لائبریری نہ بن سکی- اسپورٹس کمپلیکس بن گیا
دو ایسے ترقیاتی منصوبوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو خالصتاً خواتین اور بچیوں کے لیے تھے۔ ایک منصوبہ شروع ہونے کے باوجود مکمل نہیں ہوسکا، جبکہ دوسرا پایۂ تکمیل کو پہنچا اور شہر میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ قرار پایا۔ ارادہ یہ تھا کہ شہر کے ہر ضلع میں ایک خواتین لائبریری کمپلیکس اور ایک اسپورٹس کمپلیکس بنایا جائے، کیونکہ ہمارے یہاں مڈل کلاس اور غریب طبقات کی خواتین کے لیے ایسی سہولتوں کی شدید کمی ہے۔
گلشن اقبال کے علاقے میں نیپا چورنگی سے کچھ فاصلے پر کسٹم کلب سے متصل ایک بڑا پلاٹ تھا جو پبلک لائبریری کے لیے مختص تھا۔ سٹی کونسل میں الخدمت کی خواتین کونسلرز ریحانہ افروز، شہلا عنایت، مسفرہ جمال، صابرہ شاہد اور منور اخلاص صاحبہ نے تجویز پیش کی کہ اس پلاٹ پر خواتین اور طالبات کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ ایک بڑی لائبریری قائم کی جائے جس سے پورے شہر کی خواتین استفادہ کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی کاموں کے لیے ہر سٹی کونسلر کو جو پندرہ لاکھ روپے فراہم کیے گئے ہیں، وہ رقم اس لائبریری کے قیام میں استعمال کی جاسکتی ہے، اس منصوبے میں پیپلز پارٹی اور دیگر گروپوں کی خواتین کونسلرز بھی تعاون کے لیے تیار ہیں۔ مجھے یہ تجویز پسند آئی، اور ہم نے اس کے لیے ورکس اینڈ سروسز کے محکمے کو پی سی ون بنانے کی ہدایت کردی۔ اگلے چند ماہ میں اس منصوبے پر بہت تیزی سے کام ہوا۔ نقشے وغیرہ بنائے گئے اور کنسلٹنٹ نے ہماری ٹیم اور خواتین کونسلرز کو تفصیلی بریفنگ دی۔ 65 ملین روپے کے اس منصوبے کے لیے رکن قومی اسمبلی عائشہ منور صاحبہ نے اپنے فنڈ سے 15 ملین روپے دینے کا اعلان کیا۔
20 جنوری 2004ء کو ایک پُروقار تقریب میں شہر کے پہلے ’’ویمن لائبریری کمپلیکس‘‘ کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ تقریب میں معروف شاعر اور ماہر تعلیم عنایت علی خان صاحب نے بطور خاص شرکت کی اور شرکاء کے پُرزور اصرار پر اپنی کچھ نظمیں بھی سنائیں۔
سنگِ بنیاد رکھے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد تعمیراتی کاموں کا آغاز ہوگیا۔ میں نے عابد الیاس کی ذمہ داری لگائی کہ اس اہم منصوبے کے تعمیراتی کاموں کی خصوصی نگرانی کریں، اور فنانس ڈپارٹمنٹ کو بھی ہدایت جاری کی کہ کسی بھی مرحلے پر کانٹریکٹر کو ادائیگی میں تاخیر نہ ہو تاکہ منصوبہ بروقت مکمل ہوسکے۔ بدقسمتی سے مصطفیٰ کمال نے ناظم بننے کے بعد اس منصوبے کو ختم کردیا اور اس پلاٹ پر ’’ناصر حسین شہید ہسپتال‘‘ بنانے کا اعلان کردیا۔ متحدہ قومی موومنٹ جیسے کسی بھی گروہ کو تعلیم کے شعبے سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ یہ بات تو آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔ کراچی کے سرکاری تعلیمی اداروں پر بدترین زوال اسی گروہ کی نالائقیوں کی وجہ سے آیا تھا، وگرنہ 1986ء تک یہی سرکاری تعلیمی ادارے شہر کے ہر طبقے کے بچوں اور بچیوں کو مفت معیاری تعلیم فراہم کررہے تھے۔
ویمن اسپورٹ کمپلیکس
2005ء کی جنوری یا فروری کا واقعہ ہے کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈسٹرکٹ افسر سیف الرحمٰن گرامی ایک فائل لے کر میرے پاس آئے۔ ان کے ساتھ قاضی صدرالدین بھی تھے۔ انہوں نے بتایا کہ گلشن اقبال بلاک تین میں خواتین اسپورٹس کمپلیکس کا منصوبہ طویل عرصے سے تعطل کا شکار ہے۔ فنڈز کی قلت کی وجہ سے کئی سال پہلے اس پر کام بند ہوگیا تھا۔ اگر آپ اس منصوبے میں دلچسپی لیں تو ایک سال کے اندر اسے مکمل کروایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ شہر میں اپنی نوعیت کا پہلا سرکاری منصوبہ ہوگا جہاں مڈل کلاس کی خواتین اور بچیاں ممبر شپ لے سکیں گی۔ اس منصوبے میں انڈور گیمز، جم اور سوئمنگ پول کی سہولتیں بھی شامل تھیں۔
کمرے میں موجود ایک صاحب نے چونک کر کہا ’’خواتین کے لیے سوئمنگ پول اور جم! کیا نعمت اللہ صاحب ایسے منصوبوں کا افتتاح بھی کریں گے؟“ مجھے مداخلت کرنی پڑی اور کہنا پڑا کہ اسلام شرعی حدود و قیود میں رہتے ہوئے خواتین کو ہر طرح کی مثبت سرگرمیوں کی اجازت دیتا ہے۔ میں نے گرامی صاحب اور قاضی صدرالدین سے کہا کہ اس منصوبے کو مکمل کروائیں اور مالی معاملات کی منظوری مجھ سے اور ڈی سی او سے طریقۂ کار کے مطابق لے لیں۔
سات یا آٹھ مہینے کے بعد یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچا اور 21 جون 2005ء کو شہر کے پہلے ویمن اسپورٹس کمپلیکس کا باقاعدہ افتتاح کردیا گیا۔ کچھ لوگوں کی یہ غلط فہمی دور ہوگئی کہ جماعت اسلامی خواتین کے حوالے سے تنگ نظری کا شکار ہے، اور انہیں گھروں تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔ ویسے بھی ایک ایسی جماعت پر اس قسم کی تنقید حقیقت سے دور اور بلاجواز لگتی ہے جس کا شعبۂ خواتین کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ منظم اور فعال ہے، اور جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اُس دور میں بھی ڈاکٹر کوثر فردوس، عائشہ منور اور سمیحہ راحیل قاضی جیسی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین پارلیمان میں جماعت کی نمائندگی کررہی تھیں۔