شہر کو پانی کی فراہمی کا منصوبہ – کے تھری
میرے سٹی ناظم بننے سے کچھ عرصہ قبل وفاقی حکومت نے کراچی کے لیے تین بڑے منصوبوں کی منظوری دے دی تھی۔ لیاری ایکسپریس وے، ناردرن بائی پاس اور کے تھری۔ کے تھری شہر کو انڈس ریور سسٹم سے 100 ملین گیلن پانی روزانہ کی فراہمی کا میگا پراجیکٹ تھا۔ کراچی کو دریائے سندھ سے 100 ملین گیلن پانی کی فراہمی کا ایک منصوبہ کے ٹو (K-2)1998ء میں واٹر بورڈ نے مکمل کیا تھا۔ لیاری ایکسپریس وے کے منصوبے میں ہماری ذمہ داری متاثرین کی منتقلی اور آباد کاری تک محدود تھی۔ اس منصوبے کو ’’لیاری ایکسپریس وے ری سیٹلمنٹ پراجیکٹ‘‘ کا نام دیا گیا جس کا انچارج ڈی سی او شفیق پراچہ کو بنایا گیا۔ انہوں نے منتخب نمائندوں کے ساتھ مل کر بہت محنت اور دیانت داری سے متاثرین کی فہرست مرتب کی اور متاثرین کو متبادل پلاٹ اور مکان بنانے کے لیے رقومات دی گئیں۔ اس کے بغیر لیاری ایکسپریس وے کا بننا ممکن نہیں تھا کیونکہ ندی کے اندر دونوں طرف کئی ہزار لوگ برس ہا برس سے اپنے خاندانوں سمیت آباد تھے۔ سینکڑوں نے تو پکے مکانات بنائے ہوئے تھے۔
ناردرن بائی پاس کی تعمیر نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ذمہ داری تھی۔ جبکہ کے تھری منصوبہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ذمہ داری تھا، جو کہ قانونی طور پر سٹی گورنمنٹ کا ماتحت ادارہ بن چکا تھا۔ سٹی گورنمنٹ کے معرضِ وجود میں آنے سے قبل وفاقی حکومت نے اس میگا پراجیکٹ کے لیے 5534 ملین روپے فراہم کر دیے تھے۔ واٹر بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر بریگیڈیئر بہرام خان نے حیران کن طور پر اس منصوبے کے ٹینڈرز کی تیاری میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو بھی شامل کیا تھا۔ کنسلٹنٹ کی تقرری سے پہلے ہی سٹی گورنمنٹ قائم ہوگئی اور مجھے بحیثیت سٹی ناظم اس منصوبے کے حوالے سے بنیادی فیصلوں کا اختیار مل گیا۔ بہرام خان نے مجھے کے تھری منصوبے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی اور اب تک کی پیش رفت سے آگاہ کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سے واٹر بورڈ کا معاہدہ “Integrity Pact” قابلِ ستائش ہے لیکن میری خواہش ہے کہ اسے صرف کے تھری تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ واٹر بورڈ کے تمام منصوبوں میں انہیں شامل کیا جائے۔
میں نے اس ادارے کے ذمہ داران شوکت عمری اور عادل گیلانی سے ملاقات کی اور انہیں اپنی طرف سے فری ہینڈ دینے کی یقین دہانی کروائی۔ واٹر بورڈ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی مشترکہ ٹیکنیکل کمیٹی نے ٹیکنو کنسلٹ کی آفر کی منظوری دے دی اور فائل حتمی منظوری کے لیے میرے پاس آگئی۔ اس دوران ایک عجیب واقعہ ہوا۔ ٹیکنوکنسلٹ کے مالک انجینئر سعید احمد نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ خان صاحب کیونکہ میرے آپ سے پرانے تعلقات ہیں، اس لیے میں نہیں چاہتا کہ اس منصوبے کی وجہ سے آپ پر یا میری کمپنی پر کوئی انگلی اٹھائے حالانکہ ہماری فیس صرف چھ کروڑ روپے ہے جو کہ ساڑھے پانچ ارب کے منصوبے میں بہت ہی کم رقم ہے۔ میں نے کہا کہ سعید صاحب! یہ کام تو میرے سٹی ناظم بننے سے قبل ہی فائنل ہوچکا تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ سفید کپڑے پر بہت چھوٹا داغ بھی نظر آجاتا ہے۔ بہرحال میں نے واٹر بورڈ کے افسران کو ہدایت کی کہ ایک بار پھر جانچ پڑتال کرلی جائے اور باہر کے کچھ ماہرین سے بھی مشاورت کی جائے۔ اس ساری تگ و دو کے بعد بھی قرعہ فال ٹیکنوکنسلٹ کے نام ہی نکلا۔
ادارے نے اس منصوبے کے لیے اپنے دو بہت ہی قابل اور سینئر انجینئرز ارشد فاروقی اور اسداللہ کو نامزد کر دیا۔ کے تھری منصوبے میں واٹر بورڈ کے افسران مصباح الدین فرید، مشکور الحسنین اور شاہد سلیم، جبکہ ہماری ٹیم کے سلیم اظہر، اظہار الحق اور فیضان اللہ خان نے غیر معمولی محنت کی اور کراچی سے محبت کا حق ادا کردیا۔
واٹر بورڈ اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے درمیان کیے گئے معاہدے Integrity Pact کے نتیجے میں کے تھری منصوبے کے ڈیزائن اور نگرانی کی مد میں 187 ملین روپے بچائے گئے، جبکہ تعمیر اور دیگر مدوں میں 837 ملین روپے کی بچت ہوئی۔ وفاقی حکومت نے اس منصوبے کے لیے 5534 ملین روپے فراہم کیے تھے جبکہ ہم نے پورا کانٹریکٹ 4510 ملین روپے میں ایوارڈ کیا اور اس منصوبے میں 1024 ملین روپے یعنی ایک ارب 24 لاکھ روپے کی بچت کر کے ایک ریکارڈ قائم کر دیا۔ یہ کسی بھی سرکاری ترقیاتی منصوبے میں ناقابلِ یقین بچت تھی جسے صوبائی اور وفاقی سطح پر بھی سراہا گیا اور میڈیا میں بھی طویل عرصے تک اس کا تذکرہ ہوتا رہا۔
کے تھری منصوبے میں جو رقم بچی اس سے کراچی کے کچھ جزائر بابا بھٹ اور صالح آباد کو پانی فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا، جس کے لیے سمندر کے اندر پائپ لائن ڈالی گئی اور جزائر تک پانی پہنچایا گیا۔ اس منصوبے کو بھی ٹیکنو کنسلٹ نے انجینئر بشیر لاکھانی کی سربراہی میں بڑی مہارت سے ڈیزائن کیا تھا اور اس پر عمل درآمد مصطفیٰ کمال کے دور میں ہوا۔
کے تھری کے مختلف حصوں کے لیے پندرہ سولہ کانٹریکٹرز کا شفاف طریقے سے انتخاب کیا گیا اور بیک وقت کئی مقامات پر کام شروع کروایا گیا۔ منصوبے پر کام کا عملی طور پر آغاز 28 اپریل 2002ء کو ہوا اور جنرل پرویزمشرف نے کراچی یونی ورسٹی کے سامنے ایک پُروقار تقریب میں اس کا سنگ ِبنیاد رکھا۔
کے تھری منصوبے پر تیز رفتاری سے کام جاری رہا اور میری نظامت کے اختتام یعنی 30 جون 2005ء تک اس پر 95 فیصد کام ہوچکا تھا۔31 مئی 2006ء کو صدر پرویزمشرف نے اس میگا پراجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا اور کراچی کے شہریوں کو مزید 100 ملین گیلن پانی روزانہ کی فراہمی شروع ہوگئی۔
کے تھری کی تکمیل سے پہلے کراچی کو دریائے سندھ سے 480 ملین گیلن پانی روزانہ ملا کرتا تھا، جبکہ حب ڈیم سے نہر کی ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے 30 سے 35 ملین گیلن ہی مل پارہا تھا جبکہ استعداد 80 تا 100 ایم جی ڈی تھی۔ 2002 ءمیں میری ہدایت پر انڈس ریور سسٹم سے مزید 650ملین گیلن پانی کے حصول کے لیے کےفور منصوبے کا پی سی ٹو تیار ہوا جس کی باقاعدہ منظوری حکومت ِسندھ نے 2003ء میں دی۔
