زیادہ ماڈل پارک بن کر تیار ہوگئے۔ ان پارکوں کے افتتاح کے مواقع پر تقاریب منعقد کی جاتی تھیں جن میں ہزاروں مرد و خواتین اور بچے شرکت کرتے۔ خوشی سے ان کے چہرے دمک رہے ہوتے تھے اور وہ ہمارے حق میں بڑی دعائیں کرتے تھے۔
عسکری پارک کا منصوبہ
سٹی گورنمنٹ کے معرضِ وجود میں آنے سے کچھ عرصہ قبل سبزی منڈی سپر ہائی وے پر منتقل کی جاچکی تھی۔ 38 ایکڑ سے زیادہ کے اس انتہائی بیش قیمت رقبے پر لینڈ مافیا سمیت مختلف بااثر لوگوں کی نظریں تھیں۔ اُس وقت ہمارے پاس اتنے بڑے پارک کو بنانے کے لیے وسائل نہیں تھے۔ میں نے کور کمانڈر جنرل طارق وسیم غازی سے بات کی اور اس پلاٹ کے دورے کی دعوت دی۔ جب وہ دورے کے لیے آئے تو انہیں بتایا کہ ہم اس پلاٹ کو قبضے سے بچانا اور عوام کو ایک معیاری پارک کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ خواہش ہے کہ کور فائیو مزارِ قائد پارک کی طرح اس پارک کو بھی اپنے وسائل سے بنائے۔ انہوں نے اس تجویز کا مثبت جواب دیا اور کچھ عرصے کے بعد شہر میں عسکری پارک کی شکل میں ایک بڑے پارک کا اضافہ ہوگیا۔ اس پارک کے بنانے پر سٹی گورنمنٹ کا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا، اور زمین بھی فلیٹوں کے جنگل میں تبدیل ہونے سے بچ گئی۔ اس دوران محکمۂ باغات کے افسران کی مشاورت سے کراچی کے دو سو مقامات پر خیرپور سے کھجور کے درخت منگواکر لگوائے گئے۔ یہ درخت 15 سے 20 فٹ بلند تھے۔
فٹ بال لیاری کے نوجوانوں کا پسندیدہ کھیل ہے۔ ماضی میں اس علاقے نے ملک کو فٹ بال کے کئی مایۂ ناز کھلاڑی دیے ہیں، جبکہ کئی اچھے باکسر بھی لیاری میں پیدا ہوئے اور مختلف مقابلے جیت کر نام کمایا۔ میری خواہش تھی کہ لیاری میں بین الاقوامی معیار کا ایک فٹ بال اسٹیڈیم بنوایا جائے۔ بتایا گیا کہ محترمہ بے نظیر صاحبہ کے دورِ حکومت میں ایک اسٹیڈیم بنایا گیا تھا جو مکمل نہیں ہوسکا تھا، بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لی۔ ہم نے اس اسٹیڈیم کی تکمیل اور تزئین و آرائش پر کئی کروڑ روپے خرچ کیے اور لیاری کے نوجوانوں کو فٹ بال اسٹیڈیم کا تحفہ دیا۔ کشمیر روڈ پر اسپورٹس کمپلیکس میں انڈور جمنازیم کی تعمیر و مرمت کا کام مکمل کروایا گیا۔ یہ کام برسوں سے رکا ہوا تھا۔
سفاری ایریا عوام کے لیے کھول دیا گیا
شہر کے وسط یعنی گلستان جوہر میں 407 ایکٹر پر پھیلا ہوا سفاری پارک طویل عرصے سے عدم توجہی کا شکار تھا۔ کراچی کے گوناگوں مسائل کی وجہ سے 2004ء تک اس منصوبے پر ہماری ٹیم بھی توجہ نہیں دے سکی تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ سفاری پارک کو نجی شعبے کے حوالے کردیا جائے۔ اس سلسلے میں اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کروا دیے گئے۔اپریل 2004ء میں ڈاکٹر فیاض عالم نے سفاری پارک میں دلچسپی لینا شروع کی اور یہ تجویز پیش کی کہ پارک میں موجود جنگلی جانوروں کے ایریا کو عوام کے لیے کھول دیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس ایریا میں پچیس سے زیادہ نسلوں کے سات سو جانور موجود ہیں۔ ان کی اس بات پر مجھ سمیت سب ہی کو بہت حیرانی ہوئی۔ شعیب صدیقی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنادی گئی جس کے اراکین میں منصور قاضی، ڈاکٹر فریدقادری، عابد الیاس اور تجویز کنندہ ڈاکٹر فیاض عالم شامل تھے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ پارک میں روشنی کا انتظام بہتر کیا جائے اور سفاری ایریا میں لوگوں کے جانے کے لیے بسیں چلائی جائیں۔ 15 جون 2004ء کو ایک سادہ سی تقریب منعقد کی گئی جس میں میڈیا کے نمائندے بھی شامل تھے۔ سفاری ایریا میں جانے کے لیے کوچز چلائی گئیں اور برسوں سے بند سفاری ایریا کو عوام کے لیے کھول دیا گیا۔
اگلے روز جب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نمایاں خبریں اور رپورٹس نشرہوئیں تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے بیوی بچوں سمیت سفاری پارک کا رخ کرلیا۔ اگلے چند مہینوں میں سفاری پارک کے لیے بہت سارے جانور خریدے گئے اور وہیلر ٹرین سمیت کئی دیگر سہولتوں کا اضافہ بھی کیا گیا۔ گلشن اقبال کے ٹاؤن ناظم عبدالوہاب نے پارک کو 6 جوڑے شتر مرغ کا تحفہ دیا۔ 20 تا 26 مارچ 2005ء سفاری پارک میں چھ روزہ برڈ شو کا اہتمام کیا گیا۔ برڈ شو کا افتتاح سابق گورنر سندھ معین الدین حیدر نے کیا۔ ہمارے ایک دوست ممتاز شمیم جو کہ صنعت کار ہیں اور قیمتی پرندے پالنے کے شوقین ہیں، انہوں نے اس برڈ شو کے انعقاد میں بے حد تعاون کیا۔ کروڑوں روپے کے رنگ برنگے طوطے برڈ شو میں لاکر رکھے اور خود بھی اپنے بچوں کے ساتھ اپنے اسٹال پر موجود رہے۔ اس ایونٹ کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا۔
اس کے بعد لاہور کے چڑیا گھر کی طرز پر شیروں کا 4 ایکڑ رقبے پر انکلوژر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 10ملین روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے اس منصوبے میں شیروںکو قدرتی ماحول فراہم کرنے کے لیے دو غاروں کا انتظام بھی شامل تھا۔ اس کا ٹینڈر ہوگیا تھا اور میری مدت نظامت ختم ہونے سے قبل کام کا آغاز بھی ہوگیا تھا۔ ای ڈی او انویسٹمنٹ پروموشن رئیس پراچہ کے ریفرنس سے میجر ریٹائرڈ خالد نے رابطہ کیا۔ وہ ایوبیہ مری میں نصب لفٹ چیئر کی کمپنی کے مالک تھے۔ کو ئٹہ کی ہنہ جھیل پر ان کی ایک چیئر لفٹ نصب تھی جسے نکال کر وہ کسی دوسرے تفریحی مقام پر لگانا چاہ رہے تھے۔ ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر آصف خان اور منصور قاضی نے اُن سے قانونی معاملات طے کیے اور لیگل ڈپارٹمنٹ کی منظوری کے بعد سفاری پارک میں چیئر لفٹ کی تنصیب کا معاہدہ طے پاگیا۔ 21 جون 2005 ءکو میرے دفتر میں ملک خالد اور راقم نے اس معاہدے پر دستخط کر دیے۔ ڈی سی او فضل الرحمٰن اور رئیس پراچہ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ معاہدے کے تحت اس کمپنی کو دس سال کا ٹھیکہ دیا گیا تھا جس کے عوض کمپنی سٹی گورنمنٹ کو پچاس لاکھ روپے سالانہ دینے کی پابند تھی۔ بعد ازاں چیئر لفٹ نصب کردی گئی اور شہریوں نے اسے ایک اچھی تفریحی سہولت قرار دیا، لیکن ایک آدھ سال بعد ہی کمپنی نے بوجوہ چیئر لفٹ سفاری پارک سے کسی اور مقام پر منتقل کردی اور سندھ میں نصب کی جانے والی پہلی چیئر لفٹ کا منصوبہ نامعلوم وجوہات کے سبب شروع ہونے کے کچھ عرصے بعد ختم ہوگیا۔
