کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز -


کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز

ایک خواب کی تعبیر

 

عباسی شہید ہسپتال کی بہتری کے لیے اقدامات

عباسی شہید ہسپتال سٹی گورنمنٹ کے ماتحت سب سے بڑا ہسپتال تھا۔ متحدہ نے مختلف ادوار میں یہاں اس قدر سیاسی و سفارشی بھرتیاں کر رکھی تھیں کہ ہسپتال سیاست کا گڑھ بن چکا تھا اور یہاں کی انتظامیہ سیاسی کارکنوں کے ہاتھوں بے بس نظر آتی تھی۔ ہسپتال کے حالات کی خرابی کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ وہاں کے حالاتِ بد کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ میرے ناظم بننے سے کئی ماہ قبل ہسپتال میں نیورو سرجری کا شعبہ بند ہوچکا تھا۔ اس شعبے کے سربراہ ڈاکٹر سید خالد حسین جو امریکہ سے قوم کی خدمت کا عزم لے کر آئے تھے، ایک سیکٹر انچارج کے ہاتھوں تشدد اور تذلیل کا نشانہ بننے کے بعد استعفیٰ دے کر واپس جاچکے تھے۔ کیا کوئی تصور کرسکتا ہے کہ شہر کے وسط میں قائم آٹھ سو بستروں کے ٹرشری کیئر ٹیچنگ ہسپتال میں نیورو سرجری کا شعبہ کئی ماہ تک بند پڑا رہے؟ جبکہ ہسپتال میں بہت بڑا ٹراما سینٹر بھی قائم ہو! دس ماہ سے ایکسرے کا شعبہ بھی بند پڑا ہوا تھا اور سی ٹی اسکین کی مشین بھی کام نہیں کررہی تھی۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں کا ایک دیرینہ مسئلہ تھا فور ٹیئر فارمولے کے تحت ترقی۔ یہ معاملہ 1997ء سے حل طلب تھا۔ ڈاکٹر اظفر معید ہسپتال کے ایم ایس تھے۔ انتہائی دیانت دار اور مخلص آدمی تھے۔ میں نے ڈاکٹر ہمایوں فرخ کو ڈی ایم ایس لگا دیا جو طویل عرصے سے ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ اگلے کچھ عرصے میں ڈاکٹر اظفر معید، ڈاکٹر ہمایوں فرخ، ڈاکٹر سلیم اللہ، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر عبداللہ متقی، ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ، ڈاکٹر فیض فاروقی، ڈاکٹر اورنگزیب، ڈاکٹر محمد شکیل اور ڈاکٹر فیاض عالم نے اس ہسپتال کی بہتری کے لیے غیر معمولی کام کیا۔ ڈاکٹروں کی ترقی کا دیرینہ مسئلہ حل ہوا۔ پوسٹ گریجویٹ ٹرینی ڈاکٹرز کے لیے اعزازیہ کی منظوری دی گئی۔ نرسنگ کالج کی طالبات کے ماہانہ اعزازیہ میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا۔ ریڈیالوجی کے شعبے کے لیے ایکسرے مشین، چھ عدد الٹرا ساؤنڈ مشینیں اور کلر ڈوپلر مشین خریدی گئی۔ لیبارٹری، میڈیسن، سرجری اور امراضِ چشم کے شعبوں کے لیے کئی کروڑ روپے کی مشینیں خریدی گئیں۔ ہسپتال میں ڈائی لیسس کی سہولت بالکل مفت کردی گئی اور نئی مشینوں کا اضافہ بھی کیا گیا۔ 22 اپریل 2002ء کو نیورو سرجری کے شعبے کو ازسرنو کھول دیا گیا۔ معروف نیورو سرجن پروفیسر مسعود جاوید صاحب نے ہماری درخواست پر اس شعبے کی سربراہی ایک بار پھر سنبھال لی۔ وہ اس سے قبل ٹراما سینٹر کے انچارج کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے تھے۔

