اہلِ کراچی کا جذبۂ انفاق قابلِ رشک ہے -


اہلِ کراچی کا جذبۂ انفاق قابلِ رشک ہے

 

سندھ میں سیلاب

1994ء میں سندھ میں طوفانی بارشیں ہوئیں جس کی وجہ سے کئی اضلاع میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ ضلع دادو سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ جوہی اور خیرپور ناتھن شاہ کے درجنوں گوٹھوں میں فصلیں تباہ ہوگئیں اور مکانات زیر آب آگئے۔ ہم نے کراچی سے کئی ٹرک امدادی سامان متاثرہ علاقوں میں تقسیم کے لیے روانہ کیا، جبکہ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم بھی ادویہ سے لدے ہوئے ٹرک کے ساتھ دادو روانہ کی۔ ٹیم میں ڈاکٹر ظفر اقبال، ڈاکٹر اورنگزیب، ڈاکٹر ذکی صابری، ڈاکٹر خالد اور ڈاکٹر فیاض شامل تھے۔ جماعت اسلامی صوبہ سندھ کے نائب قیم ممتاز سہتو بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس ٹیم نے پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں تک پہنچنے کے لیے کشتیوں کا استعمال بھی کیا۔ ہزاروں خاندانوں میں راشن تقسیم کیا گیا، جبکہ سینکڑوں مریضوں کا علاج کیا گیا اور مفت ادویہ فراہم کی گئیں۔ لاکھوں روپے مالیت کی یہ دوائیں ہمیں نبی قاسم اور انڈس فارما نے بطور عطیہ فراہم کی تھیں۔

