وہ حادثہ نہیں سانحہ تھا
15اپریل1985ء کو دوپہر تقریباً ایک بجے دفتر سے گھر آکر کھانا کھا رہا تھا کہ حکیم عبدالوہاب نے فون پر اطلاع دی: گولیمار چورنگی پر ٹریفک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ جاں بحق ہوگئی ہے، جبکہ اس کی بہن شدید زخمی ہے۔ آپ عباسی ہسپتال آجائیں۔ کھانا ادھورا چھوڑا اور خود گاڑی چلاتے ہوئے ہسپتال پہنچ گیا۔ ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا تو ایک قیامت بپا تھی، کالج یونیفارم میں ملبوس طالبہ بشریٰ زیدی کی نعش ایک جانب رکھی تھی، دوسری طرف اس کی بہن نجمہ زیدی شدید زخموں کی وجہ سے زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی، اور دو جوان بیٹیوں کی حالت دیکھ کر غمزدہ ماں سکتے کی حالت میں تھی۔ بشریٰ زیدی کی ساتھی طالبات اور کالج کا عملہ شدید غم و غصے کی کیفیت میں تھا۔ ہسپتال کے عملے کی کیفیت قابلِ رحم تھی، مشتعل لوگ ڈرائیور کا غصہ ان پر نکال رہے تھے۔ کالج گاؤن میں ملبوس ایک خاتون تیز لہجے میں بولیں: کہاں ہیں وہ صاحب جو اس حلقے سے منتخب ہوئے ہیں، اب کیوں نظر نہیں آرہے؟ میں نے خاتون کی طرف رخ کیا۔ جی فرمائیے!! میں موجود ہوں، بتائیے کیا کہنا چاہ رہی ہیں۔ انہوں نے جواب بھی نہیں دیا تھا کہ کالج کی چند لڑکیاں اور کچھ نوجوان بھاگتے ہوئے ہسپتال میں داخل ہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں پولیس کی بھاری نفری اندر داخل ہو گئی اور وہاں موجود لوگوں پر بلا تخصیص لاٹھیاں برسانا شروع کردیں، جس سے صورت ِحال مزید کشیدہ ہوگئی۔ رکن قومی اسمبلی پروفیسر عثمان رمز اور حکیم عبدالوہاب جماعت کے درجنوں کارکنان کے ساتھ وہاں پہنچ چکے تھے۔ میں پولیس کو روکنے کے لیے آگے بڑھا تو ایک اہلکار مجھ پر چڑھ دوڑا۔ حکیم عبدالوہاب ڈھال بن گئے، جس کی وجہ سے پڑنے والی لاٹھیوں نے ان کا جسم لہولہان کردیا۔ اس دوران بشریٰ زیدی کے عزیز و اقارب بڑی تعداد میں وہاں پہنچ گئے۔ ان سے پوچھا کہ بچی کے والد کہاں ہیں؟ پتا چلا روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہیں اور وہ بھی دور دراز صحرائی علاقے میں، جس کا فوری اتاپتا معلوم کرنا مشکل تھا۔ اب کیا کیا جائے؟ سانحے کی اطلاع دیے بغیر چارہ نہیں تھا۔ رابطے کے لیے پتا موجود نہیں تھا۔ اس مشکل مرحلے میں اللہ نے رہنمائی اس طرح کی کہ سعودی عرب میں رہائش پذیر اپنے ایک کلائنٹ کو فون کیا، ساری صورت حال تفصیل سے بتائی اور کہا جس طرح بھی ممکن ہو اس بچی کے والد سے رابطہ کریں اور ان سے میری بات بھی کروائیں۔ اس نے بڑی کوشش کرکے غمزدہ گھرانے کے سربراہ کو تلاش کیا۔ پھر مجھے ان کا فون نمبر دیا۔ بشریٰ زیدی کے والد شبیر زیدی کو فون پر اس اندوہناک حادثے کی خبر سنائی۔ ان سے کہا کہ پہلی دستیاب پرواز سے کراچی پہنچ جائیں۔ وہ رات ڈھائی بجے کراچی پہنچے۔ انہیں ائیرپورٹ پر اپنی گاڑی میں بٹھایا، اور سیدھا عباسی شہید ہسپتال کے مُردہ خانے جا پہنچا۔ باپ نے جس طرح جوان بچی کی لاش دیکھی اور نوحہ کیا.. وہ منظر میں زندگی بھر نہ بھلاسکا !
