زندگی جدوجہد کا نام ہے
پاکستان کی طرف سفر کا آغاز اجمیر اسٹیشن سے کیا۔ مارواڑ جنکشن، کھوکھراپار، پھر حیدرآباد تک کُل چار گھنٹے کا سفر تھا۔ اسٹیشن چھوٹا تھا لیکن آنے والوں اور استقبال کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہونے کے باوجود دین کے رشتے نے آپس میں بھائیوں جیسی قربت پیدا کردی تھی۔ سندھی مسلمان مہاجرین کے لیے ہاتھوں میں ہار اٹھائے قطار بنائے کھڑے رہتے۔ جوں ہی ٹرین رکتی تو استقبال کے لیے سبقت کرتے۔ یہ مناظر آج کی نسل دیکھ پاتی تو لسانیت اور عصبیت کے کانٹے دار شجر کی جڑیں کٹ جاتیں۔ افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔ اسٹیشن کے باہر عارضی قیام کے لیے عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ کیمپ لگائے گئے تھے۔ غالباً ہارون الرشید کی والدہ نے کسی طریقے سے اپنی آمد کی اطلاع دے دی تھی، اس لیے وہ جلد ہی اسٹیشن پہنچ گئے اور قریب ہی ایک محلے میں واقع اپنے گھر لے گئے۔ فلیٹ ٹائپ کا مکان دلوں کی کشادگی کی وجہ سے خاصا وسیع معلوم ہوا۔ دو یا تین دن قیام کے دوران ذہن بنا لیا تھا کہ کراچی جانا ہے۔ جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی لیکن کراچی میں مقیم ابا کے دوست نبی داد خان اعوان کے گھر کا پتا موجود تھا۔ ہارون الرشید کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرکے کراچی آنے کے لیے اسٹیشن پہنچا۔ یہاں ارتضیٰ بیگ صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ابا کے ساتھ آر۔ایم۔ایس میں ملازمت کرتے تھے۔ پوچھنے لگے: کہاں؟ میں نے بتایا کہ کراچی جانے کا ارادہ ہے، تو ہاتھ پکڑ کر ایک جانب لے گئے اور جیب سے دس روپے نکال کر میری مٹھی میں تھما دیے۔ رکھ لو! راستے میں کام آئیں گے۔ دل کو ڈھارس ہوئی۔ دس روپے ملنے کی خوشی حواس پر کچھ ایسی طاری ہوئی کہ ان کا شکریہ ادا کرنا بھی بھول گیا۔ ٹرین میں سوار ہوتے وقت شام کے سائے افق کو اپنے دامن میں سمیٹ چکے تھے۔ کوئی ڈھائی گھنٹے ٹرین چلنے کے بعد سٹی اسٹیشن کے سامنے رک گئی۔ 28 اگست 1947ء کو کراچی میں قدم رکھا۔ رات کی تاریکی چہار جانب مکمل پھیل چکی تھی۔ کھانا ہارون الرشید کے گھر سے کھا کر چلا تھا، اس لیے بھوک سے زیادہ نیند میرے لیے مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ ہاتھ میں کپڑوں کا تھیلا تھا۔ اسٹیشن کے سامنے کاٹن ایکسچینج بلڈنگ کے فٹ پاتھ پر نظر پڑی۔ دیکھا تو کوئی ڈیڑھ درجن سے زائد افراد وہاں بے فکری سے سوئے ہوئے تھے۔ میں نے بھی کپڑوں والے تھیلے کو تکیہ بنایا اور سونے والوں کی صف میں شامل ہوگیا۔ تھکاوٹ اس قدر شدید تھی کہ کچھ ہی دیر میں گہری نیند آگئی اور پھر فجر کی اذان سے آنکھ کھلی۔ کراچی کی پہلی رات اور وہ بھی فٹ پاتھ پر، میں کبھی نہیں بھولا۔ صبح پہلا خیال یہ آیا کہ نبی داد خان صاحب کا گھر تلاش کرنا چاہیے۔ خستہ حال پرچی پر درج پتا پوچھتے پاچھتے جٹ لائن کے سرکاری کواٹرز پہنچ گیا جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔ زندگی میں پہلی بار ٹرام کی سواری کا موقع ملا جو ٹاور سے صدر تک چلتی تھی۔ نبی داد خان اعوان اپنا تبادلہ کراچی کے آر۔ایم۔ایس کرا چکے تھے۔ ان کی اہلیہ میرے رشتے کے ماموں کی بیٹی تھیں، اس لیے جب گھر پہنچا تو انہوں نے خوش دلی کے ساتھ استقبال کیا اور جتنے عرصے بھی وہاں رہا اپنی حیثیت سے بڑھ کر آؤ بھگت کی۔