بلوچستان میں زلزلہ

یکم مارچ 1997ء کی بات ہے، ادارہ نور حق میں کراچی کے کارکنان کا اجتماع ہورہا تھا، اطلاع آئی کہ ’’ہرنائی‘‘ (بلوچستان) میں زلزلہ آگیا ہے۔ میں نے اعلان کروایا کہ ہرنائی میں زلزلہ آگیا ہے، خواہش ہے کہ ہم کارکنان کی ٹیم لے کر وہاں پہنچیں، اس لیے جو حضرات جانے کے خواہش مند ہیں وہ اپنے ناموں کا اندراج کروا دیں۔ اس کے ساتھ امدادی سامان اور رقم کی اپیل بھی کی۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں نام لکھوا دیے۔ عبدالرشید بیگ صاحب کو ہرنائی جانے والوں کی ٹیم کا انچارج بنایا گیا۔ متاثرہ علاقے کے لیے روانہ ہونے سے قبل اخبارات میں تباہی کی خبروں کے ساتھ امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے اطلاعات بھی موصول ہوئیں کہ بیرونِ پاکستان سے 5000 کے لگ بھگ خیمے آئے ہیں، جب کہ 1500 خیمے گورنر بلوچستان نے دیے ہیں لیکن ہرنائی سب ڈویژن کے 5 گائوں میں صرف چند درجن خیمے تقسیم کیے گئے ہیں۔ بعض واقفانِ حال نے یہ بھی بتایا کہ کچھ خیمے ایسے علاقوں میں تقسیم ہوئے جو متاثر ہی نہیں ہوئے تھے۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے سبی میں اپنے دو انتخابی حلقوں میں اچھے خاصے خیمے اور امدادی سامان تقسیم کروا دیا۔ ستم ظریفی تو یہ کہ 28 فروری اور یکم مارچ کی درمیانی شب زلزلہ آیا اور حکومتِ بلوچستان نے 2 مارچ کو سبی میلے کا آغاز کردیا۔ ایک جانب پانچ روزہ میلے پر کروڑوں روپے خرچ کرکے ناچ گانے کی محفلیں سجائی جارہی تھیں، اور دوسری طرف پڑوس کے گائوں دیہات میں بے گور و کفن لاشیں تدفین کی منتظر تھیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے کارکنان کے وہاں پہنچنے پر متاثرین نے سُکھ کا سانس لیا۔ جماعت اسلامی سے پہلے وہاں نہ کوئی سیاسی جماعت پہنچی تھی اور نہ ہی کسی لسانی گروہ کے لوگ امدادی کاموں کے لیے پہنچے تھے، اور نہ ہی کوئی این جی او ہمیں وہاں نظر آئی۔ زلزلے کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرنے اور امدادی سرگرمیوں میں معاونت کے لیے عبدالحق ہاشمی قیم صوبہ بلوچستان، قاضی محمد اسماعیل امیر شہر کوئٹہ، اور فضل الٰہی کے ساتھ گورنر بلوچستان سے ملاقات کی۔ انہیں ساری تفصیلات بتائیں۔ اس کے علاوہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس رکھی اور صحافیوں کو زلزلے سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیے امدادی سرگرمیوں کے متعلق بتایا۔ 11 مارچ کو کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے لوگوں سے اپیل کی کہ زلزلہ فنڈ میں مزید عطیات اور سامان دیں۔ الحمدللہ اس پر بہت مثبت ردعمل سامنے آیا۔ اگلے چند روز میں لاکھوں روپے جمع ہوگئے جبکہ امدادی سامان کا بھی ڈھیر لگ گیا۔ جمعیت قطرالخیریہ اور اسلامک ریلیف ورلڈ وائڈ کا بھجوایا ہوا بہت سارا امدادی سامان بھی ہمارے ذریعے تقسیم ہوا۔ اس موقع پر حلقۂ خواتین کی کوششیں بھی کسی سے کم نہیں رہیں۔ ہماری بہن ناصرہ الیاس نے غیر معمولی تعاون کیا اور راشن کی مد میں لاکھوں روپے جمع کیے۔ اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبہ عربیہ کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس مہم میں شامل تھی۔ امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا عبدالحق بلوچ 6 مارچ سے 12 مارچ تک امدادی کیمپ میں موجود رہے اور امدادی سامان کی تقسیم کے عمل کی نگرانی کی۔ نائب امیر صوبہ مولانا محمد شاہ مینگل اور قیم صوبہ عبدالحق ہاشمی کے علاوہ کوئٹہ کے مولانا ہاشم، عبداللہ ہاشمی، لورالائی کے اسداللہ خان، محمد انور خان، ٹاکس کے بہاءالدین، ماسٹر امیر محمد شاہ کے علاوہ ہرنائی کے نور محمد شاہ قدم قدم پر ساتھ رہے۔ اُس زمانے میں وہاں جماعت اسلامی کا باقاعدہ نظم موجود نہیں تھا۔ ہمارے وہاں جانے اور فلاحی سرگرمیوں کے نتیجے میں کچھ لوگ جماعت کے قریب آئے اور آگے چل کر جماعت کی تنظیم وہاں قائم ہوئی۔