کراچی زو کی بہتر
کراچی کے شہریوں خاص طور پر بچوں کی مثبت تفریح کے لیے 42 ایکڑ رقبے پر بنے ہوئے چڑیا گھر (گاندھی گارڈن) کا حال سفاری پارک جیسا تو نہیں تھا لیکن اس میں بہتری کی بہت گنجائش موجود تھی۔ جانوروں کی اقسام اور تعداد میں کمی کی وجہ سے یہاں آنے والوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی۔ میں نے چڑیا گھر کی انتظامیہ سے کہا کہ نئے جانور اور پرندے خریدے جائیں۔ حکومت ِسندھ کے محکمۂ وائلڈ لائف کے سیکرٹری سے بات کرکے سندھ آئی بیکس اور اڑیال بطور تحفہ حاصل کیے گئے۔ اس دوران لاہور زو اور کراچی زو کے درمیان اضافی جانوروں کا تبادلہ عمل میں آیا۔ ڈاکٹر فیاض، منصور قاضی اور ڈاکٹر کاظم کراچی سے جانور لے کر بذریعہ ٹرین لاہور گئے اور وہاں سے جانور لے کر آئے۔ لاہور سے آنے والے جانوروں میں شیر اور بنگال ٹائیگر بھی شامل تھے۔ کراچی اور لاہور زو کے درمیان جنگلی جانوروں کا تبادلہ پہلی بار ہوا تھا۔ اس دوران زو میں میوزیم، مچھلی گھر اور سانپ گھر کی تزئین و آرائش بھی کروائی گئی اور ایک بین الاقوامی سیمینار بھی منعقد کیا گیا۔
دامن کوہ پارک نہ بن سکا
کراچی میں شہریوں کی سیر و تفریح کے لیے اسلام آباد کی طرز کا عظیم الشان منصوبہ ’’دامنِ کوہ‘‘ متحدہ کی منفی طرزِ سیاست کی نذر ہوگیا۔ نارتھ ناظم آباد ٹائون کے بلاک S اور T کے درمیان میں پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا ریزروائر موجود تھا۔ پندرہ بیس برس سے یہ ریزروائر بند تھا۔ اس کے متعلق واٹر بورڈ کے افسران کی رپورٹس موجود تھیں کہ یہ اب قابلِ استعمال نہیں ہے۔ ڈی جی پارکس لیاقت قائم خانی نے اس مقام پر ایک بڑے پارک کا منصوبہ پیش کیا۔ پہاڑی کے دامن میں واقع ہونے کی وجہ سے اس کا نام دامنِ کوہ تجویز کیا گیا۔ 9مئی2005 ءکو ایک بڑی تقریب میں اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ لیاقت قائم خانی نے دامنِ کوہ پارک منصوبے کی تفصیلی بریفنگ دی جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے۔ کام شروع ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر اور متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما وسیم اختر کچھ اراکینِ اسمبلی و کارکنان کے ہمراہ وہاں پہنچے اور کام بند کروا دیا۔ محکمۂ باغات کے عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ جواز یہ پیش کیا کہ ہم اس ریزروائر کو دوبارہ قابلِ استعمال بنائیں گے۔ شہر میں پانی کی فراہمی زیادہ اہم مسئلہ ہے ناکہ تفریحی مراکز۔ نتیجہ یہ نکلا کہ نہ تو دامنِ کوہ بن سکا اور نہ ہی ریزروائر بحال ہو سکا۔ مجھے اس منصوبے کے اس طرح ختم ہونے سے بہت دکھ ہوا کیونکہ کئی عشروں سے نارتھ ناظم آباد کا رہائشی ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ میرے دل کے بہت قریب تھا اور مجھے لگتا تھا کہ شہر کے لاکھوں لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ دامنِ کوہ پارک آکر سکون کے کچھ لمحات گزار سکیں گے۔
سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پر خصوصی توجہ
