تعلیم- میرٹ پر کوئی سمجھوتا نہیں
کراچی کی نظامت سنبھالتے وقت صاف نظر آرہا تھا کہ زندگی کے اکثر شعبوں کے ادارے اور ان میں جاری نظام نہایت بوسیدہ ہوچکے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال شعبۂ تعلیم کی تھی۔ مسائل کا ایک انبار تھا اور درستگیِ احوال کے لیے کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ مختلف ماہرین سے مشاورت کے بعد طے کیا کہ سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں معیارِ تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے کچھ عملی اقدامات کیے جائیں۔ ماضیِ قریب میں شہر کے سرکاری تعلیمی ادارے سیاسی اور سفارشی بھرتیوں کی وجہ سے مضحکہ خیز بن کر رہ گئے تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ پورے شہر کے سرکاری اسکولوں میں بہت تھوڑے طلبہ و طالبات اے ون گریڈ حاصل کرپاتے تھے۔ اگلے دو برسوں میں جو اقدامات اٹھائے گئے اُن کے نتیجے میں اساتذہ کی دلچسپی اور اعتماد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ گھوسٹ اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ تیسرے سال انہی اسکولوں میں اے ون گریڈ حاصل کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھ کر دو ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ سال 2000ء میں انٹر کالجوں کے لیے مرکزی داخلہ پالیسی (Central Admissio Policy) متعارف کروائی گئی تھی۔ اس پالیسی کے تحت کالجوں کے سینئر اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی کو داخلوں کے پورے عمل کی نگرانی کرنی تھی اور اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ تمام داخلے قواعد و ضوابط کے مطابق میرٹ پر ہوں گے۔ داخلوں کے لیے علاقائی بنیادوں پر جاری زونل سسٹم کو ختم کردیا گیا۔ سندھ گورنمنٹ کے محکمۂ تعلیم کی یہ پالیسی بہت بہتر تھی اور اس سے انٹرمیڈیٹ میں داخلوں کا عمل بڑی حد تک شفاف ہوگیا تھا۔
نئے صوبائی وزیر تعلیم عرفان اللہ مروت کو مرکزی داخلہ پالیسی ہضم نہیں ہورہی تھی۔ مختلف طالب علموں کے ایک کالج سے دوسرے کالج میں تبادلے کی سفارش کی پرچیاں میرے پاس بھیجنا شروع کردیں، جو میں نے اپنے پاس رکھ لیں اور ان سے رابطہ کرکے کہا کہ یہ پالیسی شہر کے مفاد میں ہے اور میں نے پوری زندگی میرٹ سے ہٹ کر کوئی کام نہیں کیا ہے، لہٰذا آپ کی پرچیوں کے مطابق نہ کسی کا ٹرانسفر ہوگا اور نہ ہی خلافِ میرٹ داخلہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سٹی ناظم کو اس کا اختیار حاصل ہے (ظاہر ہے کہ انہوں نے افسران سے معلومات لے لی ہوں گی)۔ میں نے سخت لہجے میں کہا کہ اختیارات کے ان چور دروازوں کو بند کرنا ہی میرا مشن ہے۔ اس بات پر انہوں نے بڑی سبکی محسوس کی اور اَنا کی تسکین کے لیے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کروا دیا کہ کالج کے پرنسپل صاحبان جب چاہیں اور جہاں چاہیں اپنے اسٹوڈنٹس کا تبادلہ کرسکتے ہیں۔ یہ بات میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی کہ ایک اچھی پالیسی کو اس طرح سبوتاژ کردیا جائے۔ ایک سینئر صحافی کے مشورے پر جنرل طارق وسیم غازی کے پاس ملاقات کے لیے گیا اور پہلے تو انہیں ’’کیپ‘‘ پالیسی کے متعلق تفصیلاً بتایا۔ پھر صوبائی وزیرتعلیم کی جانب سے کھڑی کی جانی والی رکاوٹوں اور نوٹیفکیشن کے بارے میں بتایا، تو انہوں نے بھی برہمی کا اظہار کیا، اور مجھ سے تبادلوں کی پرچیاں لیتے ہوئے کہنے لگے: آپ بے فکر ہوجائیے۔ اگلے ہی دن صورت حال پرانی پوزیشن پر واپس آگئی۔ وزیر موصوف غصے میں اتنا آگے چلے گئے تھے کہ تعلیمی معاملات میں میری معاونت کرنے والے نسیم صدیقی کے خلاف ای ڈی او ایجوکیشن پروفیسر رئیس علوی کے نام ایک نوٹس جاری کیا کہ نسیم صدیقی کے احکامات تسلیم نہ کیے جائیں۔ حالانکہ نسیم صدیقی یا میرا کوئی بھی معاون افسر ان کو احکامات جاری کرنے کا اختیار رکھتا ہی نہیں تھا، اور نہ کبھی کسی افسر نے کوئی ایسی شکایت کی۔