ہسپتال میں میڈیکل آئی سی یو موجود نہیں تھا۔ تیسری منزل پر نہ صرف اس کے لیے جگہ مختص کی گئی بلکہ کئی کروڑ روپے سے مانیٹرز اور وینٹی لیٹرز بھی خرید لیے گئے ۔ مصطفیٰ کمال نے بعد ازاں اس آئی سی یو کا افتتاح کیا۔ ہسپتال کے سیوریج کے دیرینہ مسئلے کو بھی حل کیا گیا اور نرسنگ ہاسٹل میں پانی و سیوریج کی لائنیں تبدیل کروا کر عمارت کی تزئین و آرائش بھی کروائی گئی۔ ہمارے چار سالہ دور میں مریضوں کو90 فیصد ادویہ ہسپتال سے بالکل مفت ملا کرتی تھیں، جبکہ بیشتر ٹیسٹ ہسپتال کی اپنی لیبارٹری میں ہی ہو جایا کرتے تھے۔ اگر وزیراعلیٰ سندھ مجھے تقرریوں کا اختیار دے دیتے تو ہم ہسپتال میں میرٹ پر طبی و نیم طبی عملے کا تقرر کرتے، جس کے نتیجے میں ہسپتال کی کارکردگی میں مزید اضافہ ہوجاتا۔ افسوس کہ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کراچی کے معاملے میں متحدہ کے سامنے مکمل طور پر بے اختیار نظر آئے۔

اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سٹی ناظم کی حیثیت سے آپ نے شہر کراچی کو کیا دیا؟ تو میرے ذہن میں فوری طور پر دو منصوبے آتے ہیں۔ فیڈرل بی ایریا میں بنایا جانے والا امراضِ قلب کا ہسپتال کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز، اور شہر کو 100 ملین گیلن پانی روزانہ فراہم کرنے کا منصوبہ کے تھری۔ یقینی طور پر ان دونوں منصوبوں کی اہمیت و افادیت غیر معمولی ہے۔

کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیزز کا قیام

شہر میں امراضِ قلب کے ایک نئے ہسپتال کے قیام کی تجویز ڈاکٹر فیاض عالم نے دی تھی۔ عباسی شہید ہسپتال کے ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر محمد خالد اور ماہر امراضِ قلب ڈاکٹر زاہد رشید نے اس منصوبے کی فزی بلٹی تیار کی۔

22 ستمبر 2002ء کو سوک سینٹر کے کمیٹی روم میں ایک میٹنگ منعقد کی گئی جس میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالصمد نے شہر میں امراضِ قلب کے مریضوں اور علاج معالجے کی صورتِ حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ میں پروفیسر عبدالصمد صاحب سے واقف نہیں تھا حالانکہ بلڈ پریشر کا پرانا مریض تھا لیکن میرے ذاتی معالج پروفیسر اظہر فاروقی تھے۔ عبدالصمد صاحب شیروانی زیب تن کیے ہوئے تھے اور سر پر قراقلی ٹوپی تھی۔ حلیے سے کوئی عالم دین معلوم ہوتے تھے۔ آبائی تعلق صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے تھا لیکن طویل عرصے سے کراچی میں مقیم تھے۔وہ بے حد محبت اور انکسار سے ملے۔

میٹنگ کے دیگر شرکاء میں ڈی سی او شفیق الرحمٰن پراچہ، ای ڈی او فنانس شعیب صدیقی، ای ڈی او ورکس، ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹر علی نواز شیخ، ڈاکٹر ہمایوں فرخ، ڈاکٹر عبدالصمد، ڈاکٹر زاہد رشید، ڈاکٹر محمد خالد، ڈاکٹر فیاض عالم، ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ، ڈاکٹر عبداللہ متقی اور عابدالیاس شامل تھے۔

ڈاکٹر زاہد رشید نے مجوزہ ہسپتال کے منصوبے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہسپتال کو دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا اور مکمل ہونے کے بعد 400 بستروں کا ٹرشری کیئر ٹیچنگ ہسپتال ہوگا۔ اس کے ساتھ شہر کے 10 ٹائونز میں چیسٹ پین سینٹر بھی بنائے جائیں گے جہاں دل کے دورے کے مریضوں کو فوری طبی امداد ماہر ڈاکٹروں اور عملے کی نگرانی میں دی جاسکے گی، اور انجیو گرافی و انجیوپلاسٹی یا بائی پاس سرجری کے لیے مرکزی انسٹی ٹیوٹ منتقل کیا جائے گا۔

