12 مئی 2004ء – ایک خوں آشام دن
شہر میں سٹی گورنمنٹ کے نظام کی وجہ سے ہر طرف ترقیاتی کام ہوتے ہوئے نظر آتے تھے۔ یونین کونسل، ٹاؤن اور شہر کی سطح پر منتخب نمائندے موجود تھے جو عوام کے مسائل کے حل کے لیے صبح سے رات گئے تک مصروفِ عمل رہا کرتے تھے۔ گلبرگ کے ٹاؤن ناظم فاروق نعمت اللہ فجر کی نماز پڑھ کر ٹاؤن آفس پہنچ جاتے اور اپنی نگرانی میں کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کو روانہ کرتے تھے۔ باقی ٹاؤن ناظمین بھی اسی جوش و جذبے سے کام کررہے تھے۔ صفائی کے اسٹاف کو صبح سویرے کام شروع کرنے کی ہدایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گلیوں اور سڑکوں پر کچرا پھینکا ہوا نظر نہیں آتا تھا۔ جماعت کے یوسی ناظمین اور کونسلرز شکوہ کرتے کہ خان صاحب! فجر کی نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی آس پاس موجود لوگ اپنے مسائل بتانے لگتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ہمارے پاس نہ کرنے کا آپشن نہیں ہوتا۔ میں ان سے کہتا کہ اللہ کا شکر ادا کیا کریں کہ اس نے آپ کو مسائل کے حل کا اختیار عطا کیا ہے۔ اسی خدمت سے جنت بنانے کی کوشش کیجیے۔
شہر میں طویل عرصے کے بعد روشنیاں اور رونقیں بحال ہوگئی تھیں اور لوگوں نے سُکھ کا سانس لیا تھا۔ یہ امن و امان شہر کے نام نہاد ٹھیکیداروں کو پسند نہیں آیا۔ بدامنی، ہڑتالوں، تشدد اور قتل و غارت کے رسیا لوگوں کو 2004ء کے ضمنی الیکشن نے کھل کھیلنے کا موقع فراہم کردیا۔
12مئی کو شہر میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں پر ضمنی الیکشن ہوا۔ متحدہ مجلس عمل نے ان نشستوں پر قاری عثمان، حافظ محمد تقی اور راشد نسیم کو امیدوار نامزد کیا تھا۔ راشد نسیم حلقہ 246 سے امیدوار تھے جس میں لیاقت آباد اور فیڈرل بی ایریا کے علاقے شامل تھے۔ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر 90 بھی اسی حلقے میں واقع تھا۔ دوپہر 12 بجے تک سست روی لیکن پُرامن انداز میں ووٹ ڈالے جاتے رہے۔ اس کے بعد متحدہ کے دہشت گردوں نے پولنگ کے عمل کو تہس نہس کرنے کے پلان پر عمل درآمد شروع کردیا۔ سینکڑوں لوگ ہاتھوں میں اسلحہ اٹھائے پولنگ اسٹیشنز میں داخل ہوگئے اور ہمارے پولنگ ایجنٹس پر براہِ راست فائرنگ شروع کردی۔ بظاہر ان کا مقصد یہ تھا کہ مخالف پولنگ ایجنٹس وہاں سے چلے جائیں تاکہ وہ اپنے امیدواروں کے لیے بیلٹ پیپرز پر ٹھپے لگاسکیں اور مقابلہ یک طرفہ ہوجائے۔
تینوں نشستیں متحدہ ہی کے اراکین نے مستعفی ہوکر خالی کی تھیں اور بظاہر کسی سخت مقابلے کا امکان بھی نہیں تھا، لیکن متحدہ کے دہشت گردوں نے 12 مئی کی دوپہر کے بعد شہر کی گلیوں کو خوں رنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ وہ اپنے سیاسی مخالفین اور عام شہریوں پر دہشت بٹھانا چاہتے تھے کہ خبردار کوئی ہمارے سامنے مقابلے پر نہ آئے، کوئی سر نہ اٹھائے۔ شام تک مجلسِ عمل کے درجنوں کارکنان ان کی گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔ جبکہ تشدد کا نشانہ بننے والوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ رات تک 12 افراد کی شہادت کی خبر آچکی تھی۔ میں نے بحیثیت سٹی ناظم ہر اُس فرد سے بار بار رابطہ کیا جو امن و امان قائم کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکتا تھا۔ لیکن ایسا محسوس ہورہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلیٰ افسران گونگے بہرے ہوچکے ہیں، یا پھر یہ کہ یہ خون کی ہولی اُن کی مرضی سے کھیلی جارہی ہے۔ الیکشن کمیشن کا عملہ مکمل طور پر بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ بہرحال جماعت کے کارکنان نے آخری وقت تک استقامت کا مظاہرہ کیا اور پولنگ اسٹیشنز چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوئے، لیکن جب نوبت یہ آگئی کہ خواتین تک پر تشدد شروع ہوگیا اور ان کی زندگیوں کو بھی خطرات لاحق ہوگئے تو پھر ہمارے کچھ پولنگ ایجنٹس نے نظم کو مطلع کرکے وہاں سے جانے میں عافیت سمجھی۔ بارہ مئی کو شہید ہونے والے کارکنان میں نور عالم، عبدالرحمٰن، عبدالعزیز وہرہ، خالد خان، شان محمد، ریاض انجم، محمد عابد، وقار احمد، مدثر اور عشرت علی شامل تھے۔
متحدہ نے اچانک اپنے اراکینِ قومی اسمبلی سے استعفے کیوں لیے تھے؟ کسی نئے دھڑے بندی کی خبر تھی؟ مالی بے ضابطگیوں کا کوئی معاملہ تھا؟ یا محض شہر میں خوف و دہشت کی فضا قائم کرنی تھی؟ اصل وجہ کبھی عوام کے سامنے نہیں آسکی۔