نئے کالجوں کا قیام
نسیم صدیقی نے شعبۂ تعلیم کے کوآرڈینیٹر کی ذمہ داری سنبھالتے ہی اس بات پر توجہ دلائی کہ ہر سال میٹرک پاس کرنے والے طلبہ و طالبات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جب کہ انٹر کالجوں کی تعداد محدود ہے۔ اُس وقت شہری حکومت کے ماتحت 88 کالج تھے۔ اس مسئلے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے پہلے سال چار کالج، دوسرے سال آٹھ، تیسرے سال دس اور چوتھے سال بھی دس کالج قائم کیے گئے۔ اکثر کی عمارتیں برس ہا برس سے زیر تعمیر تھیں۔ سرکاری محکموں خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں یہ عام سی بات ہے کہ سیاسی لوگ منصوبوں کا اعلان کرتے ہیں، افسران ان پر کام شروع کرواتے ہیں اور پھر افسران اور ٹھیکیداروں کے گٹھ جوڑ سے وہ منصوبے لمبے عرصے تک تمام لوگوں کے لیے معقول آمدنی کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے سندھ اور بلوچستان کی صورت حال اس معاملے میں زیادہ خراب ہے۔ ہمارے ساتھ کیونکہ پاکستان انجینئرز فورم کے قابل اور مخلص انجینئرز کی پوری ٹیم موجود تھی اور ہر علاقے کے منتخب نمائندے برسوں سے رکے ہوئے منصوبوں کی نشاندہی کرتے رہتے تھے، لہٰذا زیر تعمیر عمارتوں کو بہت تیزی سے مکمل کروایا گیا۔ الحمداللہ، تعلیم اور صحت کے منصوبوں کے لیے فنڈز کے اجراء میں کبھی مسئلہ پیدا ہونے نہیں دیا گیا۔ ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ اساتذہ کی بھرتی پر پابندی اور ایس این ای (Sanctioned New Strength)کی منظوری نہ ہونے کی وجہ سے نئے اداروں میں تدریس کا عمل شروع نہیں ہو پارہا تھا۔ اس رکاوٹ کا فوری حل یہ نکالا گیا کہ کراچی کے مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات انجام دینے والے سینئر اساتذہ سے درخواست کی کہ وہ نوتعمیر شدہ کالجوں میں اعزازی حیثیت میں طلبہ و طالبات کو پڑھائیں۔ الحمدللہ اس اپیل پر بہت سارے اساتذہ نے لبیک کہا۔ تقریباً ساڑھے چار سو درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 140 اعزازی اساتذہ کو منتخب کیا گیا جو طویل عرصے تک بلامعاوضہ تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ کراچی کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی مثال تھی۔ کروڑوں روپے خرچ کرکے 32 پرانے کالجوں میں نئی کلاسیں، آڈیٹوریم، لیبارٹریز وغیرہ قائم کی گئیں۔ کراچی کے اکثر کالجوں میں کمپیوٹر لیب بنائی گئیں۔
فنی تعلیمی اداروں کا قیام
شہر میں واقع فنی تعلیمی اداروں کا حال بھی کالجوں سے کچھ مختلف نہیں تھا، جب کہ ان اداروں سے رجوع کرنے والوں کی تعداد روز بروز بڑھتی چلی جارہی تھی۔ کراچی کے مضافاتی علاقوں لانڈھی، کورنگی، ملیر، بلدیہ ٹاؤن، گڈاپ اور اورنگی ٹائون میں فنی تعلیم و تربیت کے لیے 9 مونوٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ قائم کیے گئے۔
