بڑے قد کے اجلے لوگ -


بڑے قد کے اجلے لوگ

 

سن 1977ء پاکستان کی تاریخ کا ایک بدقسمت سال ثابت ہوا۔ حکومت کے خلاف احتجاج ملک کے اکثر شہروں اور قصبوں تک پھیل گیا۔ قومی اتحاد اور حکومتی نمائندوں کے درمیان مذاکرات کے کئی دور چلے اور قریب تھا کہ کوئی معاہدہ طے پا جاتا کہ 4 اور 5 جولائی کی درمیانی شب فوج نے ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر زمامِ کار سنبھال لی۔ مارشل لا ایک بار پھر ملک کا مقدر ٹھیرا۔ 3 ستمبر 1977ء کو بھٹو صاحب کو گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ دن کے بعد جنرل ضیاء نے قوم سے خطاب کیا جو پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو سے نشر کیا گیا۔ پروفیسر غفور احمد اور دیگر ذمہ داروں کے ساتھ یہ خطاب سننے کا موقع ملا۔ انہوں نے پہلے تو سیاست دانوں کو جی بھر کر باتیں سنائیں، اس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ آئندہ حالات کیا رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ اس لیے جہاں جہاں جماعت کے بینک اکائونٹس تھے، ان سے پیسے نکلوا لیے گئے۔ سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے رقم خاصی زیادہ تھی۔ ایک اکائونٹ ڈاکٹر افتخار کے ساتھ مشترکہ تھا، وہ نجی دورے پر بھارت گئے ہوئے تھے۔ اس لیے وہ اکائونٹ سیل ہوگیا۔ لیاقت آباد کے مرکزی میت بس سروس کے دفتر سے تمام میت گاڑیاں نارتھ کراچی میں ایک واقف کار کے خالی پلاٹ پر بھجوا دیں۔ پینٹر کو بلایا اور اس سے گاڑیوں اور دفاتر سے جماعت اسلامی شعبۂ خدمتِ خلق کا نام مٹوایا۔ سب پر الخدمت ویلفیئر سوسائٹی لکھوا دیا جو 1976ء میں قائم کی جاچکی تھی۔ اس طرح جماعت اسلامی کی سماجی خدمات کا سلسلہ جاری رہا۔

ضیاء الحق کے ابتدائی دور میں امیر جماعت کے انتخاب کا مرحلہ پیش آیا۔ 1972ء میں جب مولانا مودودیؒ نے خرابیِ صحت کی وجہ سے امارت کی ذمہ داری سے معذرت کی تھی تو ارکانِ جماعت نے میاں طفیل محمد کو امیر منتخب کر لیا تھا۔ میاں صاحب درویش خدا مست تھے اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی زندہ مثال تھے۔ ان جیسا متقی فرد اور اقامتِ دین کا پکا نظریاتی مجاہد کم از کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ ارکان نے بھاری اکثریت سے انہیں دوبارہ امیر منتخب کرلیا۔ جس وقت اعلان ہوا میں کسی کام کے سلسلے میں ان کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اطلاع سن کر میاں طفیل محمد کی زبان سے بے اختیار نکلا …اناللہ و انا الیہ راجعون۔ احساسِ ذمہ داری کے باعث ان کی کیفیت عجیب ہوگئی تھی۔ حلف اٹھاتے وقت زار و قطار رو رہے تھے۔

4اگست1978ء کو جنرل ضیاء نے پاکستان قومی اتحاد کے قائدین کے ساتھ ایک میٹنگ کی اور انھیں وفاقی کابینہ میں شرکت کی دعوت دی۔ اس ملاقات میں یہ طے پایا کہ اکتوبر 1979ء سے قبل ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں گے۔ کچھ دنوں کے بعد قومی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے چوبیس افراد نے وفاقی وزراء کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ ان میں جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی اور چودھری رحمت الٰہی بھی شامل تھے۔ بعد ازاں پروفیسر خورشید احمد کو بھی کابینہ میں شامل کرلیا گیا۔