شبیر زیدی کی طبیعت ذرا بحال ہوئی تو آئی سی یو میں لے جا کر بے ہوش نجمہ زیدی کو دکھایا۔ پھر فجر سے کچھ دیر پہلے انہیں گھر لے جا کر چھوڑا۔ حالات معمول پر آنے اور شدتِ غم میں کمی آنے کے بعد ان کا میرے گھر آنا جانا شروع ہوگیا۔ گفتگو میں بے تکلفی کا مرحلہ آیا تو پتا چلا موصوف کا تعلق بھی میرے آبائی علاقے شاہ جہاں پور سے ہے۔ زخمی ہونے والی بچی جب مکمل صحت یاب ہوگئی اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کا رشتہ طے ہوا تو وہ شادی کا دعوت نامہ لے کر آئے، خاصا اصرار کرنے لگے کہ آپ کو ہر قیمت پر شرکت کرنی ہے۔
بشریٰ زیدی کی شہادت کا حادثہ شہر کی سطح پر سانحے کی شکل اختیار نہ کرتا اگر انتظامیہ بروقت حرکت میں آجاتی اور پولیس متعلقہ منی بس ڈرائیور کو فوری گرفتار کرلیتی، نہ کہ غم و غصے کا اظہار کرنے والی طالبات اور دیگر مظاہرین پر ڈنڈے برساتی۔ نتیجتاً اشتعال پھیلتا چلا گیا، یہاں تک کہ احتجاج کرنے والوں کے ہجوم میں بلوائی بھی شامل ہو گئے اور محض چند گھنٹوں میں کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ درجنوں افراد کو باقاعدہ نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا۔ یہی معاملہ لوگوں کی املاک کے ساتھ کیا گیا۔ کراچی مقتل کا منظر پیش کر رہا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ شہر کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔
پہلی مرتبہ مہاجر، پٹھان قومیتوں کی باتیں علی الاعلان ہونے لگیں۔ بنارس، منگھوپیر، پیر آباد، علی گڑھ، قصبہ کالونی اور اورنگی ٹائون کے درمیان ایک اَن دیکھی خونیں لکیر کھنچ گئی۔ اس تمام عرصے میں وزیراعلیٰ سندھ سید غوث علی شاہ کا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ تھا۔ ہنگامے جتنی تیزی سے پھیل رہے تھے اسی قدر مستعدی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتظامیہ کو حرکت میں لانے کے بجائے اُن کا سارا انحصار اپنے ہمنوا اراکین کے ذریعے ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کانعرہ بلند کرنے پر تھا۔ انتظامیہ حالات کو کنٹرول کرنے کے بجائے روزانہ خبرنامے کے انداز میں پریس نوٹ اخبارات کو جاری کردیتی، اور اس کے اہم نکات یہی ہوا کرتے تھے کہ صورت حال معمول کے مطابق ہے، شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا، عوام پُرامن رہیں، وغیرہ وغیرہ۔ انہی دنوں میں نے ایک موقع پر گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل جہانداد خان سے کہا کہ آپ حادثے کے ذمہ دار منی بس ڈرائیور کو پھانسی دے دیں، لوگوں کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا، پھر حالات بھی پُر امن ہو جائیں گے۔ فرمانے لگے: خان صاحب آپ پھانسی کی بات کر رہے ہیں، ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے میرے تو بس اتنے اختیارات ہیں کہ مارشل لا کی سمری کورٹ کے ذریعے ڈرائیور کا ٹرائل کرواؤں، اور سال، چھ مہینے قید کی سزا دلوادوں۔ آپ تو وکیل ہیں اور جانتے ہی ہیں کہ ٹریفک حادثے میں قتلِ خطا کی ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ ان کی بے بسی والی گفتگو سن کر جی کٹ سا گیا۔ کراچی میں لگنے والی آگ کی تپش اسلام آبادکے ایوانوں تک پہنچنے لگی۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو چند وزراء کے ہمراہ کراچی پہنچے۔ حالات کے بارے میں گفتگو کے لیے گورنر ہائوس میں اجلاس طلب کیا گیا۔ اس میں شہر کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی بلایا گیا۔ میں اور عثمان رمز تھوڑی تاخیر سے اجلاس میں پہنچے، کیونکہ راستے میں کئی جگہ ٹریفک بلاک ملا تھا۔ سید غوث علی شاہ اختتامی تقریر کررہے تھے۔ جیسے ہی ان کی گفتگو مکمل ہوئی، میں نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”جناب میں بھی کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں“۔ ”جی فرمائیے“ انہوں نے اجازت دی۔ اس پر میں نے کہا ”جس وقت کراچی کے مختلف علاقے آگ میں جل رہے تھے اور بلوائیوں کے نرغے میں تھے، اُس وقت آپ کے وزیراعلیٰ کہاں تھے؟ اجلاس سے ایک دن قبل کی بات ہے شہر کے حالات کے حوالے سے جماعت اسلامی ضلع وسطی (عقب بقائی ہسپتال) کے دفتر کی گلی میں جلسۂ عام منعقد ہوا۔ میں اسٹیج پر تقریر کررہا تھا، شرکاء میں سے ایک صاحب نے چٹ لکھ کر دی جو بغیر دیکھے جیب میں رکھ لی، جلسے کے اختتام کے بعد فرصت ملی تو وہ چٹ پڑھی، اس میں لکھا تھا دو شرپسند جو جلائو گھیرائو کرنے والوں کی قیادت کر رہے تھے انہوں نے اس وقت وزیراعلیٰ سید غوث علی شاہ کی کابینہ میں شامل صوبائی وزیر میر نواز خان مروت کے گھر میں پناہ لی ہوئی ہے“۔ پرچی پر درج عبارت میں نے من و عن وزیراعظم جونیجو کے سامنے پڑھ کر سنا دی۔ وزیرِ موصوف بھی اجلاس میں موجود تھے، جیسے ہی یہ بات سنی، کھڑے ہو کر فضا میں ہاتھ بلند کر دیے اور اونچی آواز میں کلمہ پڑھ کر اپنی بے گناہی کی قسمیں کھاتے رہے۔ اجلاس کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اراکین و وزراء آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ گفتگو کے دوران سید غوث علی شاہ اپنی جانب میری طرف سے انگلی کا رخ کرکے حالات کا موردالزام ٹھیرانے پر سخت سیخ پا تھے۔ جوں ہی موقع ملا کہنے لگے ”بھئی نعمت صاحب کو تو ہماری ہر بات بری لگتی ہے۔“
روایتی وعدے وعید اور امن وامان کو بہتر بنانے کی یقین دہانیوں کے ساتھ اجلاس ختم ہو گیا۔ دوسری طرف حالات تھے کہ کسی طور کنٹرول میں نہیں آرہے تھے۔ کرفیو کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اخبارات، بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، اپوزیشن، بلکہ خود حکومتی حلقوں میں بھی باتیں ہونے لگیں کہ حکومت صورت حال کو قابو کرنے میں کیوں ناکام ہو رہی ہے۔ بعض کی رائے یہ تھی کہ اگر ہم عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم نہیں کر سکے تو ہر طرف سے تھو تھو ہوگی۔ اطلاع ملی وزیراعظم ایک مرتبہ پھر صورت حال کا جائزہ لینے کراچی تشریف لا رہے ہیں۔ اِس مرتبہ وہ شہر میں بسنے والی مختلف قومیتوں سے یکجہتی کے لیے اپنے ہمراہ پنجاب و سرحد کے اراکینِ اسمبلی اور دیگر ذمہ داران کو لے کر آئے۔ امن و امان کے جائزے کے لیے گورنر ہائوس میں اجلاس بلایا جس میں شہر کے تمام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی مدعو کیا گیا۔ طبیعت کچھ ناساز تھی اس کے باوجود میں نے شرکت کا ارادہ کیا۔ اجلاس کی کارروائی شروع ہونے میں کچھ دیر تھی، محمد خان جونیجو گورنر ہائوس پہنچ چکے تھے اور دوسرے کمرے میں اپنے رفقا سے صلاح مشورے میں مصروف تھے، جب کہ مرکزی ہال جہاں اجلاس ہونا تھا، وہاں حکومتی اراکین بار بار مزاج پرسی کے لیے میرے پاس آتے اور ساتھ ہی پوچھتے ”آج آپ بیمار ہیں، تقریر تو نہیں کریں گے نا؟“