تعلیم اور تعلیمی اداروں کی بہتری کے حوالے سے کیے جانے والے عملی اقدامات اور ان کے حوصلہ افزا نتائج دیکھ کر شہر کے بڑے تعلیمی اداروں کے سربراہان نے ازخود اپنے طلبہ و طالبات کو سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ اس ضمن میں آمد و رفت کے لیے بسوں کی ضرورت ان کے لیے سرفہرست تھی۔ تعلیمی اداروں کو بسیں دینے کی روایت سابق میئر عبدالستار افغانی صاحب نے شروع کی تھی، جسے بعد میں بھی جاری رکھا گیا۔ شہری حکومت کی نظامت سنبھالنے کے بعد میرے پاس بھی بسوں کی فراہمی کے حوالے سے درخواستیں آنا شروع ہوگئیں، گو کہ ان کی تعداد زیادہ تھی لیکن ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کو دو لگژری بسیں، گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی (سائٹ) کو ایک، سرسید گرلز کالج کو ایک، اور دعوۃ اکیڈمی کراچی کیمپس کو ایک بس دی گئی۔
نظام تعلیم کی بہتری اور درس گاہوں کی درستی کا بیڑہ اٹھاتے وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ دکھائی دینے والی بظاہر چھوٹی چھوٹی چیزیں درحقیقت بڑے مسئلے سے کسی طرح کم نہیں ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ ہر مسئلے کے کئی ذیلی پہلو بھی ساتھ چلے آتے۔ اس بات کی توثیق یوں بھی ہوتی تھی کہ سابقہ کے ایم سی کے تحت چلنے والے کوئی ساڑھے تین ہزار اسکول اس حالت میں ملے کہ وہاں پڑھنے والے بچوں کے والدین کے پاس غربت کی وجہ سے کوئی اور آپشن نہ تھا، ورنہ وہ ان انتہائی غیر معیاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو کبھی نہ بھیجتے۔ سیاسی بھرتیوں نے کراچی میں سب سے زیادہ نقصان سرکاری تعلیمی اداروں کو پہنچایا تھا۔ ایک دم اسکولوں کی اتنی بڑی تعداد کو ٹھیک کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ سٹی گورنمنٹ کے پہلے بجٹ میں تعلیم کے لیے 31 فیصد رقم مختص کی گئی جو اربوں روپے تھی۔ والدین کے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے نہ صرف ٹیوشن فیس ختم کردی گئی بلکہ ایک قدم آگے جاتے ہوئے پہلی جماعت سے لے کر پانچویں جماعت کے طلبہ اور پہلی جماعت سے لے کر آٹھویں جماعت کی طالبات کو مفت کتابیں فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ یہ شکایت عام تھی کہ اس سے قبل گورنمنٹ اسکیم کے تحت مفت فراہم کی جانے والی کتابیں محکمہ تعلیم کا عملہ فروخت کردیا کرتا تھا، اور بچوں تک بہت کم کتب پہنچ پاتی تھیں۔ اس لیے بدعنوانی کے سدباب، اعتماد کی بحالی اور تقسیم کے عمل کی نگرانی کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی، اس میں محکمۂ تعلیم کے افسران، سٹی کونسل کے اراکین میں سے یوسی ناظمین، اور مرد و خواتین کونسلرز کو بھی شامل کیا گیا۔ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم طالبات کی حوصلہ افزائی کے لیے اسکالرشپ کا نظام متعارف کرایا گیا۔ درجنوں اسکولوں کو قواعد و ضوابط اور کارکردگی کے مطابق پرائمری سے لوئر سیکنڈری، اور لوئر سیکنڈری سے سیکنڈری اسکولوں میں اپ گریڈ کیا گیا۔ کئی بڑے اسکولوں کو ہائر سیکنڈری اسکولوں کا درجہ بھی دیا گیا جہاں بارہویں کلاس یعنی انٹر تک تعلیم دی جانے لگی۔
”آپ نے اسکولوں کی تعمیر، توسیع اور ظاہری حسن کو بہتر کرنے پر تو خوب توجہ دی ہے، ذرا تعلیمی نظام اور اس کے بنیادی کردار یعنی ’’استاد‘‘ کی علمی و فکری تربیت کا کچھ اہتمام کیجیے“ اکثر احباب ملاقاتوں میں یہ بات کہتے۔ اور واقعی اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں تھیں کہ ذہن سازی اور بہترین خطوط پر تربیت روزِ اوّل سے کیا جانے والا باقاعدہ کام ہے۔ اس لیے باہمی مشاورت سے طے کیا کہ اس سلسلے کا آغاز بالکل ابتدائی کلاسوں سے کیا جائے۔ لیکن عمومی صورتِ حال یہ تھی کہ سرکاری اسکولوں میں نرسری، مونٹیسوری اور کے جی کلاسیں نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کا انتخاب کرتے تھے۔ اس لیے پہلے تو تمام سرکاری اسکولوں میں پری پرائمری کلاسز شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد اساتذہ کی تربیت کے ضمن میں پہلے کراچی کے اسکولوں کے مرد و خواتین اساتذہ کو جمعیت تعلیم القرآن (ٹرسٹ) کے تعاون سے قرآن پاک کی تعلیم تجوید کے ساتھ شروع کرانے کا انتظام کیا گیا، اور تین مراحل میں دو ہزار اساتذہ کو قرآن مجید کی تعلیم تجوید کے ساتھ دی گئی۔ پھر اساتذہ کی جدید طریقوں سے پیشہ ورانہ تربیت کے لیے تمام مضامین میں کراچی کے ماہرینِ تعلیم سے رجوع کرنے کے بعد 500 مرد و خواتین اساتذہ کا انتخاب کیا گیا۔ انہیں ’’پیشہ ورانہ ترقیاتی تربیتی پروگرام‘‘ (Professional Development Training Program) کے لیے گورنمنٹ کمپری ہینسو ہائی اسکول نارتھ ناظم آباد میں ڈسٹرکٹ آفیسر کے ذریعے بلایا گیا۔ اُس وقت کے ای ڈی او ایجوکیشن گل محمد حاجیانو کو نامعلوم کیوں یہ پروگرام کھلنے لگا، انہوں نے پرنسپل کو حکم دیا کہ ٹریننگ کے لیے آنے والے اساتذہ کے لیے اسکول کا دروازہ نہ کھولا جائے۔ مجھے اطلاع ملی تو فیصلہ کیا کہ بغیر اطلاع کے اسکول کا دورہ کروں گا۔ شاید انہیں میرے ارادے کی بھنک مل گئی، اس لیے وہ رکاوٹ ڈالنے سے باز رہے۔ آخر میں اسلامی نظامت ِ تعلیم کے تحت مرکز قرآن و سنہ (المرکز اسلامی، فیڈرل بی ایریا) میں دو روزہ پرنسپلز ٹریننگ پروگرام کا اہتمام کیا گیا، جس میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے اسکولوں کے 350 مرد و خواتین پرنسپلز، اور کراچی اور اندرون سندھ کے نجی تعلیمی اداروں کے 1400 نمائندوں نے شرکت کی۔ ایک موقع پر مسز دانیال عزیز نے جو خود بھی تعلیم کے شعبے سے وابستہ تھیں، چھوٹے بچوں کو پڑھانے والے اساتذہ کو تربیت دی۔ طلبہ و طالبات کے ذہنوں میں نظریۂ پاکستان کو راسخ کرنے کے لیے نظریۂ پاکستان فائونڈیشن کے تعاون سے سٹی گورنمنٹ کے مختلف تعلیمی اداروں میں تقریری مقابلوں کا اہتمام کیا جاتا رہا۔ نظریۂ پاکستان فائونڈیشن کی دعوت پر لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں کے سٹی ناظم میاں عامر محمود کے ساتھ کراچی اور لاہور کو نظریاتی جڑواں شہر قرار دینے کا فیصلہ کیا، اور اس کے ساتھ اسکولوں میں باقاعدہ نوٹس جاری کروایا کہ نظریۂ پاکستان کے خلاف، یا کوئی غیر اخلاقی پروگرام منعقد نہیں ہونا چاہیے۔ اور کونسلرز کو نگرانی کے لیے متعین کیا۔
ایک جانب ہم تعلیمی اداروں کو عمدہ سہولیات سے آراستہ کرنے کی کوششیں کررہے تھے، اور دوسری جانب محکمۂ تعلیم کے بعض ذمہ داران کرپشن کے لیے موقع کی تاک میں رہتے تھے جیسے انٹر بورڈ کے ایک چیئرمین نے اسکول مینجمنٹ کمیٹی (SMC) کے حوالے سے ایک میٹنگ طلب کی۔ (بنیادی طور پر یہ کمیٹیاں اسکول و کالج کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے تشکیل دی گئی تھیں۔ کمیٹیاں اسکول پرنسپل، اساتذہ، والدین، ناظمین اور کونسلرز پر مشتمل تھیں اور انہیں 2002ء میں 4 ہزار روپے فی کلاس روم اور 2003ء میں 167 روپے فی طالب علم کے حساب سے رقم مہیا کی گئی تھی تاکہ یہ اسکول و کالج میں معمول کے ترقیاتی کام، فرنیچر کی خریداری، رنگ و روغن، کوآپریٹو اساتذہ کی تقرری سمیت دیگر اقدامات خود کرسکیں)۔ خیر، انٹر بورڈ کے چیئرمین موصوف نے طلب کی گئی میٹنگ میں تمام ڈی اوز ایجوکیشن کو بلایا ہوا تھا اور انہیں پراجیکٹس کی لسٹ تھماتے ہوئے کہنے لگے: کانٹریکٹر کے نام کے بل بنا کر دے دیں۔ کسی ذریعے سے پتا چلا کہ یہ تمام پراجیکٹس کاغذی ہیں۔ سیکریٹری سے کہا: فوراً نوٹس جاری کریں کہ آئندہ میری اور ڈی سی او کی منظوری کے بغیر ایس ایم سی منظور نہ کی جائے۔ اس اقدام پر چیئرمین صاحب بہت ناخوش ہوئے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا، جب ہم نے سیکنڈری اسکولوں میں کمپیوٹر لیبس میں کمپیوٹر فراہم کرنے کا ارادہ کیا تو ایک ڈی او ایجوکیشن کہنے لگے کہ یہ کمپیوٹر ہمارے ذریعے تقسیم کرائے جائیں۔ انہوں نے بالا ہی بالا کچھ کمپیوٹر سپلائرزسے رابطہ بھی کرلیا۔ کچھ اسکول پرنسپلز کی شکایات موصول ہوئیں کہ ہمیں کمپیوٹر دیے بغیر وصولی کے دستخط کرا لیے گئے ہیں۔ میں نے تقسیم کے لیے خریدے گئے سارے کمپیوٹر ٹرکوں میں لوڈ کرواکر سوک سینٹر منگوا لیے اور اسکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو کہا کہ اپنے حصے کے دس دس کمپیوٹر لے جائیں۔ اس طرح کے چھوٹے موٹے بیسیوں واقعات پیش آتے رہے، لیکن نسیم صدیقی اور سٹی کونسلر ریحانہ افروز اور ان کی ساتھی خواتین کونسلرز کے بے پناہ تعاون کی وجہ سے بہت حد تک مسائل پر قابو پا لیا تھا۔
فیڈرل بی ایریا کے بلاک 7 میں شاہراہ پاکستان کے کنارے ایک شاندار عمارت 80ء کی دہائی سے موجود تھی۔ یہ بلدیۂ عظمیٰ کراچی کی ملکیت تھی اور جماعت اسلامی کے رہنما و سابق کونسلر بلدیۂ عظمیٰ اخلاق احمد صاحب کی تجویز پر اسے بنایا اور المرکز اسلامی کا نام دیا گیا تھا۔ اخلاق احمد صاحب اسے ایک معیاری دینی، تہذیبی و ثقافتی مرکز کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ پلاٹ کے حصول سے لے کر عمارت کی تعمیر تک انہوں نے اور میئر افغانی نے اس منصوبے میں بہت دلچسپی لی تھی۔ بدقسمتی سے افغانی صاحب کے بعد میئر بننے والے ڈاکٹر فاروق ستار نے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور نہ ہی بعد میں آنے والے کسی ایڈمنسٹریٹر نے اسے مکمل کروانا ضروری سمجھا۔
سٹی ناظم بننے کے بعد میں نے اس عمارت کا دورہ کیا اور اس کی تزئین و آرائش کا حکم دیا۔ کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے سینئر افسر سیف الرحمٰن گرامی، عبدالرشید بیگ، انصار رضی اور قاضی صدرالدین میرے ساتھ تھے۔ گرامی صاحب نے ہمیں آڈیٹوریم کا دورہ کروایا اور ایک کمرے میں رکھی ایک درجن سے زیادہ سنگِ مرمر کی تختیاں دکھائیں جن پر ایشیا کے عظیم مصور اور خطاط صادقین کی خطاطی موجود تھی۔ بلاشبہ یہ فن پارے نادر و نایاب تھے جن کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں تھا۔
میں نے حکم دیا کہ آڈیٹوریم کے لیے اعلیٰ معیار کی کرسیاں خریدی جائیں اور چلر پلانٹ نصب کروایا جائے تاکہ برسوں سے زیرتکمیل اس عظیم الشان عمارت کو اس کے اصل مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ عمارت میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے بعد کئی بڑے تعلیمی و تربیتی پروگرام منعقد کیے گئے۔ ایک سال نماز تراویح کا اہتمام بھی کیا گیا۔ کراچی جماعت کے نائب قیم انجینئر حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی دلکش تلاوت سے مقتدیوں کو بہت متاثر کیا۔ ہماری کوشش تھی کہ اس عمارت میں ایک مرکز قرآن و سنہ قائم کیا جائے جو ایک گورننگ باڈی کے ماتحت خودمختار ادارہ ہو، اور تحقیق و تالیف کا کام بھی اس کے دائرئہ کار میں شامل ہو۔ اس کا خاکہ مرتب کرنے کے لیے میں نے ابو احمد عاکف سے بات کی، جو کراچی کے سابق ایڈیشنل کمشنر رہ چکے تھے اور اس وقت نیپا کراچی کے چیف انسٹرکٹر تھے۔
میرے بعد ناظم بننے والے مصطفیٰ کمال نے اس منصوبے کو بوجوہ آگے بڑھانا مناسب نہیں سمجھا۔ شاید وہ متحدہ کے سیکولر ہونے کے تاثر کو خراب نہیں ہونے دینا چاہتے تھے، یا ہوسکتا ہے کہ یہ منصوبہ ان کی ترجیحات میں ہی شامل نہ ہو!