ہماری اکثر میٹنگز میں اس مسئلے پر ضرور بات ہوتی کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ کراچی میں یومیہ پیدا ہونے والے کچرے کی مقدار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کچرے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مناسب طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے بہت سارے مقامات خاص طور پر کچی آبادیوں میں غیر قانونی طور پر کچرا جلانے سے ماحولیاتی آلودگی خطرناک صورتِ حال اختیار کرگئی ہے۔ کچھ لوگوں کو شکایت ہوا کرتی تھی کہ ان کے علاقوں میں کچرا ٹھیک طرح نہیں اٹھایا جاتا۔ یہ شکایت اُن علاقوں میں زیادہ تھی جہاں یونین کونسل اور ٹاؤن کے ناظمین کا تعلق جماعت اسلامی سے نہیں تھا۔ کروڑ ہا روپے سالانہ خرچ کرنے کے بعد بھی صورتِ حال اطمینان بخش نہیں تھی گو کہ ماضی کے مقابلے میں بہت بہتری آگئی تھی۔ کچھ لوگوں کی تجویز تھی کہ ’’سالڈ ویسٹ مینجمنٹ‘‘ کے شعبے کی نج کاری کر دی جائے۔ اس حوالے سے بعض کمپنیوں نے اپنی دلچسپی بھی ظاہر کی۔ انجینئر اظہار الحق نے اس پیچیدہ مسئلے کے حل کے لیے ایک جامع پلان ترتیب دیا۔ وہ ماحولیات سے متعلق ایک مشاورتی فرم میں اہم عہدے پرفائز تھے۔ مجوزہ منصوبے کے مطابق پہلے مرحلے میں پہلے سے مختص شدہ دو لینڈ فل سائٹس، یعنی جام چاکرو، سرجانی ٹاؤن اور دیہہ گنڈل پاس نزد ناردرن بائی پاس کو جدید سہولتوں سے آراستہ کرنا، اور دوسرے مرحلے میں لینڈ فل سائٹ تک کچرا پہنچانے کے لیے ہر ٹائون میں ’’گاربیج ٹرانسفر اسٹیشن‘‘ قائم کرنا شامل تھے۔ اس کے لیے 5 ٹائونز میں زمین تلاش کرلی گئی اور ٹینڈر بھی جاری کردیے گئے۔ باقی کے لیے کوششیں جاری تھیں۔ منصوبے کے مطابق دو منزلہ گاربیج ٹرانسفر اسٹیشن کے گرائونڈ فلور پر بڑی گاڑیاں اور ٹرالر کچرا اتاریں گے، جبکہ چھوٹی گاڑیاں پہلی منزل پر کچرا ڈالیں گی، ہر ٹرانسفر اسٹیشن کے لیے 16 گاڑیاں مختص کی جائیں گی اور ہر گاڑی کچرا اٹھانے کے لیے 10 گھنٹوں میں 4 پھیرے لگائے گی۔ سٹی گورنمنٹ نے اس سارے عمل میں ترغیب کا عنصر شامل کرتے ہوئے ٹائونز کو کچرا اٹھانے کی مد میں دی جانے والی رقم کو لینڈ فل سائٹ پر پہنچائے جانے والے کچرے کے وزن سے منسلک کردیا۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ کچرے کاوزن کرنے کا مناسب انتظام ہو۔ لینڈ فل سائٹ پر وزن کرنے والا کانٹا تو نصب تھا لیکن عرصۂ دراز سے خراب تھا، کسی کو اس جانب توجہ دینے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ یہ طے پایا کہ ہر لینڈ فل سائٹ پر کمپیوٹرائزڈ کانٹا نصب کیا جائے گا۔ اس طرح توقع پیدا ہوگئی تھی کہ ٹائونز سے کچرا لانے والی گاڑیاں پیسے ملنے کی وجہ سے دوسرے ٹائونز سے بھی کچرا اٹھائیں گی۔ اور تیسرے مرحلے میں گھروں سے کچرا اکٹھا کرنے کے لیے سائیکل، موٹر سائیکل ٹرالی استعمال کرنے کا پروگرام ہمارے منصوبے میں شامل تھا۔ یہ چیزیں اتنی عمدگی سے باہم مربوط تھیں کہ ڈی سی او سمیت تمام افسران نے اسے بے حد مفید اور قابلِ عمل قرار دیا۔ بدقسمتی سے میری نظامت ختم ہونے کے بعد اس منصوبے میں زیادہ دلچسپی نہ لی گئی اور آنے والے سالوں میں یہ مسئلہ بد سے بد تر ہوتا چلا گیا۔