مجھے بخار تھا اور گلے میں انفیکشن بھی تھا، ارادہ یہی تھا کہ گفتگو نہیں کروں گا۔ لیکن کارروائی شروع ہونے کے کچھ دیر بعد اورنگی ٹائون سے تعلق رکھنے والے حکومتی رکن اسمبلی حسیب ہاشمی نے اپنی تقریر میں وزیراعلیٰ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیے تو جی تلملا کر رہ گیا۔ اس اعلان کے باوجود کہ حسیب ہاشمی کی تقریر آخری ہے، اس کے بعد کارروائی مکمل کردی جائے گی، میں اپنی جگہ کھڑا ہوا اور وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”جناب آج کے اجلاس میں بہت سارے معاملات پر گفتگو ہوئی لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں مزید جائزہ لینے کی گنجائش ہے اور اس سلسلے میں، مَیں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔وزیراعظم اس سے پہلے والے اجلاس میں میری گفتگو سننے کی وجہ سے واقف تھے، فوراً اجازت دے دی۔ بغیر کسی تمہید کے گفتگو کا آغاز کیا اور وزیراعلیٰ سندھ سمیت صوبائی کابینہ کی نااہلی اور شہر کے حالات کو بہتر نہ بنانے پر خوب محاکمہ کیا۔ بغیر رکے تقریر کرنے کے دوران زبان دانتوں تلے دب گئی، خون بہتا ہوا قمیص کے کالر تک پہنچ گیا۔ میری تقریر کے بعد غوث علی شاہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے۔ وہ صوبے میں امن و امان قائم کرنے کے حوالے سے اقدامات اور حکمت ِعملی بتانے کے بجائے میری باتوں کا جواب دیتے رہے۔
اس گرما گرمی کے بعد اجلاس ختم ہوا۔ شرکاء باہر آنے لگے۔ ان میں سینیٹر پروفیسر خورشید احمد بھی شامل تھے۔ کپڑوں پر خون دیکھ کر مزاج پرسی کرنے لگے۔ جب کہ وزیراعظم کے ہمراہ آنے والے اراکین اسمبلی مبارکباد دیتے ہوئے کہنے لگے ”نعمت صاحب! آج آپ نے کراچی کی نمائندگی کا حق ادا کردیا۔ حکومتی کیمپ میں ہونے کی وجہ سے ہم مصلحتوں کا شکار رہے“۔ اجلاسوں کی بھرمار حالات کو کنٹرول نہیں کرسکتی تھی۔ بدقسمتی سے اس کی خواہش بھی نظر نہیں آرہی تھی۔
بشریٰ زیدی کی شہادت کے حادثے نے شہر کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ منظم ہنگامہ آرائی کے پیچھے لسانیت اور تعصب کی چنگاریاں تھیں جو بھڑکنے کے لیے مناسب وقت اور ایندھن کی منتظر تھیں۔ انتظامیہ نے کچھ عرصے کے بعد شہر کے معاملات کو بہتر بنا لیا اور بظاہر حالات معمول پر آگئے۔ شہر میں بلدیاتی نظام جماعت کے پاس تھا، گو کہ میئر اور کونسلرز کے مالی و انتظامی اختیارات بہت محدود تھے لیکن میئر اور کونسلرز اور اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی نے شہر کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کراچی کو اس کے جائز حقوق دلانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔
سندھ اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف
سندھ اسمبلی کے اسپیکر عبداللہ حسین ہارون نے ایک سال تک ہاؤس چلایا۔ پھر ان کے حکومت سے کچھ اختلافات ہو گئے۔ انہوں نے 31 مارچ 1986ء کو اپنی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی جگہ مظفر علی شاہ نے عہدہ سنبھال لیا۔ کچھ عرصے کے بعد حسین ہارون کو خیال آیا کہ ہائوس میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ موجود نہیں ہے۔ اس کے بغیر اسمبلی کا ماحول سونا سونا رہتا ہے، کیوں نا اس عہدے کے لیے خود کو پیش کیا جائے۔
انہوں نے ارادہ کیا اور حکمت عملی ترتیب دی، لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دی۔ اسمبلی کا بجٹ اجلاس جاری تھا۔ ہم نے دیگر غیر حکومتی اراکین کے ساتھ مل کر بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ اسمبلی سے باہر آنے والوں میں حسین ہارون پیش پیش تھے۔ اراکین اسمبلی کوریڈور میں جمع تھے، حسین ہارون نزدیک آئے اور کہنے لگے ”آئیے نعمت صاحب پریس کانفرنس کرتے ہیں“۔ یہ کہہ کر انہوں نے قدم آگے بڑھائے تو دیکھا وہاں بغیر کسی اعلان کے کچھ اخباری رپورٹر اور فوٹو گرافر ٹہل رہے ہیں۔ میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ چھٹی حس نے خبردار کیا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ فوراً حسین ہارون کی پیش کش کی تائید کرتے ہوئے کہا ”ضرور کیوں نہیں، بالائی منزل پر جانے کی زحمت کرنے کے بجائے ہمارا اپنا کمیٹی روم موجود ہے، اسی میں پریس کانفرنس کرلیتے ہیں“۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو بقیہ اراکین نے مجھے درمیان والی کرسی پر بٹھا دیا۔ صحافی بھی بیٹھ گئے۔ روزنامہ جنگ کے عارف الحق عارف عین سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر گفتگو کا آغاز کردیا۔ اسمبلی میں حکومتی رویہ، حالات، مسائل، بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں اور دیگر اہم معاملات پر بات کی۔ حسین ہارون نے صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ نعمت اللہ صاحب نے جو کہا وہ کافی ہے۔ اگلے دن کے اخبارات میں بجٹ اجلاس کے بائیکاٹ کو نمایاں جگہ ملی اور مجھے لیڈر آف دی اپوزیشن قرار دے دیا گیا۔
صوبائی حکومت کے وزراء اور افسران کی کرپشن اور مالی بے قاعدگیوں کے بارے میں بھی چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں۔ کچھ اخبارات وزیراعلیٰ پر بھی مالی معاملات میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے تھے۔ اچانک خبر ملی کہ صوبائی حکومت نے سندھ شوگر بورڈ کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بڑی حیرت ہوئی کہ ایک منافع بخش سرکاری ادارے کو کیوں بند کیا جارہا ہے! ایک دوست کی معرفت چیئرمین سے ملاقات کی اور پوچھا کہ آپ سندھ شوگر بورڈ کیوں ختم کرنا چاہ رہے ہیں؟ انہوں نے چپراسی سے فائلوں کا ایک بنڈل منگوایا اور ان میں سے مختلف خطوط نکال کر دکھاتے ہوئے کہنے لگے ”دیکھیے جناب، صنعت کے صوبائی وزیر نے کارپوریشن کو گنا فراہم کرنے کی پیش کش کی اور اس کے عوض 30 لاکھ روپے ایڈوانس وصول کرلیے، کئی مہینے ہونے کو آرہے ہیں یاددہانی کے باوجود گنا فراہم کررہے ہیں اورنہ ہی ایڈوانس کی رقم لوٹا رہے ہیں۔ جب ہم نے تھک ہار کر رقم کی وصولی کے لیے انہیں خط لکھا تو وہ برا مان گئے اور انتقام لینے کے لیے ادارہ ہی توڑنے پر تل گئے“۔ سندھ شوگر بورڈ کے چیئرمین نے جو کتھا کہانی سنائی وہ انتہائی تکلیف دہ تھی۔ کچھ دن کے بعد اسمبلی کا اجلاس بلایا گیا۔ تقاریر شروع ہوئیں۔ اراکین اپنی اپنی باری پر بولتے رہے۔ میرا نمبر آیا تو قصداً دھیمے لہجے میں گفتگو کی اور کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ منافع بخش ادارے ہمارا اثاثہ ہیں، انہیں بند کرنا مناسب نہیں۔ ابھی اس طرح کے دو چار جملے ہی ادا کیے تھے کہ وزیر موصوف اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے اور تقریباً چیختے ہوئے کہنے لگے ’’مجھے معلوم ہے تمہیں یہ باتیں کس نے بتائی ہیں۔ میں دیکھ لوں گا۔“ مزے کی بات یہ کہ گنا فراہم کرنے کے وعدے اور لیے گئے ایڈوانس کو لوٹانے کے متعلق انہوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ ان کی بات سن کر میں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’جناب ابھی تک میں نے اپنی گفتگو میں کسی کا نام نہیں لیا تھا۔ چوں کہ وزیرِ موصوف نے بات چھیڑ دی ہے تو یہ بتائیں کہ انہوں نے سندھ شوگر کارپوریشن سے تیس لاکھ روپے گنا فراہم کرنے کے لیے ایڈوانس حاصل کیے تھے؟ کہیے ہاں! کیا وعدے کے مطابق گنا فراہم کیا گیا؟ کہیے نہیں۔ پھر جو ایڈوانس لیا تھا وہ واپس کیا؟ کہیے نہیں۔ اس کے بعد کارپوریشن کے چیئرمین نے وصولی کے لیے خط لکھا تو اس قدر ناراض ہوگئے کہ کارپوریشن توڑنے پر تل گئے“۔ اتنا کہنا تھا کہ سارے وزراء اپنے بدعنوان ساتھی کی پشت پناہی کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوگئے اور چیخ پکار کرنے لگے۔ اس غل غپاڑے کے باوجود میں نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ اسمبلی ہال کے ساتھ دوسرے کمرے میں موجود ایک سرکاری افسر اشفاق بلوچ کلوز سرکٹ کیمرے کے ذریعے یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ وہ اجلاس کے بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے ”نعمت صاحب! آپ کو پتا ہے یہ کون لوگ ہیں؟ رسہ گیر ہیں، اکثر ڈاکو انہی کے پالے ہوئے ہوتے ہیں۔ مخالفین کو قتل تک کروا دیتے ہیں“۔ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے بولے ”یہ بڑے خطرناک لوگ ہیں۔ میں کیمرے میں دیکھ رہا تھا آپ صوبائی وزیر کے خلاف بڑی دیدہ دلیری سے مسلسل بولے جارہے تھے“۔ قریب کھڑے ڈاکٹر اطہر قریشی نے کہا ’’بھئی جماعت اسلامی نے ہماری یہی تربیت تو کی ہے کہ حق کے معاملے میں مداہنت سے کام نہ لیں۔‘‘ وزیر موصوف نے غوث علی شاہ سے کہہ کر چیئرمین کا تبادلہ کروا دیا۔ اس دوران سکھر جیل ٹوٹنے کا ناقابلِ یقین واقعہ پیش آیا، جس پر وقتی طور پر خوب شور و غوغا ہوا۔ اخبارات نے اس واقعہ کو شہ سرخیوں میں جگہ دی، لیکن کسی بڑے ذمہ دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ تک کہا گیا کہ جیل ٹوٹنے اور کئی خطرناک مجرموں کے فرار میں وزیراعلیٰ خود بھی ملوث ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس الزام کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔
1986ء میں ہونے والے تین واقعات نے آگے چل کر روشنیوں کے شہر کی ہیئت بدل کر رکھ د،ی اور طویل عرصے تک اسے تاریکیوں، ہنگاموں، تشدد، جلاؤ گھیراؤ، سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تباہی، زمینوں پر ناجائز قبضہ، کرپشن، بھتہ خوری اور قتل و غارت گری کا شہر بنا دیا۔