جنوری 2003ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو ہماری پوری ٹیم کے لیے بہت تکلیف دہ تھا۔ گلبرگ ٹاؤن کی یونین کونسل 7 واٹر پمپ کے ناظم فیضان اللہ خان الخدمت گروپ کے اہم ناظمین میں شامل تھے اور اپنی ٹیم کے ساتھ یوسی میں بہت اچھے انداز میں کام کررہے تھے۔ اس سے قبل وہ ڈاکٹر معراج الہدیٰ کے ساتھ جماعت اسلامی ضلع وسطی کے نائب قیم بھی رہ چکے تھے۔ ان کے روابط دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگوں سے بھی تھے اور وہ ہر ایک کی بلا تفریق خدمت کے قائل تھے۔ 15 جنوری 2003ء کی رات متحدہ کے مقامی یونٹ انچارج سلمان دو افراد کے ساتھ کسی کام سے یونین کونسل کے دفتر آئے۔ فیضان اللہ کے بقول سلمان نام کا یہ نوجوان شادی کے بعد متحدہ کی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہ رہا تھا اور وہ اُن سے مستقل رابطے میں تھا۔ اس وقت فیضان اللہ کے ساتھ یوسی کے نائب ناظم لیاقت علی خان اور کچھ کونسلر بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ملاقات کے بعد جب سلمان اور اس کے دوست باہر نکلے تو وہاں گھات لگائے ہوئے دہشت گردوں نے ان پر فائرنگ کردی۔ فیضان اللہ اور ان کے ساتھی فائرنگ کی آواز سن کر باہر نکلے تو انہیں تینوں افراد شدید زخمی حالت میں ملے۔ لیاقت علی خان کی گاڑی میں ڈال کر انہیں عباسی شہید ہسپتال پہنچایا گیا جہاں فیضان اللہ نے میڈیکو لیگل رپورٹ بنوائی اور اپنے شناختی کارڈ کی کاپی بھی جمع کروائی۔ دو زخمی ہسپتال پہنچ کر جانبر نہ ہوسکے جبکہ تیسرے کی جان بچ گئی۔
متحدہ نے اپنے ایک یونٹ انچارج کو جو پارٹی چھوڑنا چاہتا تھا، سزا دے کر بہت سوں کو پیغام دے دیا کہ مافیا طرز کے اس گروہ سے نکلنے کا کوئی پُرامن راستہ نہیں ہے۔ اگلے روز یونین کونسل کے آفس کو آگ لگادی گئی اور فیضان اللہ خان کے خلاف دہرے قتل کی ایف آئی آر درج کروا دی گئی۔ ایک بے گناہ منتخب عوامی نمائندہ جیل بھیج دیا گیا اور اگلے ایک سال تک اپنے حلقے کے عوام اور بیوی بچوں سے دور ایک ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتا رہا، تاآنکہ عدالت نے بے گناہ قرار دے کر ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ رہائی کے بعد میں نے فیضان اللہ خان کو واٹر بورڈ کے معاملات کے لیے اپنا کوآرڈینیٹر نامزد کردیا۔ انہوں نے بقیہ مدت یونین کونسل کی نظامت کے ساتھ ساتھ اس ذمہ داری کو بھی بحسن و خوبی نبھایا۔