بلوچستان میں سیلاب

1998ء کا برس تھا اور مارچ کی ابتدائی تاریخیں۔ طوفانی بارشوں نے بلوچستان کے مکران ڈویژن کے مختلف علاقوں میں تباہی مچا دی۔ 36 گھنٹے مسلسل جاری رہنے والی بارش کی وجہ سے سیلاب آگیا جس کی زد میں آکر ستّر دیہاتوں کے سینکڑوں مکانات اور مویشی بہہ گئے۔ کئی حفاظتی بند ٹوٹ گئے اور تقریباً تین سو سے زیادہ افراد لاپتا ہوگئے۔ ہنگامی بنیادوں پر مخیر حضرات سے تعاون کی اپیل کی۔ اس موقع پر بھی نظمِ خواتین نے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مختلف ذرائع سے بڑی مقدار میں امدادی سامان اکٹھا کرلیا۔ کارکنان کا وفد بھیجنے کے لیے امرائے اضلاع کا اجلاس طلب کیا۔ امدادی اشیاء کے نرخ معلوم کرنے، اور خریداری کرنے کے لیے مختلف افراد کی ڈیوٹی لگائی۔ اخبارات میں سیلاب زدگان کی امداد کے لیے اپیل شائع کروائی۔ ہنگامی بنیادوں پر امدادی سامان سے بھرے کچھ ٹرک متاثرہ علاقوں کی طرف روانہ کیے۔ ڈاکٹر محمد خالد اور ڈاکٹر سلطان مصطفیٰ کی قیادت میں طبی امدادی ٹیم 6مارچ کو تربت کے لیے روانہ ہوئی۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے مری آباد، کوشقلات، دیہات، ریکانی بینٹ، پنج مردان، زگرانی ڈن، شنزدر، تنزگ، ملکی باغ ، بلن، کسر، کمرہ پیرانی لمب اور ہرانی بینٹ میں ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ افراد کو طبی امداد فراہم کی۔ میں بھی بڑی مقدار میں امدادی سامان اور کارکنان کی ٹیم لے کر تربت پہنچا۔ ابھی حکمت عملی ترتیب ہی دے رہے تھے کہ سامان کس طرح تقسیم کیا جائے کہ بارش کا سلسلہ پھر شدت سے شروع ہوگیا اور متاثرہ علاقوں میں جانے والے راستے بند ہوگئے۔ میں کسی طور کراچی واپس پہنچا تاکہ مزید امدادی سامان وہاں بھجوانے کا انتظام کرسکوں۔ اس دوران خیال آیا کہ ایئرفورس کے پاس C-130 جہاز ہیں، کیوں نا ان سے تعاون حاصل کیا جائے۔ مناسب سمجھا کہ ازخود کوئی اقدام کرنے کے بجائے قاضی صاحب سے بات کروں۔ فون کیا اور درخواست کی کہ آپ نوازشریف سے رابطہ کریں اور انہیں جہاز فراہم کرنے کا کہیں۔ اُن دنوں قاضی صاحب کچھ معاملات پر نوازشریف سے سخت ناراض تھے، کہنے لگے: ”میں خود تو فون نہیں کروں گا! ہاں ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ذاتی حیثیت کے بجائے امیر جماعت کی حیثیت میں وزیراعظم کو خط لکھوں۔ اگلے دن ایک کھلا خط مختلف اخبارات میں شائع ہوگیا۔ اندازہ تھا جلد کوئی جواب ملے گا، اور ہوا بھی کچھ اسی طرح۔ میں ادارہ نور حق میں بیٹھا کچھ کام نمٹا رہا تھا کہ ایئر فورس کے کچھ افسران وردی میں ملبوس میرے پاس آئے، رسمی سلام دعا کے بعد بغیر کسی تمہید کے کہنے لگے: بتائیے سامان کہاں ہے؟ کارکنان اور نظمِ خواتین کا شبانہ روز محنت سے اکٹھا کیا ہوا سامان ادارہ نورحق اور کورنگی میں رکھا ہوا تھا۔ انہیں نشاندہی کردی اور گوادر روانہ ہوگیا۔ افسران مطمئن ہوکر چلے گئے۔ اگلے دن ایئرفورس کے اہلکار ٹرکوں کے ہمراہ دونوں مقامات پر پہنچ گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے سامان لوڈ کیا، مزید گنجائش نہیں رہی، اور سامان لے کر فیصل ایئربیس پہنچ گئے جہاں پہلے سے موجود C-130 جہاز میں سامان لوڈ کروایا اور تربت روانہ کردیا۔ اب سامان کی وصولی کا مرحلہ آیا تو ایک تنازع کھڑا ہوگیا۔ جہاز میں امدادی سامان کے ساتھ آنے والے اور ہوائی اڈے پر پہلے سے موجود ایئرفورس اہلکار مُصر تھے کہ چوں کہ یہ سامان ہم نے مختلف مقامات سے اٹھایا ہے اور خود اپنے جہاز میں لوڈ کیا ہے، اس لیے یہ سامان ہم خود تقسیم کریں گے۔ عجیب مشکل تھی۔ خیال آیا کسی ذمہ دار افسر سے بات کرنی چاہیے تاکہ سامان حاصل کیا جاسکے۔