صوابدیدی اختیار ختم کردیا
مختلف اقدامات کے حوصلہ افزا نتائج دیکھ کر آپس میں مشاورت کی کہ کرپشن اور مالی بے ضابطگیوں کی روک تھام سمیت وہ تمام اقدامات کیے جائیں جن سے شہری حکومت کی آمدنی بہتر ہو، اور اس کی ابتدا اپنی ذات سے کی جائے۔ نظامت سنبھالے ابھی کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک افسر فائل ہاتھ میں لیے میرے کمرے میں داخل ہوئے اور کہنے لگے کہ سر اس پر دستخط کردیں۔ دیکھا تو سٹی ناظم کے صوابدیدی فنڈ کی فائل ہے۔ سالانہ بجٹ میں سے یہ مخصوص رقم سٹی گورنمنٹ کے ملازمین کو قرض دینے کے لیے مختص کی گئی تھی، اور اس کی تقسیم کا طریقہ یہ تھا کہ 30 فیصد رقم ناظم کی مرضی سے، جبکہ باقی رقم قرعہ اندازی کے ذریعے تقسیم کی جانی تھی۔ جو صاحب میرے پاس فائل لے کر آئے، اُن سے کہا کہ آج سے ناظم کا صوابدیدی فنڈ ختم کریں اور کُل رقم کی تقسیم کے لیے قرعہ اندازی کروائیں۔ پھر مسلم پرویز سے کہا کہ اس صوابدیدی اختیار کو مستقل بنیادوں پر ختم کرنے کے لیے کونسل میں قرارداد لے کر آئیں اور منظور کروائیں۔ بدقسمتی سے ہر تھوڑے دنوں کے بعد کسی نہ کسی پراجیکٹ میں کوئی بد عنوانی یا بے قاعدگی سامنے آجاتی۔ کوآرڈی نیشن کمیٹی کے ساتھی آگاہ کرتے اور مسئلے کے حل کی تجاویز بھی دیتے۔ بروقت اقدامات سے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے جیسے بھینس کالونی میں بیرون ِشہر سے مویشی لائے جانے پر انٹرنس کا ٹھیکہ!!
شہری حکومت کے اس شعبے کے ذمہ دار افسر نے اپنا دفتر بھی بھینس کالونی میں قائم کررکھا تھا۔ روزانہ کتنے جانور آرہے ہیں؟ اور کتنی رقم وصول کی جارہی ہے ؟صرف انہی کے علم میں تھا۔ بس اتنا پتا تھا کہ سال کے آخر میں 20 سے 25 لاکھ روپے انٹری فیس کی مد میں شہری حکومت کو ملتے ہیں۔ ایک کمیٹی بنائی اور سروے کروایا تو اندازہ ہوا کہ بھینس کالونی میں آنے والے مویشیوں میں نصف سے بھی کم تعداد کی فیس شہری حکومت کو مل رہی ہے۔ یہ نظام سال ہا سال سے چل رہا تھا۔ فیصلہ کیا گیا کہ اگلے برس کے لیے انٹری فیس کے ٹھیکے کے لیے نیلامی ہوگی اور منتخب نمائندوں کی نگرانی میں ہوگی۔ ٹھیکے کی کھلی نیلامی کی آخری پیش کش ایک کروڑ 20 لاکھ روپے آئی۔ کامیاب ہونے والے کو ٹھیکہ سپرد کردیا گیا۔
میں نے ابتدا میں ہی طے کرلیا تھا کہ ذاتی اخراجات کم سے کم رکھوں گا۔ آمدورفت کے لیے کسی بڑے لاؤ لشکر کے بجائے ایک کار کو استعمال کیا۔ کوشش یہ ہوتی تھی پروٹوکول کے نام پر گاڑیوں کا قافلہ میرے ساتھ نہ ہی چلے تو بہتر ہے، کیوں کہ اس طرح ڈرائیورز کی تنخواہیں اور پیٹرول کے اخراجات حکومت کو برداشت کرنا پڑتے تھے۔ اکثر اوقات اپنے ذاتی ڈرائیور کے ہمراہ جو گزشتہ کئی برس سے میرے ساتھ ہے، دفتر چلا جاتا۔ اگلے مرحلے میں افسران کی گاڑیوں کے لیے جاری ہونے والے پیٹرول کے لیے بھی قاعدہ مرتب کروایا گیا جس سے اس مد میں خاطر خواہ بچت ہوئی۔
