آپ ملین مارچ کرسکتے ہیں؟
1996ء کا سال تھا اور جولائی یا اگست کا مہینہ۔ قاضی حسین احمد صاحب نے ایک موقع پر پوچھا ’’نعمت صاحب!! آپ ملین مارچ کرسکتے ہیں؟‘‘ ”جی کیوں نہیں!!“ بغیر کسی تاخیر کے میرے منہ سے نکلا۔ ”ایک ملین سے زیادہ لوگ ہونے چاہئیں“۔ قاضی صاحب نے اپنی خواہش ظاہر کی۔ ہنگامی طور پر شوریٰ کا اجلاس بلایا۔ 27 دسمبر تاریخ طے کی گئی۔ روٹ کا تعین، حاضری کو یقینی بنانا، تشہیری مہم، خواتین کی بھرپورشرکت سمیت دیگر تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد ہر کام کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ پروگرام غیر معمولی نوعیت کا تھا۔ صاف نظر آرہا تھا کہ اخراجات بھی بہت زیادہ ہوں گے۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ’’ملین مارچ فنڈ‘‘ قائم کیا گیا۔ حلقے اور علاقے کی سطح پر ہنگامی کارکنان کو بھی فعال کیا گیا۔
ریلیوں، مساجد کے باہر اجتماعات اور برادر تنظیموں کی بھرپور شرکت نے محض چند دنوں میں کراچی کی فضا کو گرما دیا۔ شاہد شمسی، سرفراز احمد، امین صادق وغیرہ نے سلیم ناز بریلوی کی آواز میں کئی پُرجوش ترانے ریکارڈ کروائے۔ شباب ملی کے ذمہ داران اور کارکنان ملین مارچ کی تیاریوں میں پیش پیش رہے۔
20ستمبر کی شام محترمہ بے نظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو اپنے قریبی ساتھیوں سمیت پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن گئے۔ اس اندوہناک سانحے نے پورے شہر کی فضا کو سوگوار کر دیا۔ مرتضیٰ بھٹو اپنے بہنوئی آصف علی زرداری کے طرزِ سیاست پر کھل کر تنقید کرتے تھے، اس لیے ان کے قتل کے بعد آصف زرداری کی جانب انگلیاں اٹھیں۔ ایک سینئر اور باخبر صحافی نے مجھ سے کہا: خان صاحب، بہن کی حکومت میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں سگے بھائی کا قتل ثابت کرتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔
اس واقعہ سے ملین مارچ کی مہم بھی وقتی طور پر متاثر ہوئی۔ مارچ والے دن مقررہ وقت سے پہلے خواتین و حضرات کے لیے مختص کیے گئے روٹس سے شرکا کی آمد شروع ہو گئی۔ تبت سینٹر کے برج کو بطور اسٹیج استعمال کیا گیا۔ شام پانچ بجے تک لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوچکی تھی کہ تاحدِّ نگاہ سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ صحافیوں نے تبصرہ کیا: آپ لوگوں نے سمندر کے کنارے، انسانوں کا سمندر بنا دیا۔ قاضی صاحب بھی اس دوران پہنچ گئے۔ نمازِ عصر ادا کی اور پروگرام کا باقاعدہ آغاز ہوگیا۔ لوگوں کی آمد کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ مجھے اطلاع دی گئی کہ منتظمین نے بہت سارے قافلوں کو راستے میں روک دیا ہے کیونکہ آگے جانے کے لیے راستے میں گنجائش باقی نہیں بچی تھی۔ مرکزِجماعت سے قاضی صاحب کے ساتھ دیگر احباب بھی تشریف لائے تھے۔ انہوں نے مجمع دیکھا تو دنگ رہ گئے۔ مختلف مقررین کے خطاب کے بعد قاضی صاحب تقریر کرنے آئے، اور حمد و ثناء کے بعد فرمایا: ”میں نے تو ملین مارچ کا کہا تھا، یہاں تو پورا شہر امڈ آیا ہے“۔ اس جملے سے ہم سب کو بڑی تقویت ملی۔ مغرب کے وقت پروگرام ختم ہوا۔ نماز کے بعد میں کچھ لوگوں سے بات کررہا تھا، ایک صاحب میرے نزدیک آئے اور لپٹ کر روتے ہوئے کامیاب ملین مارچ کی مبارک باد دینے لگے، ساتھ ساتھ کہتے جاتے ”نعمت صاحب! اللہ نے کرم فرمایا، محنت رائیگاں نہیں گئی“۔ تمام کارکنان بہت خوش تھے۔ اس تاریخی پروگرام کے بعد بہت سارے حلقہ جات میں استقبالیے دیے گئے اور دعوتی کام نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھانے کا عہد کیا گیا۔ ملین مارچ کو ذرائع ابلاغ نے بھی اچھی کوریج دی۔ یہ مارچ کراچی میں جماعت اسلامی کے سیاسی سفر میں ایک اہم سنگ ِمیل کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
3 فروری 1997ء کو ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ جماعت اسلامی کی شوریٰ نے ان انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا۔ کئی اراکینِ شوریٰ نے بحث کے دوران اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو انتخابات کے بائیکاٹ سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ شوریٰ کی اکثریت نے بائیکاٹ کا فیصلہ سنادیا، اور ظاہر ہے کہ کوئی فیصلہ ہو جانے کے بعد وہ جماعت اسلامی کے ہر فرد کا فیصلہ ہوتا ہے، یہی اس اجتماعیت کی روح ہے۔
ممبر سازی مہم
قاضی صاحب جماعت اسلامی کو ایک عوامی دینی و فلاحی سیاسی جماعت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے سربراہان اور قائدین سے مسلسل رابطے میں رہتے، ترکی اور تیونس جیسے ممالک میں اسلامی تحریکوں کی پیش قدمی کو نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ،بلکہ چاہتے تھے کہ جماعت اسلامی پاکستان میں ان خطوط پر کام کرے اور نئے لوگوں کو تحریک میں بڑے پیمانے پر شامل کیا جائے۔ ہماری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی ان کا یہی کہنا ہوتا کہ جب تک عام آدمی ہماری صفوں میں بلکہ ہماری قیادت کی صفوں میں نظر نہیں آئے گا جماعت اسلامی میدانِ سیاست میں قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پائے گی۔
انہوں نے ملک بھر میں ممبر سازی مہم چلانے کا حکم دیا اور خود بھی اس مہم میں بھرپور طریقے سے سرگرم ہوگئے۔ ظاہر ہے کہ امیر جماعت کی غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے ملک کے ہر شہر اور قصبے میں ارکان و کارکنان نے دن رات محنت کی اور بڑی تعداد میں لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور جماعت ِاسلامی کی دعوت پہنچائی۔ 6 جون سے 15 جولائی 1997ء تک چلائی جانے والی اس مہم کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کے علاقے نیو کراچی نے ناظمِ علاقہ سید رشید احمد کی قیادت میں چالیس ہزار لوگوں کو جماعت کا ممبر بنایا اور اُن سے باقاعدہ ممبر سازی کے فارم بھروائے گئے۔ کراچی کے ہر علاقے میں اسی جوش و خروش سے کارکنان نے کام کیا۔