بریفنگ کے بعد تمام شرکائے میٹنگ اس منصوبے پر یکسو ہوگئے اور طے پایا کہ ہسپتال فیڈرل بی ایریا بلاک 16 میں واقع کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی پرانی عمارت اور اس سے ملحقہ پلاٹ پر تعمیر کیا جائے گا۔ نیز یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ پروفیسر ڈاکٹر عبدالصمد اس ادارے کے پراجیکٹ ڈائریکٹر، جبکہ ڈاکٹر محمد خالد اور ڈاکٹر زاہد رشید ڈپٹی ڈائریکٹر ہوں گے۔

الحمدللہ سٹی کونسل کے اراکین نے اس منصوبے کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا اور 2 جنوری 2003ء کو قرارداد نمبر211 کے ذریعے اس کی منظوری دے دی۔ اس کے بعد سٹی گورنمنٹ کے متعلقہ افسران نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے انتظامی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹر محمد خالد نے اس منصوبے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا اور رات گئے تک اس میں مصروف رہنے لگے۔ 9 جنوری 2004ء کو ہسپتال کے پہلے فیز کا سنگ ِبنیاد رکھا گیا۔ تعمیراتی کام مکمل ہونے کے نزدیک پہنچا تو مشینوں اورطبی آلات کی خریداری کا مرحلہ درپیش تھا۔ 15 مارچ 2005ء کو مسلم پرویز اور سعید غنی کی مشترکہ قرارداد نمبر 617 کو سٹی کونسل نے منظور کیا اور ہسپتال کے لیے 7 کروڑ 10 لاکھ 26 ہزار کی خطیر رقم سے طبی آلات کی درآمد اور خریداری کی اجازت دے دی۔ قیمتی مشینیں ہم نے براہِ راست ایل سی کھول کر درآمد کیں جس کے نتیجے میں سٹی گورنمنٹ کو چالیس فیصد تک بچت ہوئی۔ حبیب آئل ملز کی محترمہ تابندہ لاری نے اپنے ادارے کی جانب سے 2 ایمبولینسوں کا عطیہ دلوایا۔ عملے کی تقرری کے لیے صوبائی حکومت کی منظوری درکار تھی۔ طریقۂ کار کے مطابق طبی و نیم طبی عملے کی تقرری کے حوالے سے درخواست وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو بھیجی گئی، ساتھ ہی یہ بھی لکھا گیا کہ ملازمین کو تنخواہیں شہری حکومت اپنے بجٹ سے دے گی، لیکن وزیراعلیٰ سندھ اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے دباؤ میں آکر درخواست کی منظوری دینے سے گریز کرتے رہے۔ اس موقع پر شہر کے معروف ماہرینِ امراضِ قلب ڈاکٹر عبدالحق، پروفیسر ڈاکٹرشریف چودھری، پروفیسر ڈاکٹر حامد شفقت، پروفیسر صمد شیرا ، ڈاکٹر اعظم شفقت ، ڈاکٹر مقبول جعفری ، ڈاکٹر اعجاز وہرہ، ڈاکٹر محمد اسحٰق ، ڈاکٹر حسنات شریف، ڈاکٹر خاور کاظمی ، پروفیسر ڈاکٹر سلطان احمد شاہ، ڈاکٹر حسینہ چھاگانی، اور ڈاکٹر اجمل صدیقی نے اعزازی طور پر اپنی خدمات پیش کردیں۔ ڈاکٹر زاہد رشید نے ایکو کارڈیو گرافی، جبکہ ڈاکٹر عبدالحق اور پروفیسر عبدالصمد نے انجیو گرافی و انجیو پلاسٹی کے شعبے کو سنبھال لیا۔ اس طرح دستیاب وسائل کے ساتھ ہسپتال میں او پی ڈی، ایکو کارڈیو گرافی، ای ٹی ٹی، انجیو گرافی و انجیو پلاسٹی کی سہولیات کا آغاز کردیا گیا۔ انجیو گرافی کے چارجز صرف 3 ہزار روپے، جبکہ انجیو پلاسٹی کے چارجز35 ہزار روپے رکھے گئے۔ 3جون 2005ء کو کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کے پہلے مرحلے کے باقاعدہ افتتاح کی سعادت اللہ نے مجھے بخشی۔

