یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
8اگست1986ء کو نشتر پارک میں مہاجر قومی موومنٹ نے جلسہ کیا۔ الطاف حسین نے اس جلسے میں انتہائی اشتعال انگیز تقریر کی اور سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے اردو بولنے والوں میں دیگر قومیتوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ جلسہ اس لحاظ سے الگ نوعیت کا تھا کہ اس میں نوجوان اسٹیج پر جدید اسلحہ کی نمائش کر رہے تھے۔
جلسے کے کچھ ہی ہفتے بعد سہراب گوٹھ پر ناجائز قابضین اور منشیات فروشوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک نمائشی آپریشن کیا۔
سانحہ قصبہ و علی گڑھ
صرف دو دن بعد کراچی کے علاقوں قصبہ اور علی گڑھ کالونی پر پراسرار دہشت گردوں نے جدید اسلحہ سے لیس ہو کر وحشیانہ حملہ کر دیا۔ دہشت گردی کی ایسی واردات کراچی کے لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ بدترین انداز میں خون کی ہولی کھیلی گئی اور درجنوں معصوم لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ پورے شہر میں یہ بات پھیل گئی (منظم انداز میں پھیلا دی گئی) کہ پٹھانوں نے مہاجروں پر حملہ کردیا ہے اور چار سو سے زیادہ لوگوں کو قتل کردیا ہے۔
شہر میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ نوجوانوں کی ٹولیاں گلیوں اور سڑکوں پر نکل آئیں اور ردِعمل سامنے آنا شروع ہوگیا۔ کوئی یہ سننے اور سمجھنے کے لیے بھی تیار نہیں تھا کہ پٹھان اور مہاجر تو کراچی کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں اور کئی محلوں میں برسوں سے ساتھ بھی رہ رہے ہیں۔ اگر یہ پٹھان مہاجر فساد ہے تو شہر کے صرف ایک علاقے ہی میں ایسا بھیانک فساد کیوں ہوا ہے؟
قصبہ کے سانحے کے فوری بعد جماعت اسلامی کے ذمہ داران اور کارکنان نے متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ لوگوں کو راشن پہنچایا، شہداء کی تدفین میں تعاون کیا اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کا بندوبست کیا۔ جماعت اسلامی کی خواتین بھی ان امدادی سرگرمیوں میں پورے طور پر شریک رہیں۔
الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں نے اس سانحے اور لاشوں پر عملی سیاست کا آغاز کیا اور پھر لاشوں اور تشدد کی سیاست ہی ان کی پہچان بن گئی۔ وہ چیختے چلاّتے رہے کہ کمشنر کراچی کہاں ہے؟ کمشنر کراچی نے لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کیوں نہیں کیا جبکہ پولیس ان کے ماتحت تھی۔ انہوں نے کئی بار دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں کی وڈیوز موجود ہیں اور کئی ایک کو شناخت کیا جاسکتا ہے۔مذکورہ ویڈیوز کسی عدالت میں کبھی پیش نہیں کی گئیں۔
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
اُس زمانے میں بلدیہ کراچی کی مالی پوزیشن کمزور تھی۔ میئر کراچی عبدالستار افغانی صاحب کئی بار صوبائی حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کروا چکے تھے کہ ترقیاتی کاموں کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جائے یا صوبائی حکومت کراچی سے جمع ہونے والے موٹر وہیکل ٹیکس میں سے شہر کو معقول حصہ دے۔
سندھ حکومت ایسے کسی مطالبے پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس رویّے سے تنگ آ کر افغانی صاحب نے پُرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیا اور 12 فروری 1987ء کو کونسلرز کے ساتھ ایم اے جناح روڈ پر جلوس نکالا۔ وزیراعلیٰ نے منتخب بلدیہ کو ختم کر دیا اور شہر کے منتخب نمائندوں کو جیل بھیج دیا گیا۔ گرفتار شدگان میں میئر کراچی بھی شامل تھے۔ سینئر بیوروکریٹ سعید صدیقی بلدیہ کراچی کے منتظم بنا دیے گئے۔