ایک کمانڈر سے بات کی اور ساری صورت حال سمجھائی، تب کہیں جاکر امدادی سامان ہمارے حوالے کیا گیا۔ ہمارے طریقۂ کار کی شفافیت نے ایئرفورس کے افسران اور جوانوں کو متاثر کیا۔ کراچی میں موجود باقی سامان دوسری پرواز سے تربت پہنچایا گیا۔ سامان کی ترسیل پر ہمارا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ سامان کی تقسیم کے عمل میں شرکت کے لیے عبدالرشید بیگ کراچی کے پچاس کارکنان کے ہمراہ موجود تھے۔ اس دوران اُن علاقوں کے منتخب نمائندے ہمیں کہیں نظر نہیں آئے۔ انتظامیہ کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں تھی۔ امدادی سرگرمیوں کے جائزے اور مزید بہتری کے لیے طے کیا گیا کہ ہر روز نماز عشاء کے بعد کراچی اور مقامی کارکنان کا اجتماع کیا جائے، جس میں یومیہ کارکردگی کی رپورٹ متعلقہ ناظم پیش کیا کرے۔ ہماری بہنوں اور بیٹیوں نے بھی اپنا محاذ خوب سنبھال رکھا تھا۔ امت الرقیب صاحبہ، طلعت ظہیر صاحبہ، کرن عارف صاحبہ اور دیگر خواتین پر مشتمل وفد سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مسلسل سرگرمِ عمل رہا۔ الحمدللہ رفقاء کی غیر معمولی محنت اور بڑے پیمانے پر امدادی کاموں کی بدولت ان علاقوں میں جماعت کے دعوتی کام کا راستہ کھلا۔ مقامی افراد ہمارے کارکنان کے پاس آتے، جماعت اسلامی، اس کے مقصد اور سرگرمیوں کے متعلق سوالات کرتے۔ کچھ نوجوان ان مصروفیات سے متاثر ہوکر رضاکار بن گئے۔ امدادی کاموں میں ہاتھ بٹانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے سیاسی نمائندوں اور انتظامیہ کو کوسنے بھی دیتے تھے۔

ٹھٹھہ اور بدین میں سمندری طوفان

مئی 1999ء میں سمندری طوفان نے ٹھٹہ اور بدین کے ساحلی علاقوں کیٹی بندر، جاتی، شاہ بندر اور گولارچی کے سینکڑوں گوٹھوں میں زبردست تباہی مچائی۔ 26 گھنٹے تک مسلسل ہونے والی بارش نے بجلی اور ٹیلی فون کا نظام درہم برہم کردیا۔ 200 کے لگ بھگ لانچیں ماہی گیروں سمیت لاپتا ہوگئیں۔ ڈاکٹر محمد خالد اور ڈاکٹر فیاض کو ابتدائی جائزے کے لیے کیٹی بندر بھیجا۔ ان دونوں نے وہاں نیوی کی جانب سے فراہم کردہ ایک چھوٹی سی بوٹ میں دور دراز علاقوں میں جاکر ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا اور اگلے روز واپس آگئے۔ الخدمت کے ذمہ داران کے ساتھ میٹنگ کی اور طوفان سے متاثر ہونے والوں کی امداد کے لیے اپیل کی خبر جاری کروائی۔ کراچی کے تمام اضلاع نے مختصر نوٹس پر شہر بھر میں امداد جمع کرنے کے لیے کیمپ لگا دیے۔ اللہ نے اہلِ کراچی کے دلوں میں انفاق فی سبیل اللہ کا غیر معمولی جذبہ رکھا ہے۔ ہر طبقۂ فکر کے لوگوں نے بھرپور تعاون کیا، رقومات بھی دیں اور راشن سمیت بہت سارا امدادی سامان بھی جمع ہوا۔ 25 مئی سے کیٹی بندر اور جاتی میں امدادی کیمپس لگانے کا فیصلہ کیا۔ امیر صوبہ محترم اسد اللہ بھٹو نے ہدایت کی کہ گولارچی اور بدین میں بھی کیمپس لگائے جائیں اور ان کی نگرانی پر نائب قیم صوبہ ممتاز حسین سہتو کو مامور کیا۔ کیٹی بندر میں کیمپ لگانے اور امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے ڈاکٹر فیاض عالم کی سربراہی میں پندرہ کارکنان کا قافلہ کراچی سے روانہ ہوا، اور اسی دن ایک سڑک کے کنارے کیمپ بھی لگا دیا گیا۔ اس علاقے میں جماعت اسلامی کا نظم موجود نہیں تھا، اس لیے طے کیا گیا کہ پہلے مقامی افراد اور نیوی کے جوانوں کے تعاون سے ہونے والے نقصانات کا سروے کیا جائے، اس کے بعد سامان کی تقسیم کی جائے۔