کیونکہ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز زکے منصوبے میں 10 ٹاؤنز میں ایک چیسٹ پین سینٹر کا قیام بھی شامل تھا، اس لیے ہماری ٹیم ان سینٹرز کے قیام کے لیے بھی کوششیں کر رہی تھی۔ 20 اور 21 جون 2005ء کو ملیر اور کورنگی کے دو مقامات پر چیسٹ پین سینٹرز کے سنگِ بنیاد رکھے گئے۔ ان تقاریب میں ٹاؤن اور یونین کونسلز کے ناظمین اور کونسلرز کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی شرکت کی۔ کورنگی والے چیسٹ پین سینٹر کے منصوبے کے لیے جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کی رہنما محترمہ عائشہ منور صاحبہ نے بطور رکن قومی اسمبلی ملنے والے فنڈز میں سے ایک خطیر رقم دی تھی۔

شہر میں ڈینگی کی آمد

2004ء میں کراچی میں اچانک ایک نئے مرض کی آمد ہوگئی۔ کم از کم میں نے اس مرض کا نام زندگی میں پہلی بار سنا تھا۔ ابتدائی دنوں تک تو نام بھی درست معلوم نہیں ہوسکا تھا۔ اخبارات کبھی ڈینگو لکھتے اور کبھی ڈینگی۔ کئی لوگوں کے مرنے کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں اور ای ڈی او ہیلتھ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اس کا وائرس ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے انسانی جسم میں منتقل ہوتا ہے اور انسانی جسم میں خون کے بعض اجزاء کی شدید کمی ہوجاتی ہے۔

اس مرحلے پر پیما کے رکن اور خون کے امراض کے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی نے بہت تعاون کیا اور کئی تربیتی پروگرامات کا انعقاد کیا۔ انہوں نے ڈاکٹروں کو سمجھایا کہ ڈینگی کے مریض کو اینٹی بایوٹک ادویہ نہیں دی جائیں گی اور پلیٹ لیٹس کی کمی کو کیسے دور کیا جائے گا۔

یونین کونسل انچولی کے ناظم سجاد دارا زرعی کیڑے مار ادویہ کے ایک ادارے سے کئی سال تک وابستہ رہے تھے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ شہر میں مچھر مار اسپرے کروایا جائے جس کے لیے معیاری ادویہ کا بندوبست کیا جائے۔ سٹی گورنمنٹ کا ویکٹر کنٹرول کا شعبہ ای ڈی او ہیلتھ کے ماتحت تھا لیکن کچھ خاص فعال نہ تھا۔ سجاد دارا کی تجویز پر فوگر مشینیں خریدی گئیں اور شہر کے ہر ٹاؤن میں ہنگامی بنیادوں پر اسپرے کروایا گیا۔ یہ مہم کئی ہفتوں تک جاری رہی اور اس میں سجاد دارا کے ساتھ ڈاکٹر آصف خان اور التمش خان نے بھی پورے جوش وجذبے کے ساتھ کام کیا۔ اس محکمے کے ایک نوجوان افسر بھی بہت متحرک تھے اور مستعدی سے کام کرتے نظر آئے۔ بعد میں کسی نے بتایا کہ ان کا نام حماد صدیقی تھا اور وہ متحدہ کے مرکز 90 کے اہم لوگوں میں شامل تھے۔ گفتگو اور مجموعی رویّے سے کسی اچھے خاندان کے فرد لگتے تھے۔ سچ یہ ہے کہ جب ان کا پورا تعارف سامنے آیا تو دکھ ہوا کہ الطاف حسین نے اپنی خودغرضی، تشدد اور نفرت کی سیاست میں کراچی کے نوجوانوں کو کیا سے کیا بنا دیا۔ کاش وہ نسلوں کی تباہی کی اس سیاست سے باز رہتے!