ہجرت بھی خیریت سے ہوگئی۔ ٹھکانا بھی مستقل نہ سہی، عارضی میسر آگیا۔ فکر ہوئی اب کام کاج ڈھونڈا جائے۔ ویسے بھی زیادہ عرصہ کسی پر بوجھ بننا بے زاری کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے اجمیر سے ہجرت کرکے آنے والے ابا کے دوستوں کے پتے معلوم کرکے رابطے شروع کیے۔ سید نصرت علی ان میں سے ایک تھے، نہایت نفیس اور شفیق انسان۔ ملاقات ہوئی تو بہت توجہ سے ہجرت کا احوال، اہلِ خانہ کے حالات اور رہائش کے متعلق معلوم کیا۔ نوکری کرو گے؟ انہوں نے پوچھا۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں، بغیر سوچے سمجھے ہاں کردی۔ اُس وقت سرکاری محکموں میں مردانِ کار کی قلّت تھی، اس لیے تگڑی سفارش اور رشوت کے بغیر ہی ملازمت مل جایا کرتی تھی۔ شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ تو پہلے ہی سیکھ چکا تھا۔ سید نصرت علی ابا کے ساتھ ڈاک سروس میں سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے ملازمت کرنے کے ساتھ سردار عبدالرب نشتر کے ذاتی معاون بھی تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے سردار عبدالرب نشتر کے اجمیر تشریف لانے پر میرا تعارف بھی کرایا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد سردار صاحب جب مواصلات کے وزیر بنے تو یہ ان کے ساتھ ہی رہے۔ ان کے توسط سے انکم ٹیکس کے محکمے میں نوکری مل گئی (انہوں نے اپنے ایک واقف کار کے پاس بھیجا اور انہیں فون کرکے کہا کہ اگر نوجوان کام کا ہو اور میرٹ پر پورا اترے تو رکھ لیجیے گا۔ مجھ سے فرمایا کہ زندگی میں کبھی سفارش کو ترقی کا ذریعہ مت بنانا)۔ ابھی ایک ہی مہینہ گزرا تھا اور تقرری کا خط بھی نہیں ملا تھا کہ حبیب بینک میں جگہ خالی ہونے کا اشتہار روزنامہ ڈان میں پڑھا۔ بغیر اطلاع دیے وہاں بھاگ گیا۔ حبیب بینک کا صدر دفتر اُس وقت نیپئر روڈ پر تھا۔ پیر بھائی نام کے ایک افسر تھے جو بینک ملازمت کے لیے آنے والوں کا انٹرویو لے رہے تھے۔ میرا نمبر آیا تو ڈکٹیشن لکھوائی اور حکم دیا کہ پڑھ کر سناؤ۔ خدا بھلا کرے یادداشت کا، بغیر دیکھے سنا دیا تو بہت خوش ہوئے۔ ”میرے ساتھ آؤ“۔ اپنے دفتر میں لے گئے اور انتظامی معاملات کے حوالے سے التوا کا شکار خطوط کا پلندہ مجھے تھما دیا اور کہا ”انہیں ٹائپ کر کے لاؤ“۔ ٹائپنگ کی رفتار مناسب تھی، اس لیے اچھے خاصے خطوط ٹائپ کرکے دے دیے۔ ملازمت مل گئی۔ ملازمت کے دوران اگلے نو ماہ تک میری رہائش نبی داد خان اعوان صاحب کے ساتھ ہی رہی۔ نوکری کا اگلا لنگر سمندری نمک بنانے والی کمپنی گریکس سالٹ میں ڈالا۔ اس کا دفتر ٹاور پر تھا۔ اس کے بعد خوب سے خوب تر کی جستجو گریوز اینڈ کامپٹن لے گئی۔ مختصر عرصے کے لیے ڈینسو ہال پر واقع کمپنی کے دفتر میں 175روپے ماہوار پر ملازمت کرنے کے بعد ہارکنسن لمیٹڈ کا رخ کیا۔ اب تنخواہ 190روپے تھی۔ طبیعت اکتا گئی تو ٹاور کے سامنے ایلومینیم پاکستان کا دفتر میری جائے ملازمت بن گیا۔ کچھ وقت گزرا، سندھ پرچیزنگ بورڈ پہنچ گیا۔ یہ نیم سرکاری ادارہ سندھ سے باہر غلہ برآمد کرتا تھا۔ غصیلے قسم کے جنرل منیجر کی ماتحتی نصیب میں آئی۔ موصوف ناگپور میں ڈپٹی کمشنر رہ چکےتھے۔ افسروں والی خُو بُو میں مکمل رچے ہوئے۔ کمپنی کے چیئرمین جمشید نسروانجی مہتا تھے۔ 1930ء میں ممبئی سے علیحدہ ہونے کے بعد کراچی کے پہلے میئر رہ چکے تھے۔ وہ کمپنی آتے اور نوٹس لکھوانے کے لیے کوئی دستیاب نہیں ہوتا تو جنرل منیجر کے ماتحت کی حیثیت سے میں ان کے پاس چلا جاتا۔ تھوڑے ہی دن یہ سلسلہ چلا ہوگا، ایک دن کہنے لگے ”نعمت اللہ میں مصروف ہوتا ہوں، تم ایسا کرو گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھ جایا کرو، ڈکٹیشن لکھوا دیا کروں گا“۔ راستے بھر مختصر نویسی میں اس قدر منہمک رہتا کہ پتا ہی نہیں چلتا کب ان کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ وسیع گھر کے کشادہ لان میں دیوار کے ساتھ کرسیوں پر سائلین اپنے مسائل بیان کرنے کے لیے پہلے سے موجود رہتے تھے۔ نسروانجی باری باری سب سے ملاقات کرتے اور وہیں احکامات جاری کرتے۔
نئے وطن میں اب کچھ کچھ قدم جمنے لگے تھے۔ اس لیے 1948ء میں شاہ جہاں پور جاکر چھوٹے بھائی علیم کو اپنے ہمراہ کراچی لے آیا اور C.M.Sہائی اسکول برنس روڈ پر چوتھی جماعت میں داخل کروا دیا۔ ایک سے دو ہونے کے بعد خیال آیا کہ رہنے کے لیے اپنا کوئی ٹھکانا کرنا چاہیے۔ حالانکہ نبی داد خان اعوان نے بہت اصرار کیا لیکن میں نے شکریہ ادا کیا اور پی آئی بی میں ایک قدیم مکان پچیس روپے ماہانہ کرائے پر حاصل کیا۔ گھر کیا تھا چھوٹا سا کمرہ، ذرا سا صحن، بیت الخلاء، اور غسل خانہ، اللہ اللہ خیر صلا۔ کچھ عرصے کے بعد مالک نے تعمیر کے لیے مکان خالی کرا لیا تو لیاری چلے گئے اور کچی سڑک پر کمرہ لے لیا۔ یہاں کچھ دن رہے۔ دفتر سے فاصلہ بہت زیادہ تھا اس لیے بندر روڈ پر نگار سنیما کے نزدیک مولوی مسافر خانے میں دو چارپائیاں کرائے پر لے لیں۔ جس جگہ آج کل قائداعظم کا مزار ہے، اُس وقت یہ علاقہ قائد آباد کہلاتا تھا۔ چند ہفتوں کے بعد وہاں گھاس پھونس سے بنی ہوئی آٹھ دس فٹ چوڑی جھونپڑی خریدلی۔ پاکستان آنے کے بعد کئی لوگوں نے مشوره دیا تھا کہ کلیم فارم بھر دو تاکہ تمہیں ہندوستان میں چھوڑے ہوئے مکان کے بدلے میں کراچی میں حکومت کوئی مکان الاٹ کردے۔ کچھ لوگوں نے یہ تک کہا کہ جھوٹا کلیم داخل کردو اور بڑا مکان لینے کی کوشش کرو۔ میرے دل نے ایسے ہر مشورے کو مسترد کردیا۔ میں نے کوئی کلیم داخل نہیں کیا۔ چھوٹا سا مکان لینے کی کوشش بھی کبھی نہیں کی۔ جھونپڑی کو محل سمجھا اور عزم کرلیا کہ خوب محنت کروں گا اور اپنی حلال کی کمائی سے مکان بناؤں گا۔
یہ ہے تمہارا گھر۔۔۔۔!