38گوٹھوں کے 5124 متاثرہ افراد میں 7500 کلو آٹا، 3ہزار کلو چاول، 1400 کلو دال مونگ، 1400کلو چنے، 700 کلو خشک دودھ تقسیم کیا گیا۔ عبدالرشید بیگ صاحب کی سربراہی میں 55 کارکنان پر مشتمل قافلہ کراچی سے جاتی کے لیے روانہ کیا۔ کوئی مناسب جگہ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے یہاں بھی لبِ سڑک کیمپ قائم کرنا پڑا۔ کراچی سے کئی ٹرکوں پر پہنچنے والا امدادی سامان 240 گوٹھوں کے 6006 خاندانوں کے 35856 افراد میں تقسیم کیا گیا۔ ہمارے ڈاکٹروں نے سیلاب سے پھیلنے والے وبائی امراض میں مبتلا افراد کے علاج معالجے کے لیے لانچوں کا استعمال کیا اور تقریباً 80 گوٹھوں کے 980 افراد کا علاج کیا۔ جاتی کے میڈیکل کیمپ کے انچارج ڈاکٹر خالد مشتاق تھے جنہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ دور دراز کے گوٹھوں میں جاکر سیکڑوں مریضوں کا علاج کیا۔ الخدمت کی امدادی سرگرمیاں دیکھ کر اکثر مخیر افراد جو سامان تقسیم کرنے متاثرہ علاقے میں آتے، ازخود سارا سامان ہمارے کیمپوں کے حوالے کرتے اور واپس چلے جاتے۔ اسلام آباد کی ایک این جی او نے امدادی سرگرمیوں میں ہم سے تعاون طلب کیا اور فی خاندان سامان تقسیم کرنے کی تفصیلات بھی دیں۔ اُن کی خواہش کے مطابق تمام سامان کی خریداری اور پیکنگ کراچی میں کرواکر 6 بڑے ٹرکوں کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں بھجوایا گیا۔ اس دوران الخدمت کراچی کے دفتر اور اضلاع کے دفاتر میں رات گئے تک کام ہوتا رہا۔ الخدمت کے منیجر نصراللہ شیخ اور ان کی ٹیم نے شب و روز محنت کی۔ بدین کے مختلف گوٹھوں میں ممتاز سہتو نے امدادی سامان کی نگرانی کا فریضہ بہ حسن و خوبی نبھایا اور درجنوں گوٹھوں میں کئی ہزار متاثرین کو امدادی سامان پہنچایا گیا۔