وفاقی وزیر بننے کے بعد پروفیسر غفور احمد کے لیے کراچی جماعت کی امارت کی ذمہ داری کو مزید سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔ نومبر 1977ء میں پروفیسر عثمان رمز صاحب نے یہ منصب سنبھالا۔ پروفیسر رمز صاحب کا شمار جماعت کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ 1971ء میں مشرقی پاکستان سے ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ پروفیسر غفور احمد فروری 1972ء سے اکتوبر 1977ء تک کراچی جماعت کے امیر رہے، جبکہ ان سے پہلے حکیم صادق حسین صاحب دو سال تک امیر رہ چکے تھے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ کا انتقال

22ستمبر1979ء کی رات نو بجے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن سے بانیِ جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کی انتہائی صدمہ انگیز خبر نشر ہوئی۔ اس خبر کے نشر ہوتے ہی مولانا کے ہزاروں عقیدت مند ان کی قیام گاہ 5 ذیلدار پارک اچھرہ اور جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر منصورہ پہنچنا شروع ہوگئے۔ کراچی میں جماعت کے دفاتر پر کارکنان کا تانتا بندھ گیا۔

23 اور 24 ستمبر کے دن غم اور یاس میں ڈوبے ہوئے لوگ منتظر تھے کہ مولانا مودودیؒ کا جسدِ خاکی کب نیویارک سے لاہور پہنچتا ہے۔ مولانا مودودی ؒ کے عزیز اور رشتہ دار مولانا کی میت کو لاہور پہنچانے کے لیے ہوائی جہاز کا بندوبست کررہے تھے۔ اس دوران انہیں حکومتِ ایران کی طرف سے مولانا کی میت کو ہوائی جہاز کے ذریعے لاہور پہنچانے کی پیشکش کی گئی۔ سعودی عرب کے شاہ خالد کی طرف سے بھی اسی قسم کی پیشکش کی گئی۔

مولانا کے اہلِ خانہ ابھی ان تجاویز پر غور کر ہی رہے تھے کہ حکومتِ پاکستان نے بھی جماعت اسلامی پاکستان سے کہا کہ اگر اپ اجازت دیں تو حکومت اپنے خرچ پر مولانا مودودیؒ کے جسدِ خاکی کو لاہور لے جانے کا بندوبست کرے۔

تینوں حکومتوں کی طرف سے کی گئی پیشکشوں پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر میاں طفیل محمد، مولانا کے اہلِ خانہ اور جماعت کے رہنماؤں نے مشورہ کیا۔ ان سب نے متفقہ طور پر ایران، سعودی عرب، اور پاکستان کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے خرچ پر مولانا مودودیؒ کا جنازہ نیویارک سے پاکستان لانے کا فیصلہ کیا۔

24 ستمبر 1979ء کو جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد، مولانا جان محمد عباسی مرحوم و دیگر رہنما کراچی ائیرپورٹ پر موجود تھے کہ مولانا مودودیؒ کا جسدِ خاکی ہلکے سرمئی رنگ کے فولادی بکس میں بند کراچی ائیر پورٹ پر اتارا گیا تو وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ سوگواروں کا ہجوم وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور پی آئی اے کے ملازمین کی یونین پیاسی کے کارکنوں نے مولانا مودودیؒ کی میت کو جہاز سے اتارکر ایک کھلے ٹرک میں رکھ دیا۔

جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد نے ٹرک میں کھڑے ہوکر مولانا مودودیؒ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ لاکھوں انسان اپنے محبوب قائد کو آنسوؤں اور دل کی گہرائیوں سے ان کی بخشش کے لیے نکلنے والی دعاؤں کا نذرانہ عقیدت پیش کررہے تھے۔ کراچی ائیرپورٹ ہی سے مولانا مودودیؒ کی میت کو پی آئی اے کے خصوصی جہاز پر منتقل کیا گیا، جس کے ذریعے ان کے جسدِ خاکی کو لاہور پہنچایا گیا۔

1979ء کا بلدیاتی الیکشن

اسی روز کراچی میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ جماعت اسلامی کی پوری قیادت اور کارکنان انتخابی مہم میں مصروف تھے۔ بانیِ جماعت کے انتقال کی خبر نے انہیں گہرے صدمے سے دوچار کردیا۔ لوگوں کی توجہ انتخابی عمل اور پولنگ سے ہٹ گئی، لیکن جماعت کی قیادت نے معاملے کو سنبھالا اور جنازے کے فوری بعد انتخابی میدان میں نکل کھڑے ہوئے۔ الحمدللہ، بہت سارے حلقوں میں ہمارے نمائندے کامیاب ہوئے، لیکن کچھ حلقوں میں کارکنان صدمے کی وجہ سے اس جوش و جذبے سے کام نہیں کرپائے جس کی ضرورت تھی۔