30نومبر 1987ء کو بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے۔ کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں نے الطاف حسین کے نعروں اور حقوق کے وعدوں سے متاثر ہو کر اُن کے حمایت یافتہ امیدواروں کو تاریخی فتح سے ہمکنار کردیا۔ 1979ء اور 1983ء میں کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر منتخب ضرور ہوسکا تھا لیکن ڈپٹی میئر دونوں بار دوسری پارٹی کا منتخب ہوا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار کراچی کے اور آفتاب شیخ حیدرآباد کے میئر منتخب ہوئے تو ڈپٹی میئر بھی اسی گروپ سے تھے۔ اس قدر بھاری اکثریت سے کامیابی کی توقع خود الطاف حسین اور اُن کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں تھی۔
1987ءمیں میاں طفیل محمد نے امارت کی ذمہ داری سے معذرت کرلی۔ ارکان نے اکتوبر 1987ء میں قاضی حسین احمد کو نیا امیر منتخب کرلیا۔ قاضی صاحب اس سے قبل مرکزی جنرل سیکریٹری تھے۔ قاضی صاحب نے ایک بار مجھ سے کہا کہ اگر ملک کا مشرقی حصہ ہم سے جدا نہ ہوتا تو یقینی طور پر پروفیسر غلام اعظم صاحب جماعت کے مرکزی امیر منتخب کیے جاتے۔ وہ ہر لحاظ سے اس منصب کے لائق تھے۔ قاضی صاحب پروفیسر غلام اعظم اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنماؤں سے بہت محبت و عقیدت رکھتے تھے اور ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک جاتے تھے۔
29مئی1988ء کو جنرل ضیاء نے آئین کی شق 58-2Bکے تحت حکومت کو ختم کر دیا اور اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کردیا، اور وزیراعظم محمد خان جونیجو اور ان کی کابینہ کو گھر بھیج دیا۔مجھے رکن اسمبلی کی حیثیت سے پانچ چھ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بشمول الا ؤنسز ملا کرتی تھی۔ وہ ساری تنخواہ بینک میں جمع ہو جایا کرتی تھی۔ رکنیت ختم ہوئی تو پوری رقم نکلوائی اور جماعت کے بیت المال میں جمع کروا دی۔
17 اگست 1988ء کو صدر ضیاء الحق کا طیارہ بھاولپور کے نزدیک حادثے کا شکار ہوگیا اور ضیاء الحق سمیت کئی اعلیٰ فوجی افسر اس میں شہید ہوگئے۔ ضیاء الحق کئی شخصی خوبیوں کے مالک تھے۔ انہیں طویل عرصے ملک پر مکمل اختیارات کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع ملا۔
انہوں نے ملک کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور غلام اسحٰق خان کو پوری آزادی دی۔ اس اہم منصوبے کو ہر طرح کی مداخلت سے محفوظ رکھا۔ لیکن ضیاء الحق نے بھی دوسرے آمروں کی طرح ملک کی جمہوری سیاسی قوتوں کو کمزور کرنے کی پوری کوشش کی اور اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں نئے اور اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کو پروان چڑھایا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کی مخالفت میں سندھ کے شہری علاقوں میں مہاجر قومی موومنٹ کو پنپنے اور پروان چڑھنے کا پورا موقع دیا۔ ان کے ہی دورمیں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی اور ملک کو لسانی، مسلکی اور علاقائی تعصب کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ وہ ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کے فلسفے پر کاربند رہے۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر؟ اس کا فیصلہ وقت ہی کرسکتا ہے۔
الطاف حسین کی پُرتشدد سوچ اور طرزِ سیاست کے اثرات سے تعلیمی ادارے کیسے محفوظ رہ سکتے تھے! ان کی طلبہ تنظیم اب ایک مافیا کی شکل اختیار کررہی تھی اور خود مہاجر قومی موومنٹ کے ذمہ داران اس کے نقصانات کا احساس نہیں کر پا رہے تھے کہ آگے چل کر تشدد کی یہ سیاست خود ان کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگی اور ان کے لوگ آپس میں ایک دوسرے کا قتل کیا کریں گے!
