پیش لفظ
اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر بجا لاتا ہوں جس نے یہ توفیق بخشی کہ والد ِمحترم نعمت اللہ خان صاحب کی یادداشتوں کو کتابی شکل میں آپ کے سامنے پیش کرسکوں۔ معروف صحافی دوستوں نعمان لاری، شبیر سومرو، حیدر شیخ، اسد احمد اور اسعدالدین نے مختلف اخبارات و رسائل کے لیے ان کے انٹرویوز ریکارڈ کیے تھے۔ انہی انٹرویوز کو ٹرانسکرائب کرکے یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔ کتاب میں ان کے بچپن سے لے کر سٹی نظامت تک کے واقعات کہیں تفصیل سے اور کہیں اختصار سے قلم بند کیے گئے ہیں۔ سٹی نظامت کی ذمہ داری سے فراغت کے بعد وہ ملک کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلے کے بعد الخدمت کی امدادی سرگرمیوں کے نگراں رہے اور 2007ء سے 2011ء تک الخدمت فاؤنڈیشن کے مرکزی صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔
اس کتاب کی اشاعت کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہماری نئی نسل یہ جان سکے کہ پاکستان محض خطۂ زمین نہیں بلکہ ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے، جس کے قیام کے لیے مسلمانانِ برصغیر نے عظیم قربانیاں دی تھیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنے گھر بار، جائدادیں اور اپنے سگے رشتے داروں کو چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کی تھی، اور ایک نئے ملک میں زندگی کا آغاز بہت سی مشکلات کے ساتھ کیا تھا۔
نئی نسل کو یہ بھی معلوم ہوسکے کہ دنیا میں ترقی کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ سخت محنت، تعلیم، مستقل مزاجی اور اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم کسی بھی انسان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والے عوامل ہیں۔ نوجوانوں کو اس کتاب کو پڑھ کر یہ بھی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ایک اچھا انسان وہی ہوتا ہے جو والدین، بھائی بہنوں، عزیز و اقارب، اولاد اور معاشرے کے لیے بھلائی کا پیکر ہو۔ جو اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض سے بھی واقف ہو، اور خاص طور پر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ اچھا رویہ رکھتا ہو۔ نعمت اللہ خان صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے جس کا کوئی گوشہ بھی مخفی نہیں ہے۔ انہوں نے سماجی شعبے میں کام کیا تو شفافیت اور بلاتفریق خدمت کی روشن مثالیں پیش کیں۔ وہ میدانِ سیاست میں آئے تو سیاست کو عبادت اور اللہ کے بندوں کی خدمت کا ذریعہ سمجھا، اور اپنے کردار سے ثابت کردیا کہ سیاست خراب چیز نہیں ہے، اسے غلط مقاصد اور ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والے اہلِ سیاست خراب لوگ ہوسکتے ہیں۔ وگرنہ اسی شہر کراچی میں پروفیسر غفور احمد، محمود اعظم فاروقی، عبدالستار افغانی اور سید منور حسن جیسے اہلِ سیاست بھی رہے ہیں، جنہوں نے سیاست کو اعتبار بخشا اور ہماری آنے والی نسلوں کو بتایا کہ سیاست برائے خدمت ہونی چاہیے اور ہوسکتی ہے۔ نعمت اللہ خان صاحب کی زندگی میں جس ایک لفظ کی سب سے زیادہ اہمیت رہی وہ دعوتِ دین ہے۔ جب وہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی علیہ رحمہ کی کچھ کتب پڑھ کر جماعت اسلامی کے قریب آئے تو انہوں نے فریضۂ اقامت ِدین کو اپنی زندگی کا نصب العین بنالیا اور دین کی دعوت کے پھیلاؤ کے لیے اپنے شب و روز ایک کردیے۔ وہ جماعت اسلامی سے اس طرح منسلک ہوئے کہ رکنیت کا حلف خانۂ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ جیسے مقدس ترین مقامات پر لیا، اور زندگی کی آخری سانس تک اس حلف کی پاسداری کی۔
وہ اہلِ کراچی اور اہلِ وطن سے بے لوث محبت کرتے تھے۔ انہوں نے کراچی کی جس طرح خدمت کی اور جس طرح امانت و دیانت کے ساتھ شہر کی نظامت کی ذمہ داری کو ادا کیا، وہ نہ صرف یہ کہ نئی نسل کے لیے مشعل ِراہ ہے بلکہ پورے پاکستان کے اہل ِسیاست کو ان کے طرزِ عمل کی پیروی کرنی چاہیے۔ نعمت اللہ خان صاحب صرف میرے والد ہی نہیں تھے، وہ شہر کراچی کے بابا تھے۔ وہ واقعی اس شہر کے لیے، ہم سب کے لیے اللہ کی نعمت تھے۔
دنیا سے ہر فرد کو بالآخر رخصت ہوجانا ہے۔ دنیا جائے امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا سے جانے والا فرد نامہ اعمال میں کیا لے کر گیا ہے، اور اس کے جانے کے بعد دنیا اسے کس طرح یاد رکھتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نعمت اللہ خان صاحب کی نیکیوں کو قبول فرمائے اور انہیں اپنی جوارِ رحمت میں اعلیٰ مقام عطا کرے، آمین
ندیم نعمت اللہ