جماعت اسلامی کے اخوت گروپ کو بلدیہ کراچی کے ایوان میں اکثریت حاصل ہوگئی اور لیاری کے رہائشی درویش صفت نظریاتی کارکن عبدالستار افغانی میئر منتخب ہوگئے۔ ڈپٹی میئر کا عہدہ پیپلز پارٹی کے عمریوسف ڈیڈا کے حصے میں آیا۔ افغانی صاحب اور ان کی پوری ٹیم نے اگلے چار سال تک شہر میں فقیدالمثال ترقیاتی کام کروائے۔ گو کہ ان کے پاس مالی وسائل بہت کم تھے لیکن ایک دیانت دار، ایمان دار، مخلص اور باصلاحیت ٹیم نے ان محدود وسائل میں بھی شہر کے ہر علاقے کے لوگوں کی بلاتفریق خدمت کی اور گلیوں، سڑکوں اور بازاروں کو روشن اور صاف ستھرا کرکے رکھ دیا۔ شہر کے ہر رفاحی پلاٹ کے گرد چار دیواری بنائی گئی تاکہ ان پلاٹوں کو قبضہ مافیا سے محفوظ رکھ کر عوام کے مفاد میں استعمال کیا جاسکے۔

بلدیاتی نمائندوں کی شب و روز کی محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1983ء کے بلدیاتی انتخابات میں اخوت گروپ نے زیادہ حلقوں سے کامیابی حاصل کی اور افغانی صاحب ایک بار پھر شہر کے میئر منتخب ہوگئے۔ لیکن اِس مرتبہ بھی ڈپٹی میئر اخوت گروپ سے منتخب نہ ہوسکا۔ عبدالخالق اللہ والا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عبدالستار افغانی صاحب کے دور کے بے شمار منصوبوں میں سے ایک بڑا منصوبہ اور کارنامہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا قیام تھا۔

غیر جماعتی الیکشن اور غیر متوقع شکست

جنرل ضیاءالحق نے 10 جنوری 1985ء کو ملک میں غیر جماعتی الیکشن منعقد کرانے کا اعلان کردیا۔ پیپلزپارٹی اور کچھ دوسری جماعتوں نے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کیا، جب کہ جماعت اسلامی کی شوریٰ نے میدان خالی چھوڑنے کے بجائے ان انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کے انتخابات 25 فروری، جب کہ صوبائی اسمبلی کے 28 فروری کو ہوں گے۔ محموداعظم فاروقی جماعت اسلامی حلقہ کراچی کے امیر تھے، رکن قومی اسمبلی اور چند ماہ تک وفاقی وزیر بھی رہ چکے تھے۔ مشاورت کے بعد قومی اسمبلی کے لیے سید منور حسن، محموداعظم فاروقی، مظفر احمد ہاشمی، عثمان رمز، محمود احمد مدنی، شفیع ملک، محمد اسلم خٹک، عبدالستار افغانی، محمد حسین محنتی اور سید ذاکر علی، جبکہ صوبائی اسمبلی کے لیے ڈاکٹر اطہر قریشی، اخلاق احمد، عباس باوزیر، اسلم مجاہد، شاہ فیض الحسن، شیخ محبوب علی، جنید فاروقی، بابو غلام حسین بلوچ اور مجھے ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں خود کو اس ٹکٹ کا اہل نہیں سمجھتا تھا، فاروقی صاحب سے بات کرکے معذرت کرنے کی کوشش بھی کی لیکن نظم کا فیصلہ برقرار رہا۔