مختلف سروے رپورٹس اور مشاہدے کے نتیجے میں یہ بات بالکل واضح تھی کہ ’’سمندری آلودگی‘‘ تشویش ناک صورت اختیار کرگئی ہے۔ کراچی میں گھریلو اور صنعتی استعمال شدہ بیشتر گندہ پانی واٹر بورڈ کے ٹریٹمنٹ پلانٹس کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے بغیر صاف ہوئے سمندر میں جا رہا تھا۔ اس کے لیے بھی اظہار الحق نے Waste Water Recycling Project تیار کیا۔ اس کے لیے پہلے مرحلے میں سائٹ میں واقع ٹریٹمنٹ پلانٹ ون کے ساتھ ایک اور جدید پلانٹ نصب کیا جانا تھا جس میں سے گندہ پانی گزر کر صنعتی اداروں کے لیے دوبارہ قابلِ استعمال بن سکتا تھا۔ اس منصوبے پر کام کرنے کے لیے ایک آسٹرین کمپنی سے معاہدہ کیا گیا۔مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے اور ٹینڈر جاری کرنے کی تیاری شروع کردی گئی۔ لیکن مہلت ختم ہوگئی اور اس اہم منصوبے کو اس وقت عملی شکل نہ دی جاسکی۔ یہی معاملہ شہر میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پانی کی قلت کو دور کرنے کے منصوبے کا تھا۔ روزِ اوّل سے فراہمی آب کے مختلف پراجیکٹس کے حوالے سے غور کیے جانے کے دوران سمندری پانی کو ’’ڈی سیلی نیشن‘‘ کے ذریعے پینے کے قابل بنانے کے لیے منصوبہ تیار کیا گیا۔ 25 ملین ڈالر کی لاگت اور BOT کی بنیاد پر تیار ہونے والے اس منصوبے کو تین سال کی مدت میں مکمل ہونا تھا۔ ایک امریکن کمپنی نے اس منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی۔ سٹی گورنمنٹ نے اس کمپنی سے بھی ایم او یو(مفاہمتی یادداشت) سائن کیا۔
نظامت کے دوران جہاں بہت سارے کاموں کے لیے بہت سوچ بچار اور تفصیلی جائزہ لیا جاتا تھا، وہیں بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اچانک پیش آنے والا کوئی واقعہ کسی اہم منصوبے کا سبب بن گیا۔ ’’ایگروسٹی ‘‘ کا منصوبہ بھی ان میں سے ایک تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ گوشت فروشوں نے قیمتوں میں اضافے کے لیے مطالبات کیے اور چند دن بعدہڑتال کردی۔ جواز یہ پیش کیا کہ ہمیں جانور مہنگے داموں خریدنا پڑ رہے ہیں، اس لیے کم ریٹ پر گوشت فروخت کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان کی نمائندہ انجمن سے مذاکرات کرکے قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی بات پر اَڑے رہے۔ خدا خدا کرکے رکاوٹیں دور ہوئیں تو دوسری طرف دودھ فروشوں نے ہڑتال کردی کہ چارے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اس لیے دودھ کے ریٹ میں اضافہ کرنا ہماری مجبوری ہے۔ بیک وقت دو محاذوں پر مقابلہ کرنے کے دوران اور باہمی مشاورت سے یہ حقیقت سمجھ میں آگئی کہ جب تک ہم بنیادی ضروریات کے معاملے میں خودکفیل نہیں ہوں گے اُس وقت تک مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ اب کیا، کیا جائے؟ بہت سوچ بچار کے بعد ایک تجویز سامنے آئی کہ کوئی ایسی جگہ تلاش کی جائے جہاں دودھ والے جانوروں کے لیے چارہ اگایا جاسکے۔ احباب نے بڑی تگ و دو کے بعد پیپری کے مقام پر سٹی گورنمنٹ کی زمین ڈھونڈ نکالی جس کا رقبہ 3 ہزار ایکڑ کے لگ بھگ تھا۔ کسی زمانے میں ’’کچرا ٹرین‘‘ شہر سے کچرا لاکر یہاں ڈمپ کرتی تھی۔ نامعلوم کس وجہ سے وہ سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔ بہرحال جگہ موجود تھی۔ جگہ دیکھنے کے بعد اظہار الحق اور دیگر احباب نے مشورہ دیا کہ جب جگہ وافر میسر ہے تو صرف چارہ ہی کیوں اگایا جائے؟ یہاں تو کیٹل فارمنگ، فش فارمنگ، پولٹری فارمنگ کے علاوہ سبزیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں۔ یہ بھی سوچا گیا کہ پراجیکٹ کو صرف مویشی پالنے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ذبح کرکے گوشت شہر میں فراہم کرنے کے لیے مذبح خانہ ہو، اور یہاں سے نکلنے والی باقیات سے بجلی پیدا کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ اس منصوبے کو ’’ایگروسٹی‘‘ کا نام دیا گیا۔ شہری حکومت کی مخلصانہ کاوش اور مفادِ عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مشاورتی فرم ’’حسنین کو ٹیکس‘‘ نے بلامعاوضہ ایک فزیبلٹی تیار کرکے دی۔ یہ کمپنی اس سے قبل لاہور میں بھی چند بڑے منصوبوں پر کام کرچکی تھی۔ ’’ایگرو سٹی‘‘ منصوبے میں کئی بڑی کمپنیوں نے دلچسپی لی اور ہم نے کچھ کمپنیوں کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے، لیکن کچھ ہی عرصے میں میری نظامت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔ اگر بعد میں نظامت کی ذمہ داری سنبھالنے والے مصطفیٰ کمال اس منصوبے میں دلچسپی لیتے اور اسے مکمل کرواتے تو طویل عرصے تک شہر دودھ، گوشت، سبزیوں کے بحران سے محفوظ ہوجاتا۔ بقول غالب
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
کتاب کے آخر میں کچھ ایسے خاص افراد کا ذکر ضروری ہے جن سے عام طور پر حکومتی ذمہ داران کے تعلقات اچھے نہیں رہ پاتے، خاص طور پر ہماری طرح کے لوگوں سے، جو چائے بسکٹ سے زیادہ کسی کی تواضع بھی نہیں کر پاتے اور نہ ہی اشتہارات کو ہتھیار کی طرح استعمال کرسکتے ہیں۔ میری مراد اہلِ صحافت سے ہے۔ حیران کن طور پر میرا واسطہ جن صحافیوں سے پڑا وہ سب کے سب مثبت سوچ اور طرزِ عمل کے حامل نکلے۔ تنقید بھی تعمیری انداز میں کرتے اور اچھے کاموں کی پذیرائی بھی کرتے تھے۔ بہت جلد محبت، عزت اور احترام کا رشتہ قائم ہوگیا اور مجھے رپورٹر حضرات اپنی ٹیم کا حصہ لگنے لگے۔ شاہد مصطفیٰ اور اسلم شاہ کبھی کبھی شرارتیں کرتے تھے، لیکن مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ دل کے صاف لوگ ہیں اور شہر کے مسائل کے حوالے سے مخلص بھی ہیں۔ ایڈیٹرز اور مالکان کی سطح پر بھی بہت محبت اور سرپرستی ملی، خاص طور پر میر شکیل الرحمٰن، حمید ہارون، محمود شام، مدثر مرزا، نذیر لغاری، ادریس بختیار، اطہر ہاشمی، سجاد میر، نصیر ہاشمی، احمد حسن، ابرار بختیار، رفیق افغان وغیرہ نے بہت تعاون کیا۔ جبکہ رپورٹرز میں سے جنگ کے طاہرعزیز، ڈان کے عزیزاللہ شریف، پی ٹی وی کے شبیر ابن عادل، جیو کے عامر احمد خان اور فیصل عزیز، ایکسپریس کے فیصل حسین، نوائے وقت کے شہزاد چغتائی، دی نیوز کے موسیٰ کلیم، آن لائن کے عامر لطیف، اسٹار کے اشرف، جرأت کے اسلم شاہ، کائنات کے شاہد مصطفیٰ، خبریں کے عامر نثار، امت کے شمیل احمد، نعمان لاری اور شبیر سومرو، جسارت کے راجا کامران اور اشتیاق لودھی، اور قومی اخبار کے صابر قریشی نے چار سال تک مثبت رپورٹنگ اور متوازن تنقید سے مسلسل ہماری حوصلہ افزائی کی۔