جماعت اسلامی کراچی کے قیم شاہد ہاشمی نے کئی مواقع پر اس خواہش کا اظہار کیا کہ سٹی گورنمنٹ کے تحت شہر میں کوئی بہت معیاری ڈائیگنوسٹک سینٹر بنایا جائے جس میں ایک ہی چھت کے نیچے لیبارٹری بھی ہو اور سی ٹی اسکین اور ایم آر آئی جیسی سہولتیں بھی ہوں۔ ڈاکٹر محمد واسع اور ڈاکٹر عظیم الدین نے اس تجویزکو عملی شکل دینے کے لیے مفید مشورے دیے۔ صحت کے محکمے نے ان ماہرین کی مشاورت سے پی سی ون تیار کیا۔ لیاقت نیشنل ہسپتال کے برابر میں سٹی گورنمنٹ کا ایک کشادہ بنگلہ تھا۔ ابتدائی مہینوں میں کچھ لوگوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ میں بحیثیت ناظم اس میں رہائش اختیار کرلوں۔ میں نے یہ تجویز مسترد کردی تھی اور مشورہ دینے والوں سے کہا تھا کہ افغانی صاحب آٹھ سال شہر کے میئر رہے، وہ سرکاری بنگلے کے بجائے لیاری کے 80 مربع گز کے فلیٹ میں رہتے رہے، مجھے تو اللہ نے بہت کشادہ مکان دیا ہوا ہے۔

بہرحال ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم نے اس بنگلے کو سٹی ڈائیگنوسٹک سینٹر کے لیے موزوں قرار دے دیا۔ چند ہفتوں کے بعد اس بنگلے میں سول ورک اور سینٹر کے لیے مشینوں کی خریداری کے ٹینڈر بھی جاری کردیے گئے۔ 5 جون 2005ء کو باقاعدہ سنگِ بنیاد بھی رکھ دیا گیا۔ میرے بعد آنے والے سٹی ناظم نے نہ صرف یہ کہ اس اہم منصوبے کو ختم کردیا بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق اس بنگلے میں رہائش اختیار کرلی یا اسے کیمپ آفس بنالیا ۔

دیگر شعبوں کی طرح صحت کے محکمے میں بھی کرپشن کچھ کم نہیں تھی، سرکاری ہسپتالوں میں مشینوں کی خریداری، دوائوں کی خریداری و سپلائی میں گھپلوں سمیت دیگر معاملات کی روک تھام کے لیے ویجیلنس کمیٹیاں تشکیل دیں۔ میڈیکل و پیرا میڈیکل اسٹاف کی حاضری، ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کے نظام کی بہتری، سہولتوں میں اضافے کے لیے تجاویز دینا اور بد عنوانیوں کو ختم کرنا ان کمیٹیوں کے ذمے تھا۔ بہت سارے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ بیان کررہا ہوں تاکہ لوگ جان سکیں کہ سرکاری محکموں میں کس انداز سے کرپشن کی جاتی ہے۔ نارتھ کراچی میں واقع چلڈرن ہسپتال کا منصوبہ تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ ای ڈی او ہیلتھ کے ماتحت کروڑوں روپے کی مشینوں اور طبی آلات کی خریداری کی جانی تھی۔ لیبارٹری کے لیے کچھ مشینوں کی خریداری کے معاملات فائنل کرکے فائل حتمی منظوری کے لیے میرے پاس بھیجی گئی۔ میرے معاونین میں سے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ قیمتیں غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں۔ تحقیق سے پتا چلا کہ چند بہت چھوٹے اخبارات میں ٹینڈر چھپوا کر خانہ پری کی گئی تھی اورمن پسند سپلائرز کو نوازنے کا منصوبہ تھا۔ بڑے اخبارات میں ٹینڈر جاری کروائے اور خریداری کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں شہر کے معروف پیتھالوجسٹس کو شامل کیا گیا۔ مشینوں کی قیمت پچیس سے تیس فیصد کم ہوگئی جبکہ گارنٹی بھی ایک سال کے بجائے دو سال کی مل گئی۔ ہسپتالوں کے لیے ادویہ اور مشینوں کی خریداری کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے سینٹرل پرچیز کمیٹی تشکیل دی گئی۔