فروری 2000ء میں بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل اڑنجی میں خشک سالی کے باعث سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوگئے۔ نوید بلوچ نامی نوجوان نے خط لکھ کر حالات سے آگاہ کیا۔ صوبائی نظم نے بھی ان معلومات کی تصدیق کی اور تعاون کی درخواست کی۔ سیکرٹری الخدمت سید حفیظ اللہ اور عبدالرشید بیگ صاحب سے مشورہ کیا اور 21 فروری کو عبدالحلیم بلوچ کی سربراہی میں ایک تین رکنی وفد کو جائزہ لینے کے لیے روانہ کردیا۔ کراچی میں امداد کی اپیل پر لوگوں نے حسبِ سابق بھرپور تعاون کیا۔ حلقۂ خواتین نے بھی امدادی سامان کے لیے اچھی مہم چلائی۔ عبدالرشید بیگ 9 کارکنان کو ساتھ لے کر اڑنجی روانہ ہوگئے۔ وڈھ میں ان کی ملاقات عبدالحلیم بلوچ، محمد ہاشم مینگل اور ضلع خضدار کے قیم علی اکبر سے ہوئی۔ یہ طے پایا کہ مرکزی امدادی کیمپ وڈھ میں لگایا جائے اور راشن و دیگر امدادی سامان کی خریداری خضدار کے بازار سے کی جائے۔ تحصیل اڑنجی ضلع خضدار کا وسیع علاقہ ہے۔ اس کی حدود ایک جانب ضلع دادو، جبکہ دوسری جانب ضلع لسبیلہ سے ملتی ہیں۔ وڈھ سے اڑنجی کے گوٹھوں تک دو، تین راستے جاتے ہیں جن کا فاصلہ 10 سے 90 کلومیٹر تک بنتا ہے۔ راستے پہاڑوں کے درمیان ہونے کی وجہ سے کچے پکے تھے۔ صرف اڑنجی مسجد تک فور وہیل ڈاٹسن یا بڑے ٹائروں والے ٹرک ہی جا سکتے ہیں۔ امدادی سامان کی تقسیم کے لیے دو ٹیمیں بنائی گئیں، ایک عبدالرشید بیگ صاحب کی سربراہی میں مولانا ہاشم مینگل (وڈھ) اور عبدالستار گچکی (خضدار) پر مشتمل تھی۔ اس ٹیم نے کھوروی اور ملحقہ علاقوں کا دورہ کیا۔ یہاں پر تقریباً 22 گوٹھ تھے۔ بعض ایسے مقامات بھی تھے جہاں گاڑی نہیں جا سکتی تھی۔ سب سے زیادہ نقصان بھی یہیں پر ہوا تھا۔ دورانِ سفر مختلف افراد سے گفتگو میں ٹیم کے اراکین اموات کی تفصیل بھی معلوم کرتے تھے۔ پتا چلا کہ وہ علاقے جہاں آمد و رفت صرف اونٹوں اور گدھوں سے ہوتی ہے وہاں 127 کے قریب اموات ہوئی تھیں۔ دوسری ٹیم عبدالحلیم بلوچ کی قیادت میں مسجد اڑنجی کی طرف روانہ کی گئی۔ راستے میں آنے والے گوٹھوں کا سروے کرنے کے بعد انہیں رات تک واپس آنا تھا، لیکن راستے اس قدر خراب تھے کہ یہ حضرات اگلے دن دوپہر میں واپس پہنچ سکے۔ صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد دو ذیلی کیمپ بنائے گئے۔ ایک کھوروی میں، اس کے ناظم عبدالستار گچکی تھے۔ جب کہ دوسرا کیمپ مسجد اڑنجی کے پاس لگایا گیا۔ اس کے انچارج عبدالحلیم بلوچ تھے۔ اوّل الذکر کیمپ سے 2778 متاثرین کو، اور مسجد اڑنجی والے کیمپ سے 3765 متاثرین کو امداد دی گئی۔ متاثرہ علاقوں میں قدرتی آفات اور دیگر سانحوں میں اللہ رب العزت نے جہاں ایک طرف امدادی سرگرمیوں کو بھرپور طور پر انجام دینے کی توفیق دی، وہیں اس بات کا بھی واضح مشاہدہ ہوا کہ شہروں کی نسبت پسماندہ دیہی علاقوں کے لوگوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ رات دن اپنی خدمت لینے، اپنی ذاتی یا خاندانی حیثیت اور خوش آئند نعروں کی مدد سے ووٹ حاصل کرنے کے بعد ان علاقوں کے نمائندے عوام کا حال پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے، اور عوام کو اپنی رعایا سمجھتے ہیں بلکہ اس سے بھی کمتر!

 

فہرست | →پیچھے جائیے

←صحرائے تھر – دعوت و خدمت کا استعارہ