ذرائع ابلاغ کی انتظامی کی ٹیم کے افسران نجم الدین سکندر، بشیر سدوزئی، ظفر احسان، عبدالقدیر، ستار جاوید اور علی حسن ساجد نے بھی اپنی ذمہ داریوں کو بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ نبھایا اور فرائض کی ادائیگی کے دوران کبھی اوقاتِ کار کا شکوہ نہیں کیا، کیونکہ اکثر اوقات رات گئے تک مصروفیات جاری رہتی تھیں اور تہواروں کے دنوں میں بھی میڈیا کا دفتر کم ہی بند ہوا کرتا تھا۔ جماعت نے میڈیا کے حوالے سے جن لوگوں کی ذمہ داری لگائی تھی، انہوں نے بھی صحافیوں سے بہت اچھا تعلق قائم کرلیا تھا، جس کی وجہ سے ہمیں اس شعبے میں کبھی کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میڈیا کی ٹیم میں ڈاکٹر فیاض، حنیف اکبر، قاضی سراج، نوفل شاہ رخ اور انصار رضی شامل رہے، جبکہ کونسل کے اراکین میں سے مسلم پرویز، قاضی صدرالدین اور عابد الیاس نے بہت اہم کردار ادا کیا۔
کراچی کے عوام کی خدمت کا حق ادا کرنے کے لیے نہ ایک عمر کافی ہے، نہ ہی محدود اختیارات اور مالی وسائل کے ساتھ چار سال کی نظامت! اس شہر کے مسائل گمبھیر ہیں اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ صوبائی اور مرکزی حکومتیں اس کے مسائل کے حل میں پوری دلچسپی نہیں لیتیں۔ یہ شہر ملک اور صوبے کو سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے لیکن بدلے میں اسے بہت کم مالی وسائل فراہم کیے جاتے ہیں۔ سرکاری اداروں میں سیاسی اور سفارشی بھرتیوں کے کلچر نے ان اداروں کو بھی عام آدمی کے لیے بے فیض بنا کر رکھ دیا ہے۔
سٹی گورنمنٹ کی مدت کے خاتمے کا نوٹیفکیشن موصول ہوا، افسران اور آفس کے عملے سے الوداعی ملاقات کی، سرکاری گاڑی کی چابیاں متعلقہ افسر کے حوالے کیں اورالحمدللہ ضمیر پر بغیر کسی بوجھ کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ –
اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات شامل ہے کہ ہر قسم کا عوامی یا سرکاری عہدہ ایک امانت ہوتا ہے اور آخرت میں اس کے بارے میں سخت حساب لیا جائے گا۔ جماعت اسلامی سے طویل وابستگی کے دوران بھی کبھی یہ بات میرے دل و دماغ سے نہیں نکلی، اور سٹی ناظم بننے کے بعد تو اور زیادہ احتیاط برتنے لگا کہ خدا نخواستہ کوئی ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جس کی یومِ آخرت جواب دہی کرنی پڑ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ چار سالہ دورِ نظامت میں پوری کوشش کی کہ میرے بیٹوں یا قریبی عزیزوں میں سے کوئی انتہائی ضروری کام کے بغیر سٹی گورنمنٹ کے دفتر نہ آئے، اور نہ ہی کسی افسر کو میری قرابت داری کا حوالہ دے کر کوئی کام کہے۔ الحمدللہ میرے بیٹوں اور عزیزوں نے اس بات پر پوری طرح عمل کیا اور افسران اور عملے کی ٹیم چار سال بعد بھی میرے تمام بیٹوں کے نام تک سے ناواقف تھی۔
بحیثیت سٹی ناظم جو تنخواہ ملتی رہی تھی، وہ سب کی سب بینک میں جمع تھی۔ 8 اکتوبر 2005ءکو ملک کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو پوری تنخواہ کا چیک الخدمت کے زلزلہ فنڈ میں جمع کروا دیا۔
تمت بالخیر