معیاری سڑکوں کی تعمیر
ابتدائی معاملات کی درستی کے ساتھ ترقیاتی کاموں کی طرف توجہ دی اور اس سلسلے میں ڈرگ روڈ سے ڈرائیو اِن سینما تک راشد منہاس روڈ فیز I کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ ہم نے طے کیا تھا کہ اب جو بھی بڑی سڑک بنے گی وہ امریکن کوالٹی اسٹینڈرڈ AASHTO کے مطابق بنائی جائے گی۔
یہ سڑکوں کی تعمیر کا تسلیم شدہ بین الاقوامی معیار ہے۔ اس طریقہ کار میں سڑک کی تین سطحیں ہوتی ہیں۔ بیس، سب بیس اور اوپری سطح، اور ساتھ ہی برساتی نالے کے لیے سروس کوریڈور کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ یوٹیلٹی سروسز کی لائنوں کو بھی ایک جگہ اکٹھا کیا جاتا ہے، اس لیے اگر عام سڑک پر 30 لاکھ روپے فی کلومیٹر خرچ آتا ہے تو AASHTO معیار کے مطابق بنائی جانے والی سڑک پر دو گنا سے زائد خرچ آتا ہے۔ عام سڑک بمشکل تین سے چار سال گزار سکتی ہے، جب کہ یہ سڑکیں پندرہ سے بیس سال تک بڑی ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوتیں۔ راشد منہاس روڈ کی تعمیر کے معیار کو صحافیوں نے دیکھا اور اس کی تعریف کی۔
کارساز روڈ کی تعمیر جاری تھی، درمیان میں اسلحے کی نمائش (IDEAS)کا وقت آگیا، چونکہ ایکسپو سینٹر کے لیے آمدورفت اسی راستے سے ہوتی تھی اور وقت بہت کم رہ گیا تھا، اس لیے ٹھیکیدار نے جلد کام مکمل کرنے کے لیے تارکول زیادہ جلا دیا اور جیسے تیسے سڑک بنا دی۔ اس طریقے سے تارکول میں چپکنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ اُس وقت تو مجبوراً برداشت کیا گیا، لیکن نمائش مکمل ہوتے ہی سڑک دوبارہ توڑ کر از سرِنو تعمیر کروائی گئی۔ اس معاملے میں ہماری ٹیم میں شامل پاکستان انجینئرز فورم کے ارکان ، منتخب نمائندے اور افسران سب کا کردار سراہے جانے کے قابل ہے کہ سب ایک وژن کے تحت کام کر رہے تھے، اور ترقیاتی کاموں کے معیار پر کوئی سمجھوتا نہ کرنے کا عزم مصمم تھا۔
جنرل مشرف کا ریفرینڈم
مسائل ، وسائل اور مختلف چلینجز کے سمندر میں سبک رفتاری سے آگے بڑھتی ہوئی ناؤ کچھ عرصے بعد اُس وقت منجدھار میں پھنس گئی جب صدر پرویزمشرف نے ملک میں ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا۔ اطلاعات تو مل رہی تھیں کہ صدر پرویزمشرف ریفرنڈم میں حمایت کے لیے ناظمین کو استعمال کرنا چاہتے ہیں، لیکن میں نے ان خبروں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی اور کوئی پروا کیے بغیر اپنے کاموں میں مصروف رہا۔ کچھ دنوں بعد پیغام ملا کہ’’اسلام آباد تشریف لائیے۔ صدر نے پاکستان بھر سے ناظمین کو دارالحکومت بلوایا ہے“۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو سماں ہی کچھ اور تھا۔ کیا سیاسی، کیا غیر سیاسی… سارے ناظمین ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ میٹنگ میں پروگرام کے مطابق صرف پرویزمشرف کو تقریر کرنی تھی، اس لیے مائیک سنبھالتے ہی بغیر کسی تمہیدکے اپنے مطلب پر آئے اور پُراعتماد لہجے میں کہنے لگے: ”آپ لوگ جن جن شہروں سے آئے ہیں وہ میرا حلقہ انتخاب ہیں، اس لیے ریفرنڈم میں آپ حضرات میرے لیے حمایت کی مہم چلائیں گے“۔ اسی طرح کی چند باتیں انہوں نےمزید کہیں اور خطاب مکمل کرکے فوراً وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ناظمین واپس اپنے شہروں کو چلے گئے۔ کراچی پہنچتے ہی میں سیدھا گورنر ہائوس گیا، محمد میاں سومرو سے ملاقات کی اور صاف لفظوں میں کہا کہ آپ وفاق کے نمائندے ہیں اس لیے یہ معاملہ آپ کے علم میں لانا ضروری سمجھا کہ صدر مشرف نے اسلام آباد میں پاکستان کے تمام ناظمین کو بلوا کر ریفرنڈم میں حمایت کرنے کے لیے کہا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس ریفرنڈم مہم کے سلسلے میں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں جلسے ہوں گے اور اسٹیج پر صدر کے ساتھ مقامی ناظم کو بھی بیٹھنا پڑے گا۔ اب جب کہ میں نظامت کا ابتدائی عرصہ مکمل کرچکا ہوں تو اچانک پولیٹکل ناظم کی حیثیت اختیار کرلوں، یہ میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ میرے لہجے کے قطعی انداز کو سومرو صاحب نے محسوس کر لیا۔ کہنے لگے: ”اس وقت آپ غصے میں ہیں اور جذباتی ہو رہے ہیں۔ اس موضوع پر بعد میں بات کریں گے“۔ وہ اپنے تئیں یہ گمان کررہے تھے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد صورت حال تبدیل ہو جائے گی۔ جوں جوں ریفرنڈم کا وقت نزدیک آرہا تھا، مجھ پر اس کی حمایت کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ گورنر محمد میاں سومرو اور چیف سیکریٹری بھی اپنے اپنے انداز میں اصرار کررہے تھے۔ ریفرنڈم سے کچھ دنوں پہلے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک کرکٹ میچ ہو رہا تھا۔ بحیثیت سٹی ناظم مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا۔میچ کے اختتام پر کور کمانڈر کراچی طارق وسیم غازی سے آمنا سامنا ہوگیا۔ رسمی سلام دعا کے بعد کہنے لگے: ”نعمت صاحب! کل میرے دفتر تشریف لائیے، ساتھ چائے پیتے ہیں“۔ اگلے روز ان کے دفتر پہنچا۔ ملاقات ہوئی تو طارق وسیم غازی نے پہلے تو اِدھر اُدھر کی باتیں کیں، پھر اچانک گفتگو کا رخ تبدیل کرتے ہوئے کہنے لگے: ”نعمت صاحب! ہم نے سنا ہے آپ ریفرنڈم کی حمایت سے گریزاں ہیں“۔” جی! آپ نے بالکل درست سنا ہے“۔ میں نے انہیں جواب دیا۔ ”یہ بات میرے ضمیر کے خلاف ہے کہ میں غیر سیاسی ناظم ہو کر صدر کو سیاسی بنیادیں فراہم کروں۔ محض اصول کی خا طر جماعت اسلامی سے 40 سالہ وابستگی کے باوجود امارت سے استعفیٰ دے دیا، جب کہ اِس سسٹم میں میری مدت تو محض چار سالہ ہے“۔ یہ باتیں سن کر طارق وسیم غازی کہنے لگے:” پھر ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ایسے ناظمین جو ریفرنڈم میں ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے ہیں انہیں کس طرح فارغ کیا جائے!“ میں نے طارق وسیم غازی کو مخاطب کرتے ہوئے کہاI can give you my resignation right now…’’آپ کو مجھے فارغ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ میں ابھی استعفیٰ دے دیتا ہوں‘‘۔ اس بات پر کورکمانڈر سٹپٹا گئے، فوراً بات سنبھالتے ہوئے کہنے لگے: ”آپ میری بات سمجھے نہیں، میرے کہنے کا مطلب کچھ اور تھا“۔ ”آپ نے جو بات کہی، اس کا یہی جواب تھا“ میں نے کہا۔ ماحول کی تلخی کو دور کرنے کے لیے کہنے لگے: ”آپ جذباتی ہو رہے ہیں۔ آرام سے اس بارے میں سوچیے گا“۔ ہماری ملاقات تو ختم ہو گئی لیکن مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں رہا، بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مجھے ٹھنڈے دماغ سے فیصلہ کرنے کا مشورہ دینے والے خود بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگے۔ انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ تہران کی سٹی کونسل نے دورے کی دعوت دی جو میں نے قبول کرلی۔ اس بات کا علم صوبائی حکومت کو ہوا تو انہوں نے ریفرنڈم کی حمایت نہ کرنے کی ’’پاداش‘‘ میں این او سی جاری کرنے سے انکار کردیا۔ این او سی جاری کرنے کا اختیار صوبائی حکومت کے پاس تھا۔ میں نے بھی کہا: ٹھیک ہے آپ مجھے اجازت نہیں دے رہے تو میں نہیں جاتا۔ حکومت ِ ایران نے مجھے مہمان کی حیثیت سے بلایا تھا اس لیے دورے پر جارہا تھا، ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں تھا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ چند ہی دنوں بعد ریفرنڈم کے سلسلے میں ایک جلسۂ عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مجوزہ پروگرام کے متعلق پتا چلا کہ اسٹیج پر صدرِ پاکستان پرویزمشرف کے ساتھ سٹی ناظم کی حیثیت سے مجھے بھی بیٹھنا ہو گا، جب کہ ریفرنڈم کے بارے میں میری رائے صوبائی اور وفاقی حکومت کے ذمہ داران پہلے سے جانتے تھے کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے میں جلسے میں شرکت نہیں کروں گا۔ انہیں خدشہ لاحق ہوگیا کہ ناظمِ کراچی شہر میں موجود بھی ہوں اور اسٹیج پر موجود نہ ہوں تو خواہ مخواہ سبکی ہو گی، پھر میڈیا والے ایشو بنائیں گے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ مجھے ایران جانے کی اجازت دے دی جائے۔ پھر ایک رات گورنر سندھ میاں محمد سومرو بغیر کسی پروٹوکول کے میرے گھر آئے، رسمی سلام دعا کے بعد کہنے لگے: ”ریفرنڈم کے سلسلے میں گورنر ہائوس میں صدر پرویزمشرف کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی ہے۔ اس میں پورے صوبے کے تحصیل و سٹی ناظمین شرکت کریں گے، لہٰذا آپ ضرور تشریف لائیے گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ وہ کچھ دیر رکے اور رخصت ہوتے وقت پھر یاد دہانی کرائی۔ اُس وقت تک پورے صوبے بلکہ پاکستان کے اکثر ناظمین کے علم میں یہ بات آگئی تھی کہ میں ریفرنڈم کی حمایت نہیں کر رہا۔ خیر! مقررہ دن ناظمین کی میٹنگ میں شرکت کے لیے گورنر ہاؤس پہنچا تو وہاں پہلے سے موجود ناظمین نے دیکھتے ہی نعرے لگائے ”ناظم صاحب آگئے۔ ناظم صاحب آگئے“۔ غالباً انہوں نے گمان کیا کہ ریفرنڈم کی حمایت پر میرے اور صدر مشرف کے درمیان کوئی ڈیل ہو گئی ہے۔ دوسری طرف پروگرام کے منتظمین کا خیال تھا کہ میں اپنی رائے کی وجہ سے پروگرام میں شرکت نہیں کروں گا۔ اس لیے اسٹیج پر میرے بیٹھنے کے لیے کرسی موجود نہیں تھی۔ فوراً کرسی رکھوائی گئی۔ پروگرام کا آغاز ہوا۔ صدر مشرف نے ریفرنڈم کے ثمرات پر ایک مفصل تقریر کی۔ اس کے بعد سوالات کا سیشن شروع ہوا۔ درمیان میں کسی نے سوال کی پرچی بھیجی تو صدر مشرف نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا: نعمت اللہ صاحب اس سوال کا جواب دیں گے۔ اور پرچی میری جانب بڑھا دی۔ سوال کا جواب دیا۔ پروگرام تھوڑی دیر مزید جاری رہا۔ اختتام پر میں اپنے سیکریٹری اور سٹی کونسلر توصیف کے ہمراہ اجلاس والے کمرے سے باہر جانے کے لیے تیز قدموں سے دروازے کی طرف بڑھا ،کیوں کہ تہران کی فلائٹ کا وقت بھی نزدیک تھا۔ ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی ”نعمت صاحب، نعمت صاحب!“ پیچھے مڑ کر دیکھا تو گورنر سندھ کے پرنسپل سیکریٹری بریگیڈیئر اختر ضامن مجھے روکنے کے لیے آوازیں لگا رہے تھے۔ تیزی سے میرے نزدیک پہنچے اور بغیر کچھ کہے ہاتھ پکڑ کر مجھے دوسرے دروازے پر لے آئے جہاں پرویزمشرف کو ناظمین سے ملاقات کرتے ہوئے رخصت ہونا تھا۔ غالباً ان کی شدید خواہش تھی کہ اس آخری موقع پر ریفرنڈم کی حمایت کی کوئی صورت بن جائے۔ لیکن صدر مشرف ملاقات کرکے چلے گئے، میرا ارادہ بدستوربرقرار رہا۔ اس لیے پرنسپل سیکریٹری کی آخری کوشش بھی رائیگاں چلی گئی۔ ان کے رخصت ہوتے ہی میں بھی سیدھا ایئرپورٹ پہنچا اور ایران کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں تقریباً دس دن قیام کیا۔ اس دوران تہران سٹی کونسل کے میزبانوں نے غیر معمولی انداز سے میزبانی کی، اور سب لوگوں کی طرف سے بے انتہا محبت اور عزت دی گئی۔ پروگرام کے اختتام پر مختلف تاریخی مقامات بالخصوص مشہد کے دورے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ واپس آیا تو پتا چلا کہ ریفرنڈم میں سوائے میرے پاکستان کے تمام ناظمین پرویزمشرف کے دست و بازو بنے ہوئے تھے۔ ریفرنڈم میں ایک اصولی مؤقف اپنانے اور اس پر جمے رہنے کی وجہ سے جماعت کے کچھ حلقوں میں میرے متعلق قائم یہ تاثر بھی ختم ہوگیا کہ میں نظامت کے عہدے کی وجہ سے پرویزمشرف کی بے جا حمایت کرتا ہوں۔ جبکہ اصل بات یہ تھی کہ پرویزمشرف میری نظر میں کراچی کی ترقی کے خواہاں تھے۔ ابتدا میں متحدہ اور الطاف حسین کی طرزِ سیاست کے سخت مخالف تھے لیکن 2002ء کے الیکشن کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ کراچی کی تباہی کے سب سے بڑے ذمہ داروں کے سب سے بڑے سرپرست بن گئے۔
ریفرنڈم کے چند ماہ بعد اسلام آباد میں پرویزمشرف کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی، بعد میں ان سے ون ٹو ون ملاقات ہوئی تو مسکراتے ہوئے کہنے لگے: ”نعمت صاحب! آپ نے تو ریفرنڈم میں میری مخالفت کی تھی۔ آپ کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے اس وجہ سے نا!“ میں نے جواب دیا: ”یہ فیصلہ میرے ضمیر کے خلاف تھا اس لیے حمایت کرنا ممکن نہیں تھا“۔ اس پر پرویزمشرف قدرے بے تکلفی سے کہنے لگے:” ارے! چھوڑیے ان باتوں کو، میں تو مذاق کر رہا تھا۔ میں ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔“