اب میں صاحبِ مکان تھا۔ مختصر سی جگہ میں غسل خانہ اور بیت الخلاء بھی بنایا۔ لالٹین روشنی کا واحد سہارا تھی۔ پانی کا حصول سرکاری نل سے ممکن تھا۔ صبح ڈیوٹی پر جانے سے قبل کنستر بھر کر لاتا۔ چھوٹے بھائی نے اندازہ لگایا تمام سہولیات میسر آگئی ہیں، اب اماں جان کو یہاں بلانے میں کوئی حرج نہیں۔ خط لکھا ”بھائی صاحب نے ذاتی مکان بنا لیا ہے، آپ سب لوگوں کے ساتھ بلا تاخیر تشریف لے آئیں۔“
خط ملنے کے کچھ ہی دن بعد اماں، چھوٹی بہن اور بھائی کے ساتھ بذریعہ ٹرین کراچی پہنچ گئیں۔ جھونپڑی دیکھ کر ناراض ہوئیں اور کہا ”یہ ہے تمہارا گھر…!“ ان کی اس خفگی سے قبل ہی میرے ذہن میں یہ خیال تقویت پا چکا تھا کہ اب سرکاری ملازمت کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے سرکاری مکان بھی مل سکے۔ اماں کی ڈانٹ نے فیصلے کے لیے حرفِ آخر کا کام کیا۔ سرکاری نوکری وزارتِ دفاع کے ذیلی محکمے آئی ایس آئی میں ملی۔ ڈائریکٹوریٹ میں جوائننگ دی جس کا دفتر پریس کلب کے سامنے تھا۔ یہاں وزارتِ دفاع کے اور دفاتر بھی تھے۔ پاسپورٹ آفس سے متصل مسجد خضرا کے آس پاس پورے پاکستان کا سیکریٹریٹ قائم تھا۔ نواب زادہ لیاقت علی خان ملک کے پہلے وزیراعظم تھے۔ حکومت نے شہنشاہ ایران کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی۔ آئی ایس آئی کے دفتر کا دورہ بھی مہمان کے شیڈول میں شامل تھا۔ کرنل یعقوب خان انٹیلی جنس سروسز کے انچارج تھے۔ موصوف بعد میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ پھر مشرقی پاکستان کے گورنر اور 80ء کی دہائی میں پاکستان کے وزیر خارجہ بھی رہے۔ غصے کے تیز اور ڈسپلن کے شدید قائل کرنل کے سامنے شہنشاہ ایران کی گاڑی آ کر رکی۔ وہ استقبال کے لیے آگے بڑھے، جانے کہاں سے چائے کے ہوٹل والا ایک بچہ کپ اٹھائے وہاں آنکلا۔ کرنل کو پروٹوکول کے درمیان مداخلت پر شدید سبکی ہوئی۔ غصے کے عالم میں اور تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا، بچے کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر فضا میں بلند کیا اور تیزی سے واپس زمین پر رکھ دیا۔ میں یہ منظر اپنے کمرے سے دیکھ رہا تھا۔ خیال آیا کہ ان کی جگہ کوئی سویلین ہوتا تو شاید ایسا نہ کرتا۔ بعد ازاں جب کرنل یعقوب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو بہت نرم مزاج، شفیق، صاحبِ مطالعہ اور مہذب انسان پایا جو دیگر فوجی افسران سےالگ مزاج رکھتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ کسی انسان کے مزاج اور شخصیت کو ایک واقعہ سے نہیں پہچانا جا سکتا۔
اُس زمانے میں آئی ایس آئی کا کام قدرے محدود اور مختلف تھا، لیکن اُس وقت بھی بھارت کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھی جاتی تھی۔ دفتر گھر سے نزدیک تھا، مسجد بھی وہیں تھی۔ بارشوں کا موسم تھا، سوچا نمازِ عصر دفتر کی مسجد میں ادا کر لوں پھر گھر چلتا ہوں۔ ابھی نیت باندھی ہی تھی کہ بادلوں کی گڑگڑاہٹ نے ماحول ہی نہیں دل بھی دہلا کر رکھ دیا۔ خیال آیا خدا خیر کرے آشیانہ تنکوں کا ہے، بکھر کر نہ رہ جائے۔ جلدی جلدی نماز مکمل کی۔ پتلون کے پائنچے گھٹنوں تک اوپر کیے اور چل پڑا جھونپڑی بچانے، جو مزارِ قائد کے نشیبی حصے میں تھی۔ دیکھا تو آدھی پانی میں ڈوب چکی تھی۔ بمشکل اندر داخل ہو پایا۔ اماں جی چولہا چارپائی پر رکھے کھانا پکانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔ نظر پڑی تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ زار و قطار رونے لگیں۔ بہن بھائی ایک کونے میں سکڑے بے بس نگاہوں سے مجھے تک رہے تھے۔ برسات کا پانی کئی دن تک زبردستی کے مہان کی طرح گھر میں موجود رہا۔ بالآخر میونسپلٹی کے اہلکاروں نے نالہ بنا کر نکاسی کا انتظام کیا۔ لطافت اللہ ہماری جھونپڑی سے تھوڑے فاصلے پر رہتے تھے۔ اماں ان کے گھر والوں کو جانتی تھیں۔ دوسرے نمبر کی بہن عزیزہ کے لیے ان کا رشتہ آیا تو کوئی خاص معاشی مصروفیت نہ ہونے کے باوجود محض کردار کی بنیاد پر ہاں کر دی۔ دو چار کپڑوں اور تھوڑے سے برتنوں کے ساتھ بہن کو رخصت کیا۔ لطافت اللہ بعد میں فارن آفس میں ملازم ہو گئے تھے۔ پھر ان کا تبادلہ تھائی لینڈ ہوگیا تو اہلیہ کو ساتھ لے گئے۔ وہیں بڑی بیٹی کی ولادت بھی ہوئی۔ ان کی دوسری بیٹی مشتاق یوسفی صاحب کی بہو ہے۔ کچھ عرصے کے بعد شہر کی انتظامیہ نے جھونپڑی مکینوں کو جیکب لائن میں کرائے پر سرکاری مکانات دے دیے۔ بہنوئی لطافت اللہ کے حصے میں بھی ایک کوارٹر آیا۔ چھ ماہ بعد حکام نے میرا تبادلہ ایئر ہیڈ کوارٹر کردیا جو ماری پور ائیربیس کے اندر تھا۔ یہاں دفتر پہنچنے کا وقت صبح ساڑھے چھ بجے مقرر تھا۔ نمائش پر ائیربیس کے فوجیوں کو لے جانے کے لیے ٹرک آتا تھا۔ سویلین ملازمین بھی اسی میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ جیکب لائن سے نمائش تک پیدل پہنچنے کے بعد ٹرک آتا تو ساری سیٹیں بھری ہوتی تھیں۔ مجبوراً کھڑے ہو کر سفر کرنا پڑتا۔ یہاں پر تنخواہ پونے دو سو روپے تھی۔
پونے دو سو روپے ماہانہ میں پوری فیملی کا گزارہ مشکل سے ہو رہا تھا، اس لیے فیصلہ کیا کہ جز وقتی ملازمت تلاش کی جائے۔ اگلے کچھ برس سخت مشقت میں گزرے۔ برلاس برادرز، اے آر جی خان اور شریف اینڈ برادرز میں پارٹ ٹائم ملازمت کی۔
ایئر بیس سے چھٹی کے بعد فوجی ٹرک سے میکلیوڈ روڈ تک آتا، جی پی او کی مسجد میں نمازِ ظہر ادا کرتا اور وہیں بیٹھ جاتا۔ مسجد کے ایک گوشے میں بیٹھ کر کھانا کھانے کے بعد پہلی جزوقتی ملازمت پر روانہ ہو جاتا۔ 3 بجے سہ پہر تک پہنچنا لازمی ہوتا تھا۔ پانچ بجے چھٹی ہوتی تو دوسری جزوقتی ملازمت کے لیے بیرسٹر اصغر کے دفتر روانہ ہو جاتا۔ رات نو بجے گھر واپس آتے ہوئے جسم تھکن سے چُور اور دماغ کام کرنے سے قاصر ہوتا۔ اگلے دن کا سورج بھی گزشتہ دن جیسی مصروفیات کے ساتھ طلوع ہوتا تھا سوائے ہفتہ وار چھٹی والے دن کے، جب مجھے صبح دیر تک پاؤں پھیلا کر سونے کا موقع ملا کرتا۔