سوبھراج میٹرنٹی ہسپتال میں نومولود بچوں کے علاج کے لیے انتہائی نگہداشت کا یونٹ بنایا گیا۔ ہسپتال کی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شبین ناز متحرک خاتون تھیں اور ڈسٹرکٹ آفیسر ڈاکٹر ہمایوں فرخ اور ڈاکٹر عبداللہ متقی کے ساتھ مل کر ہسپتال کی بہتری کے لیے مسلسل کوششیں کرتی رہتی تھیں۔ اسپنسر آئی ہسپتال کی انتظامیہ نے بھی اس دوران جدید سہولتوں کے حصول کے لیے اچھا ہوم ورک کیا اور مختلف دوروں کے دوران مجھے، ڈی سی او اور ای ڈی او ہیلتھ کو اپنی ضروریات اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں بتایا۔ ہم نے ان کی تجاویز کو خصوصی اہمیت دی اور مشینوں و آلات کی خریداری کے لیے کئی کروڑ روپے فراہم کیے گئے۔

کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی نئی عمارت

سٹی گورنمنٹ کے پہلے ہی بجٹ میں نارتھ ناظم آباد میں واقع کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کے دوسرے مرحلے کی تعمیر کے لیے 16 کروڑ روپے مختص کردیے گئے تھے۔ 16 اگست 2002ء کو گورنر سندھ محمد میاں سومرو نے ایک پُروقار تقریب میں تعمیراتی کاموں کے آغاز کا رسمی افتتاح کیا۔ اس موقع پر نائب ناظم طارق حسن، ڈی سی او شفیق الرحمٰن پراچہ، کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سعدیہ عزیز کریم، ٹاؤن ناظم فصیح الدین صدیقی اور دیگر لوگ موجود تھے۔ سلیم اظہر اور عابد الیاس نے اس منصوبے کی تکمیل میں بھرپور دلچسپی لی۔ 6 جون 2005ء کو مجھے اس عمارت کے افتتاح کا موقع ملا۔ سرکاری شعبے میں ایسے منصوبے سال ہا سال تک زیر تکمیل رہتے ہیں اور انتظامیہ میں موجود کچھ کالی بھیڑیں اور ٹھیکیدار مل کر ایسے منصوبوں کے ریٹس میں اضافہ کرواتے رہتے ہیں، اور منصوبہ کچھ لوگوں کی کرپشن کی وجہ سے غیر معمولی تاخیر کا شکار ہوجاتا ہے۔ الحمدللہ، کالج کی عمارت تین سال سے بھی کم عرصے میں مکمل ہوگئی۔ اس دوران کالج میں اساتذہ کی تقرریاں کی گئیں۔ ماضی میں اس ادارے میں سیاسی اور سفارشی بنیادوں پر تقرریاں ہوتی رہی تھیں۔ میں نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ تمام تقرریاں سندھ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے صرف اور صرف میرٹ پر کی جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تقرر نامے ملنے کے بعد کئی لوگوں نے مجھ سے کہا کہ اگر جماعت اسلامی کے بجائے کسی اور پارٹی کا سٹی ناظم ہوتا تو ہماری تقرری ممکن ہی نہیں تھی۔ مصطفیٰ کمال ناظم بنے تو انہوں نے کالج اور دیگر اداروں میں براہِ راست تقرریاں کیں۔ ایک بار کالج انتظامیہ نے تجویز بھیجی کہ کالج میں سیلف فنانس کی نشستیں متعارف کروائی جائیں۔ میں نے اپنی ٹیم سے مشورہ کیا اور اس تجویز کو مسترد کردیا۔ یہ جماعت اسلامی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ چار سالہ دورِ نظامت میں نہ کسی کو خلاف ِضابطہ ترقی دی اور نہ ہی میرٹ سے ہٹ کر کسی کی تقرری کی۔

 

 

فہرست | →پیچھے جائیے

←ملیر ندی کا پُل اور جمال طاہر و اسلم مجاہد کی شہادت