متحدہ مجلس عمل کی کامیابی
10 اکتوبر2002ء کو ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے۔ جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور جمعیت علمائے پاکستان اور چند دیگر مذہبی جماعتوں نے ان انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا، جس کا انتخابی نشان کتاب تھا۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد لوگوں میں بہت غم و غصہ تھا اور ان کی بڑی تعداد یہ سمجھ رہی تھی کہ امریکہ اور مغربی ممالک مسلمانوں کو دہشت گرد اور شدت پسند قرار دے کر تباہ کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ افغانستان کے ساتھ کیا گیا ہے اور ماضی میں عراق پر جھوٹے الزامات لگا کر اسے تباہ کیا جا چکا ہے۔ کراچی میں 178یونین کونسلز، 18 ٹائونز اور سٹی گورنمنٹ کے تحت گزشتہ ایک سال میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا بھی لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا تھا۔ ان کے مسائل کے حل کے لیے گلی محلوں میں منتخب نمائندے موجود تھے جو بآسانی ان کی دسترس میں تھے۔ سچ یہ ہے کہ لوگ متحدہ کی طرزِ سیاست سے پریشان تھے لیکن ان کے سامنے کوئی متبادل بھی نہیں تھا اور انہیں یہ یقین بھی نہیں تھا کہ ہم جس پارٹی کو ووٹ دیں گے، نتیجہ بھی اسی کے حق میں سنایا جائے گا اور پولنگ پُرامن انداز میں ہوگی۔
اکتوبر 2002ء کے الیکشن سے پہلے ماحول خاصا بہتر ہوچکا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے آزادانہ ماحول میں ووٹ ڈالے۔ گوکہ سہ پہر تین بجے کے بعد کئی جگہوں پر دھاندلی کا بازار گرم کردیا گیا، لیکن اُس وقت تک کئی حلقوں میں صورتِ حال واضح ہوچکی تھی۔
میڈیا کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ اہلِ کراچی نے متحدہ کو کئی حلقوں میں مسترد کردیا ہے۔ کراچی میں مجلس عمل نے قومی و صوبائی اسمبلی کی کئی نشستیں جیت لیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما محمد حسین محنتی، عبدالستار افغانی، اسداللہ بھٹو اور لئیق خان رکن قومی اسمبلی، جبکہ نصراللہ شجیع، یونس بارائی اور حمید اللہ خان رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے۔ کئی حلقوں میں ہمارے امیدوار بہت کم ووٹ سے ہارے بلکہ ہروائے گئے، کیونکہ شام کے وقت متحدہ نے اپنے روایتی طور طریقے اپنا کر پولنگ اسٹیشنز پر قبضے کرلیے تھے اور پولنگ کے عملے کو یرغمال بناکر من مانے نتائج جاری کروانے لگے تھے۔
سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن پسِ پردہ قوتوں نے کچھ اراکین ِاسمبلی کے ضمیروں کا سودا کرکے اکثریتی پارٹی کو اقتدار سے محروم رکھا، اور متحدہ اور کچھ دیگر گروپوں کو ملا کر اکثریت حاصل کرلی گئی۔ علی محمد مہر وزیراعلیٰ بنا دیے گئے۔
یہاں سے نئے انداز کے مسائل کا آغاز ہوگیا۔ متحدہ قومی موومنٹ نے من پسند وزارتیں حاصل کرکے شہری حکومت کے راستے میںرکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کر دیں۔