پڑوس میں مقیم ایک صاحب نے مشورہ دیا کہ برخوردار! کچھ توجہ مزید تعلیم کے حصول پر بھی دو۔ مشورہ معقول تھا، سو عمل کرنے کا سوچا۔ نزدیک ہی ایک صاحب نے اپنے گھر میں منشی کلاسز کا آغاز کر رکھا تھا۔ اُس وقت منشی فاضل، مولوی فاضل اور اردو فاضل کا طریقہ تعلیم رائج تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے زیرانتظام وضع کردہ اس نظام کے تحت منشی فاضل میں فارسی اور مولوی فاضل میں عربی پڑھائی جاتی۔ منشی فاضل میں داخلہ تو لے لیا لیکن تین ملازمتوں کے درمیان پڑھائی کے لیے بالکل بھی وقت نہیں ملتا تھا۔ صبح ڈیوٹی پر جانے کے دوران ٹرک میں کھڑے ہو کر اس طرح پڑھتا کہ ایک ہاتھ میں کتاب ہوتی اور دوسرے سے ٹرک کے چھجے کو تھاما ہوا ہوتا تھا۔ انہی مصروفیات اور مشکلات کے ساتھ انٹر اور بی اے بھی کرلیا۔ –
ایک دن دفتر سے چھٹی لی اور اسلامیہ کالج جا کر ایم اے میں داخلہ لیا۔ آرٹس کے مضامین کا انتخاب کیا۔ داخلہ ریگولر طالب علم کی حیثیت سے لیا لیکن پڑھائی پرائیویٹ طلبہ کی طرح کی، کیونکہ تین ملازمتوں کے ساتھ کالج جانا اور کلاسوں میں حاضری دینا ممکن ہی نہیں تھا۔ دو سال کیسے گزرے، پتا بھی نہیں چلا۔ کب ایم اے کے امتحانات آئے؟ کس طرح تیاری کی؟ کیسے امتحانات دیے؟ ایک دوست نے بتایا کہ اخبار میں رزلٹ چھپا ہے۔ میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوگیا تھا۔ بیرسٹر اصغر علی کے مشورے پر ایل ایل بی کرنے کا فیصلہ کیا اور ایس ایم کالج میں داخلہ لے لیا۔ جب اصغر صاحب نے یہ مشورہ دیا تو مجھے تین ملازمتوں کے ساتھ اس پر عمل کرنا ناممکن محسوس ہوا تھا۔ جب میں نے اُن سے کہا کہ نہیں ہوپائے گا تو انہوں نے فرمایا:
Everyone has to take a Dive in the river. Either he will be in or he will be out. But that one dive, everybody has to take
زندگی میں ہر شخص کو ایک موقع ضرور ملتا ہے کہ وہ استفادے کی ہر ممکن کوشش کرے، یا تو مشکلات کے سمندر میں غوطہ کھا کر ڈوب جائے گا یا باہر نکل آئے گا۔ بہرحال اس ایک موقع کو استعمال ضرور کرنا چاہیے۔ اُن کی اس بات نے مجھے یکسو کردیا۔
یہاں بھی باقاعدہ کلاس لینے کی سعادت سے محروم رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ کسی نے پوچھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ اس دوران جیکب لائن میں حکومت سرکاری ملازمین کے لیے مکانات تعمیر کر چکی تھی۔ ہمارے گھر والے بھی وہاں شفٹ ہو گئے۔ بڑی بہن کوٹری میں مقیم تھیں۔ ایک بچے کی ولادت کے دوران کسی پیچیدگی کی وجہ سے زیادہ خون ضائع ہوا اور ان کا انتقال ہوگیا۔ پورے خاندان خاص طور پر اماں کے لیے لاڈلی بیٹی کی اچانک جدائی بہت بڑا صدمہ ثابت ہوئی۔ لیکن اللہ نے اماں کو بے پناہ صبر اور حوصلہ بخشا تھا۔ انہوں نے کچھ عرصے کے بعد ہمارے بہنوئی ریاض اللہ خان کی دوسری شادی خود کرائی۔
کلاس روم اور اساتذہ کے چہروں سے ناآشنائی ایل ایل بی میں میرے لیے رکاوٹ نہ بن سکی۔ ایل ایل بی کی کشتی ابھی ساحل تک نہیں پہنچی تھی کہ ڈپلومہ ان جرنلزم میں داخلے کے لیے کراچی یونیورسٹی کا رخ کیا۔ داخلہ تو آسانی سے مل گیا لیکن صورت حال توقع کے برعکس تھی۔ صدرِ شعبہ پروفیسر شریف المجاہد بے حد بااصول اور ڈسپلن کے پابند انسان تھے۔ فضل قریشی میرے کلاس فیلو تھے اور ان کا گھر جیکب لائن ڈاکخانے کے ساتھ تھا۔ وہ بھی صبح سے شام تک ملازمت میں مصروف رہا کرتے تھے اور میری ہی طرح کلاس سے مسلسل غیر حاضر رہا کرتے۔ بہرحال ان دنوں میں بطور ٹرینی ہمیں مختلف اخبارات میں کام سیکھنے کا موقع ملا۔ مجھے وکٹوریہ روڈ پر U.P.P (یونائیٹڈ پریس آف پاکستان) اور فضل قریشی کو P.P.I (پاکستان پریس انٹرنیشنل) بھیجا گیا۔ U.P.P میں ٹریننگ کے دوران مجھے بابائے اردو مولوی عبدالحق کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ امتحانات نزدیک آگئے، لیکن ہمارے معمولات بدستور اپنے مخصوص انداز سے جاری تھے۔ ایک روز یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو شریف المجاہد صاحب کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ دیکھتے ہی کہا کہ تم لوگ کلاس میں نہیں آتے، پڑھائی کیا کرتے ہوگے! اتنی کم حاضری پر امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت ہرگز نہیں دوں گا۔
ہمارا سال ضائع ہوگیا۔ اگلے برس ٹوٹی پھوٹی تیاری کے ساتھ امتحان دیا اور تھرڈ ڈویژن حاصل کی۔ فضل قریشی نے تربیت کے مرحلے میں ایسی دلچسپی دکھائی کہ پی پی آئی کے ہی ہو کر رہ گئے۔ صحافتی اداروں سے افراد کی ایسی طویل رفاقت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ فضل قریشی جیسے بلند قامت فرد سے تعلقِ قلبی پر مجھے ہمیشہ فخر محسوس ہوا۔
1956ء میں ایل ایل بی کی ڈگری بھی مل گئی۔ –سرکاری افسر بننے کا شوق مجھے نوجوانی میں پیدا ہوا تھا۔ اس زمانے میں آئی سی ایس یعنی انڈین سول سروس ہندوستان کا سب سے معتبر ادارہ ہوا کرتا تھا۔ جو لوگ اس کا امتحان پاس کرلیتے تھے وہ بڑے افسر بن جاتے تھے اور معاشرے میں ان کی حیثیت بہت نمایاں ہوجاتی تھی۔ کراچی آنے کے بعد بھی میرے ذہن میں یہی دھن سمائی ہوئی تھی۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے امتحان میں بیٹھنا ایک خواب کی مانند تھا۔ اس کے لیے خوب تیاری کرنی پڑتی تھی۔ 56، 1955 ء میں اس امتحان میں بیٹھا۔ اُس وقت میں ایئر ہیڈکوارٹر میں بھی ملازم تھا۔ تحریری امتحان میں پاس ہوگیا، حالانکہ اس امتحان میں لوگ دو تین سال میں پاس ہوا کرتے تھے۔ میرا ڈومیسائل کراچی کا تھا اور کراچی کی سیٹیں اُس وقت بھی بہت کم تھیں۔ انٹرویو میں فیل ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ کامیاب ہونے والے امیدوار مجھ سے بہتر ہوں گے۔ دوسری بار امتحان دینے کا ارادہ کیا تو محض ایک دن کے فرق سے Over age ہوگیا۔ بہت کوشش کی لیکن یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ این ایم خان جو مشرقی پاکستان کے چیف سیکریٹری رہ چکے تھے اور ہمارے افسر تھے، ان سے بات کی۔ وہ میری محنت اور بھاگ دوڑ سے متاثر تھے اور میری ترقی کے خواہاں تھے۔ سروس کمیشن کے چیف ضیاء الدین یا ضیاء اللہ صاحب ان کے دوست تھے۔ این ایم خان نے انہیں خط لکھا :
Mr. Niamatullah Khan, about whom I am writing this letter was born one hour before he should have. You will agree with me that its non of his fault.
اس خط کے باوجود مجھے امتحان دینے کی اجازت نہیں مل سکی۔سرکاری افسر بننے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