انتخابی مہم بہت اچھی رہی، کارکنان نے ووٹرز سے رابطوں کی بھی بھرپور کوششیں کیں۔ ہمارے امیدوار بھی معاشرے کے جانے پہچانے لوگ تھے، لیکن قومی اسمبلی کے نتائج توقعات کے مطابق نہیں نکلے۔ محموداعظم فاروقی، سید منور حسن اور میئر کراچی عبدالستار افغانی کو شکست ہوئی اور صرف دو امیدوار محمد عثمان رمز اور مظفر ہاشمی کامیاب ہوسکے۔ میرے حلقہ انتخاب پی ایس 81 کے ووٹرز نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ میرے حصے میں 13966 ووٹ آئے جبکہ مدمخالف مظہر شکیب کو 4912 ووٹ مل سکے۔ ڈاکٹر اطہر قریشی، اخلاق احمد، اسلم مجاہد، عباس باوزیر اور بابو غلام حسین بلوچ بھی اپنے اپنے حلقوں سے جیت گئے۔ حیدرآباد سے عبدالوحید قریشی بھی رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے، اور بعد میں اقلیتی رکن بشیر عالم بھٹی کے اضافے نے بھی ہمارے پارلیمانی گروپ کو مستحکم کردیا۔ سید غوث علی شاہ وزیراعلیٰ اور عبداللہ حسین ہارون اسپیکر منتخب ہوگئے۔

غیر جماعتی انتخابات کی وجہ سے اسمبلی میں حزب اختلاف نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ ابتدائی کچھ دن تو خیریت سے گزر گئے، لیکن جب ہم نے اپنے حلقوں اور کراچی کے مسائل پر بولنا شروع کیا تو غوث علی شاہ زچ ہونے لگے۔ جماعت کے اراکینِ اسمبلی بھرپور تیاری کے ساتھ اسمبلی میں آتے اور کارروائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اس زمانے میں آج کی طرح کا میڈیا تو نہیں ہوا کرتا تھا لیکن جنگ، ڈان اور جسارت کی خبروں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ غوث علی شاہ تنقید کو سخت ناپسند کرتے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کی حکومت کے بارے میں کوئی منفی تاثر پھیلے۔ شاید ہر حکمران ہی تنقید سے گھبراتا ہے اور ”سب اچھا ہے“ کی لوری سننا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہنا شروع کردیا ”نعمت صاحب آپ جلدی سے جماعت سے فیصلہ کروائیں، میں آپ کو اپنی کابینہ میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے آپ کے لیے تعلیم کی وزارت منتخب کرلی ہے“۔ ان کی یہ بات سنتا اور خاموش ہوجاتا۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وزارت کا لالچ دے کر جماعت کے کسی رکن اسمبلی کی زبان بندی نہیں کروائی جاسکتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد انہیں اندازہ ہوگیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے تو وہ کھنچے کھنچے بلکہ الرجک سے رہنے لگے۔

14مارچ1985ء کو سینیٹ کے الیکشن کے لیے ووٹ ڈالے گئے۔ انتخابات سے قبل کئی کروڑ پتی امیدواروں نے جماعت کے اراکین اسمبلی سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ لوگ غیر جماعتی بنیادوں پر جیت کر رکن بنے ہیں اور سینیٹ کے لیے ووٹنگ بھی خفیہ انداز میں ہونی ہے، اس لیے ہمیں ووٹ دے دیں۔ بدلے میں پُرکشش آفرز دی گئیں۔ مجھ سے تو کسی کو رابطہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی کیونکہ میں مالی طور پر مستحکم تھا اور لوگ میرے مزاج سے بھی واقف تھے۔ باقی لوگوں سے رابطہ کیا گیا۔ سچ یہ ہے کہ ان دنوں جماعت اسلامی سے وابستگی پر بہت فخر بھی ہوا اور بار بار اللہ کا شکر بھی ادا کیا۔

ڈاکٹر اطہر قریشی، اخلاق احمد، عبدالوحید قریشی، بابو غلام حسین، اسلم مجاہد، عباس باوزیر اور اقلیتی رکن بشیر عالم بھٹی… کسی کی بھی قیمت نہیں لگائی جاسکی، کسی ایک کے ضمیر کو بھی نہیں خریدا جاسکا۔ اخلاق احمد صاحب فیڈرل بی ایریا میں کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رہا کرتے تھے۔ ایک کارکن کی ویسپا اسکوٹر یا منی بس سے اسمبلی آیا جایا کرتے تھے۔ بشیر عالم بھٹی مزدور رہنما تھے اور ایک کچی آبادی میں رہا کرتے تھے۔ وہ بعد میں بھی جب کبھی دفتر جماعت آتے، میں اُن کے احترام میں کھڑا ہوجاتا اور واپسی میں انھیں دروازے تک چھوڑنے جاتا۔ بڑے قد کے اجلے لوگ تھے!

فہرست | →پیچھے جائیے

←وہ حادثہ نہیں سانحہ تھا