30 اگست 1988ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن اور گورنمنٹ نیشنل کالج کے طالب علم عامر سعید کو اے پی ایم ایس او کے غنڈوں نے اغوا کرلیا اور چند گھنٹوں کے بعد ان کی لاش ملی۔ ان پر بے پناہ تشدد کرکے گولیاں ماری گئی تھیں۔ بدقسمتی سے یہ الطاف حسین کی مافیا کے ہاتھوں جمعیت اور جماعت کے کارکنوں کی آخری شہادت نہیں تھی۔ آنے والے برسوں میں الطاف حسین ایسے دیوتا بن چکے تھے جس کے چرنوں میں آئے روز کسی مظلوم انسان کی قربانی پیش کی جاتی تھی۔
کمشنر کراچی سید سردار احمد بعد ازاں الطاف حسین کی پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی اور سینئر وزیر بنائے گئے۔ جبکہ اگلی کئی حکومتوں میں وفاقی و صوبائی وزارتوں کے مزے لوٹنے والی پارٹی نے سانحہ قصبہ و علی گڑھ کی تحقیقات میں عملی دلچسپی نہیں لی اور آج تک کسی ایک مجرم کو بھی نہ گرفتار کیا گیا اور نہ سزا دی گئی۔
نئی نسل کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ اس سانحہ سے کس کو فائدہ پہنچا؟ کس کی سیاسی مقبولیت راتوں رات آسمان پر پہنچ گئی؟ اور کس پارٹی کے اراکین بعد ازاں کئی دہائیوں تک وفاقی اور صوبائی کابینہ کے رکن بنتے رہے؟
1988ء اور 1990ء کے انتخابات میں سندھ کے شہری علاقوں سے حسبِ توقع مہاجر قومی موومنٹ کے اکثر امیدواروں کو کسی سخت مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ الطاف حسین کی مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ پروفیسر غفور احمد جیسے بلند قامت سیاست دان کنور خالد یونس نام کے ایک غیر معروف شخص سے شکست کھا گئے۔ سید منور حسن اور مولانا شاہ احمد نورانی کو بھی عام لوگوں کے ہاتھوں بھاری مارجن سے شکست ہوئی۔ جماعت اسلامی ان دونوں انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔ مہاجر قومی موومنٹ 1988ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنی، جبکہ 1990ء میں نوازشریف کی حکومت میں شامل ہوگئی۔ عوام سے جو وعدے 80ء کی دہائی سے کیے جا رہے تھے کہ کوٹہ سسٹم ختم ہوگا اور بنگلہ دیش کے کیمپوں سے مہاجرین کو واپس لایا جائے گا، ان مطالبات پر کراچی و حیدرآباد کے نمائندوں نے کبھی بات تک نہیں کی۔
سرکاری اداروں میں میرٹ کی بربادی اور اپنے عہدیداروں اور کارکنوں کو ملازمتیں دینے کی روایت ڈاکٹر فاروق ستار میئر بنتے ہی ڈال چکے تھے۔ وفاقی اور صوبائی وزارتیں ملنے کے بعد یہ روایت اور مستحکم ہوگئی، بلکہ سندھ کی حد تک تو یہ ہوگیا کہ عام آدمی کے لیے کسی بھی شعبے میں سرکاری ملازمت کا حصول ناممکن ہوگیا۔ سرکاری ملازمتیں پیپلز پارٹی اور الطاف حسین کی پارٹی کے عہدیداروں، ان کے رشتے داروں اور کارکنوں ہی کو ملنے لگیں۔ سرکاری ادارے دیکھتے ہی دیکھتے ان سیاسی پارٹیوں کے دفاتر میں تبدیل ہوگئے۔ سرکاری اسکول مڈل کلاس اور غریب لوگوں کی ترقی کا واحد سہارا تھے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی نے غریبوں کے بچوں سے مفت معیاری تعلیم کا سہارا چھین لیا اور نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دیے گئے۔ یہی حال سرکاری ہسپتالوں کا ہوا۔ اس عرصے میں پرائیویٹ اسکولز، کوچنگ سینٹرز اور نجی ہسپتالوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔
دسمبر 1990ء کے پہلے ہفتے میں مجھے جماعت اسلامی ضلع وسطی کا امیر مقرر کردیا گیا۔ اس سے قبل امیر ضلع متین علی خان صاحب تھے۔ سید حفیظ اللہ ان کے قیم تھے، جبکہ میں اور ڈاکٹر معراج الہدیٰ ان کی ٹیم میں نائب امراء کی حیثیت سے شامل تھے۔
میں نے ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کو اپنا قیم نامزد کیا جبکہ حفیظ اللہ صاحب اور افتخار احمد صاحب کو نائب امیر کی ذمہ داری دی۔ ڈاکٹر معراج اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے ناظم رہے تھے اور جمعیت سے فارغ ہونے کے بعد امیر ضلع متین علی خان صاحب نے انہیں اپنی ٹیم میں شامل کر کے عثمان پبلک اسکول پراجیکٹ کا ذمہ دار بنا دیا تھا جو اُس وقت اپنے ابتدائی مراحل میں تھا۔
بے تحاشا مقبولیت اور طاقت نے الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو بری طرح عدم توازن کا شکار کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے ہی ساتھیوں کے درمیان اختلافات پیدا ہونا شروع ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے اوّل روز ہی طے کرلیا تھا کہ اس طوفان کا مقابلہ صبر و استقامت سے کرنا ہے اور ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ دعوتی کام پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور خدمت ِخلق کے ذریعے لوگوں کے دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔
جماعت اسلامی کراچی کی امارت
2فروری 1991ء کو قاضی حسین احمد صاحب نے مجھے جماعت اسلامی کراچی کا امیر مقرر کردیا جبکہ سید منور حسن کو مرکزی نائب قیم کی ذمہ داری دے دی۔1991ء میں بحیثیت امیر کراچی کے جن افراد کو میں نے اپنے نظم میں شامل کیا اُن میں راشد نسیم قیم، عبدالرشید صاحب اور نور محمد لاکھانی صاحب نائب امیر، عبدالرشید بیگ، شمیم احمد صاحب اور سید محمد بلال نائب قیم تھے۔ سابق میئر عبدالستار افغانی پبلک ایڈ کے معاملات دیکھا کرتے تھے۔ جس دن ادارے کی گاڑی اُن کے گھر بوجوہ نہ پہنچ پاتی، وہ رکشہ یا ٹیکسی کرکے دفتر آتے۔ آٹھ سال تک شہر کا میئر رہنے والا شخص منصب سے ہٹنے کے بعد ذاتی سواری تک نہیں خرید پایا تھا۔ شاہد شمسی سیکریٹری اطلاعات تھے۔ اسامہ اسماعیل مراد کے پاس سیکریٹری الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کی ذمہ داری تھی۔ 1994ء میں، مَیں نے کچھ تبدیلیاں کیں اور محمد حسین محنتی کو قیم نامزد کیا جبکہ سید حفیظ اللہ اور افتخار احمد کو نائب امیر کی ذمہ داری دی۔ معظم علی قادری نائب قیم بنائے گئے۔ سید حفیظ اللہ نائب امیر کے ساتھ ساتھ الخدمت کے سیکریٹری بھی تھے۔ سابق قیم کراچی سید آصف علی صاحب میرے پورے دورِ امارت میں شعبۂ تعلیم کے ذمہ دار رہے۔ الخدمت کے حفظ و ناظرہ قرآن کے مدارس ان کی زیر نگرانی تھے۔ جبکہ سعودآباد میں کراچی جماعت کا سب سے بڑا اقامتی دینی مدرسہ جامعہ حنیفیہ بھی انہی کی زیرنگرانی تھا۔ 1993ء سے 1996ء کے دوران اس شعبے نے ایک نوجوان رکنِ جماعت سید نعیم احمد کی کوششوں اور محنت سے سعودآباد، فیڈرل بی ایریا اور اورنگی ٹاؤن میں حنیفیہ پبلک اسکول کے 6 کیمپس قائم کیے۔ سید آصف علی صاحب کراچی جماعت کے سینئر رہنماؤں میں شامل تھے اور انتہائی متقی انسان تھے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کا پہلا دفتر ان کے ذاتی مکان میں قائم ہوا تھا۔ وہ روزانہ صبح جامعہ حنیفیہ جاتے اور شام کے وقت ادارہ نور حق آیا کرتے تھے۔
کراچی کی امارت کا منصب سنبھالنے کے بعد نہ صرف یہ کہ وکالت کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل ہوگیا بلکہ سچ یہ ہے کہ اہلِ خانہ کے لیے بھی مشکل ہی سے وقت نکال پاتا تھا۔ اہلیہ اور بیٹیاں دبے لفظوں میں شکوہ ضرور کیا کرتی تھیں، لیکن میرے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا۔ بڑے صاحبزادے وسیم اقبال نے این ای ڈی یونی ورسٹی سے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کر رہے تھے۔ عزیزی ندیم اقبال نے ایل ایل بی کیا اور آہستہ آہستہ ”نعمت اللہ اینڈ کو“ کو سنبھالا اور میرے برسوں پرانے کلائنٹس کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ کسی بیٹے نے کبھی سرکاری ملازمت کی خواہش ظاہر نہیں کی، کیونکہ سب اچھی طرح جانتے تھے کہ میں کسی سے بھی ان کے لیے سفارش نہیں کروں گا۔ فہیم اقبال اور ناظم اقبال نے پرنٹنگ کا بزنس کیا، لیکن جماعت اسلامی یا الخدمت سے پرنٹنگ کا کام لینے کی انہیں اجازت کبھی نہیں ملی۔
1991ء میں الطاف حسین کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ سے خراب ہوگئے اور انہیں راتوں رات ملک سے فرار ہونا پڑا۔ جب ان کے ٹارگٹ کلرز کے خلاف فوجی آپریشن شروع ہوا تو اُس وقت جماعت اسلامی نے متوازن اور جمہوری رویہ اپنایا۔ ہر فورم پر آپریشن کی مخالفت کی، کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے خلاف فوجی آپریشن مسائل کا حل نہیں ہے۔ پولیس اور عدالت کے نظام میں بنیادی اصلاحات کے بغیر نہ امن و امان قائم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مجرموں کی بیخ کنی کی جاسکتی ہے۔ شہر کا حال یہ تھا کہ کسی بھی تھانے میں دہشت گردوں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروائی جاسکتی تھی۔ جرم اگر درجنوں لوگوں کے سامنے دن دیہاڑے بھی ہوا کرتا تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ گواہی دیتا۔
الطاف حسین کے قریبی ساتھیوں آفاق احمد اور عامر خان کی مدد سے ایک الگ دھڑا بنوا دیا گیا۔ شہر کی دیواروں پر نعرے لکھوا دیے گئے کہ ’’جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے‘‘۔ دونوں گروہوں نے ایک دوسرے کے لوگوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