نعمت اللہ خان ۔۔۔۔۔ ایک بے مثال انسان!
وہ پاکستان کی محبت میں جذباتی حد تک گرفتار ہیں
میرا ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ یہ تاثر تھا کہ یہ ایک دیانت دار اور کامیاب آدمی ہیں، اسلام سے متاثر ہیں، دینی کاموں میں دلچسپی لیتے رہتے ہیں۔ ”کامیاب“ میں نے اس لیے کہا کہ اس زمانے میں شمالی ناظم آباد میں کوئی ڈیڑھ ہزار گز کا بنگلہ بنا لینا معمولی بات نہ تھی۔ اس دوران ہوا تو یوں کہ میں نے اپنا ہفت روزہ ”تعبیر“ کے نام سے نکالا، مجھے اس کے لیے کسی وکیل کی ضرورت تھی جو انکم ٹیکس وغیرہ کے امور کو دیکھ سکے۔ وکیل تو کئی واقف تھے۔ خالد اسحٰق اور راجا حق نواز سے لے کر جنید فاروقی، حشمت حبیب ہمارے مقدمے بلا معاوضہ لڑتے ہی رہتے تھے، مگر مجھے اندازہ تھا کہ اس کام کے لیے ایک الگ ڈھب کا وکیل ہوا کرتا ہے، جیسے لاہور میں محمود مرزا تھے۔ برادرم منور حسن سے پوچھا تو فوراً بولے: اپنے نعمت اللہ جو ہیں، ان کے پاس چلے جاؤ۔ میں پہلی بار ٹاور کے پاس ان کے دفتر میں پہنچا، وہ پہلے سے منتظر تھے۔ اُس وقت تو ان کی داڑھی بھی نہ تھی، لباس بھی جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، مغربی ہی تھا۔ سچ پوچھیے تو آج کے نعمت اللہ خان کو دیکھ کر آدمی مغالطے میں پڑ جاتا ہے کہ آیا ان کا حلیہ کبھی اس سے مختلف بھی رہا ہوگا! وہ جماعت اسلامی کے متاثرین میں ضرور رہے ہوں گے، ان کے گھر میں جماعت والوں کی دعوتیں بھی ہوا کرتی تھیں۔ اُس زمانے میں بہت سے لوگ ایسے تھے جو ملک میں سوشلزم اور الحاد کی بڑھتی ہوئی قوتوں کے خلاف جماعت اسلامی کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اور اس لیے جماعت کے ہمدرد بھی تھے، اور مخالفوں سے جماعتیے کی پھبتی بھی سنتے تھے۔
پھر ایک دن خبر آئی کہ خان صاحب رکنِ جماعت ہوگئے ہیں، خانہ کعبہ میں پروفیسر غفور صاحب کے سامنے حلف اٹھایا ہے۔ شاید جذبہ ایمانی زیادہ زور مار گیا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے نائب امیر، پھر امیر ہوگئے۔ کسی نے کہا: منور حسن کی دوستی رنگ لائی ہے، کسی نے پوچھا: کیا ممبر شپ کے سخت معیارات سے گزرے ہیں؟ چہرے پر داڑھی خوب پھبنے لگی، آہستہ آہستہ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ اب وہ پہلے والے خان صاحب کو یاد کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ میں بار بار پہلے والے خان کا حوالہ دے رہا ہوں تو خدانخواستہ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اُس وقت یہ دین سے بہت دور تھے۔ بالکل نہیں۔ عرض کیا ہے کہ دینی کاموں میں دلچسپی لیتے تھے۔ ہاں، دنیاوی طور پر کامیاب آدمی ضرور تھے۔ تقسیم کے وقت لٹے پٹے پاکستان آئے تھے۔ اُس زمانے میں ان کے دوست، مشہور صحافی فضل قریشی ان دنوں کا تذکرہ بڑے مزے سے کرتے ہیں۔ بالکل نچلی سطح سے انہوں نے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا اور انکم ٹیکس کے بڑے کامیاب وکیل بنے۔ ان کا شمالی ناظم آباد میں گھر جس کا میں نے اوپر ذکر کیا، انہی دنوں کی یادگار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ گھر انہوں نے اپنی محنت سے حق حلال کی کمائی سے بنایا ہوگا۔ وہ بنیادی طور پر ایک دیانت دار اور شریف آدمی ہیں، اور ایک ایسے آدمی کا دنیاوی طور پر کامیاب ہونا میرے لیے ہمیشہ خوشی کی بات رہی ہے۔ جیسے ہمارے پروفیسر غفور احمد ہیں۔ 70ء میں اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے وقت وہ فیڈرل بی ایریا میں اپنا ایک نہایت عمدہ گھر رکھتے تھے اور ایک بڑے اور اہم ادارے کے ڈائریکٹر فنانس تھے۔ اچھی تنخواہ، اچھی مراعات تھیں۔ یہی حال محمود اعظم فاروقی کا تھا۔ جماعت کو انہی مرحلوں سے گزرنے والا ایک اور شخص مل گیا تھا۔
مجھے یاد ہے، میں ان کے گھر کئی بار گیا ہوں، اکثر کھانے پر احباب اکٹھے ہوتے۔ بڑے بڑے اجتماعات بھی ہوتے۔ یہ جو تاثر ہے کہ شاید انہیں غصہ بہت آتا ہے، تو مجھے یاد نہیں پڑتا۔ میں نے تو انہیں ہمیشہ نرم خو پایا۔ دھیمے انداز میں بات کرتے۔ ہاں، وہ اپنی بات پر ڈٹ جانے والے اور سچ کے اظہار میں دوٹوک بات کرنے والے ضرور ہیں۔
ایک نکتہ صاف صاف بتاتا ہوں، جس طرح جب وہ امیر جماعت بنے تو بعض لوگوں کو حیرت ہوئی کہ جماعت میں بڑے بڑے پرانے لوگ پڑے ہیں، یہ نسبتاً نئے ’’رکن‘‘ کو امیر کیوں بنادیا، اس طرح جب انہیں ناظم اعلیٰ کے لیے نامزد کیا گیا تو کہنے والو ںنے کہا، جماعت نے یہ کیا کیا، اس کام کے لیے تو کسی ایسے آدمی کو لانا چاہیے تھا جس کا امیج گویا غیر جانب دار یا غیر جماعتی کا ہوتا۔ اب لوگ یہ بھول چکے تھے کہ وہ ایک کامیاب وکیل بھی تھے، اب یہی سمجھا جاتا تھا کہ ایک مولوی کو اس کام پر لگا دیا۔ کسی پروفیشنل وغیرہ کو لایا جاتا۔ نعمت اللہ خان نے اب کی بار اس تاثر کو بھی زائل کردیا۔ اب وہ کراچی کے کامیاب ترین ناظم گنے جاتے ہیں، حتیٰ کہ عبدالستار افغانی بھی ماند پڑ گئے، جو اپنی قلندری اور کارکردگی کی وجہ سے جماعت کے لیے باعثِ افتخار بنے تھے۔ نعمت اللہ خان کا کام صدر پرویزمشرف تک کو اتنا پسند آیا کہ وہ ان کے لیے مخالفتوں کے طوفان میں ایک ڈھال بن گئے، وہ سمجھ گئے کہ یہ مولوی دہشت گرد نہیں، جہاندیدہ ہے۔ اس وقت اگر مقامی حکومتوں کے تجربے کو کامیاب ثابت کرنا ہو تو پہلی مثال نعمت اللہ خان کی دی جائے گی۔ شاید اس کے بعد لاہور کے میئر عامر محمود کا ذکر آئے، مگر اُن کے لیے شاید اتنی مشکلات نہیں، صوبے میں ایسی حریف حکومت نہیں جیسی نعمت اللہ خان کو ملی ہے۔ غیر جانب دار لوگ بھی کہتے ہیں کہ وہ کچھ عرصہ رہ گئے تو کراچی کی شکل بدل جائے گی۔ وہ ڈرتے ہیں نہ دبتے ہیں، بس کام میں لگے رہتے ہیں۔ مجھے ان کی ایک اور ادا بہت پسند ہے کہ وہ پاکستان کی محبت میں جذباتی حد تک گرفتار ہیں۔ جہاں بھی موقع ملتا ہے، وہ اس کا کھل کر اظہار کرتے ہیں۔ انہوں نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک کامیاب آدمی ہیں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ خدا ان کے درجات بلند کرے۔ وہ ایک بے مثال انسان ہیں۔
سجاد میرؔ
(یہ مضمون 2004 ء میں لکھا گیا)